بیوی کے ساتھ سلوک

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’والمؤمنون والمؤمنات بعضہم اولیاء بعض،ےأمرون بالمعروف وینہون عن المنکر‘‘(توبہ/۷۱)مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ،بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔
مسلمانوں کو بدگمانی سے روکا گیا ہے،بیوی سے بھی بدگمانی نہیں ہونی چاہئے کہ اس سے میاں بیوی دونوں کی زندگی تلخ ہوجاتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوتی ہے۔
’’یاأیھا الذین اٰمنواجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثمٌ‘‘(الحجرات/۱۲)ائے لوگو جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پر ہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
ان دنوں خواتین کی رفتار و گفتار،بناؤ سنگار اور لباس وغیرہ میں مغربی تہذیب کے اثرات نمایاں ہوتے جارہے ہیں، اسلامی احکامات وہدایات کا تقاضا ہے اور دینی غیرت و حمیت کہتی ہے کہ بیویاں اسلامی تہذیب کو اختیار کریں اور مسلمان بیویاں بننے کی کوشش کریں۔مگر ظاہر ہے اس سلسلہ میں بھی حکمت و دانشمندی اور شفقت و نرمی سے کام لینا چاہئے۔
غیرت وحمیت بھی اپنی جگہ اہم اور قابل قدر چیز ہے،عورتوں کو چاہئے کہ عریاں اور نیم عریاں لباس سے پرہیز کریں،گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں عطر و سنٹ وغیرہ خوشبودار چیزوں کا استعمال نہ کریں اور غیر محرم مردوں سے انکا ملنا جلنا نہ ہو۔
شوہر پر بیوی کی معاشی کفالت اور اسکے جائز اخراجات کی ذمہ داری ہے،حلال کمائی سے اسکے کھانے پینے اور لباس وغیرہ تمام ضرورتوں کا حسب حال انتظام کرنا چاہئے اور اس میں نہ بخل سے کام لینا چاہئے نہ اسراف اور فضول خرچی کو روا رکھنا چاہئے۔
’’کلوا واشربوا ولا تسرفوا‘‘(الاعراف/۳۱) کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرا۔ شوہر کو یہ نہیں کرنا چاہئے کہ اپنے لئے تو بہترین کھانے کا انتظام کرے اور بیوی بچوں کو معمولی کھانے کھلائے۔سب کو ایک ہی طرح کا کھانا کھانا چاہئے۔
اگر بیوی کو نماز روزہ اور طہارت وغیرہ کے مسائل و احکام نہ معلوم ہوں تو انکی تعلیم دینا بھی شوہر کی ذمہ داری ہے۔وہ یا تو خود سکھائے یو بیوی کو اپنے طور پر سیکھنے کا مناسب موقع فراہم کرے۔
بعض بیویاں کبھی کبھی سرکشی و نافرمانی پر آمادہ ہوجاتی ہیں انہیں راہ راست پر لانے کے لئے معقول و مناسب تدابیر اختیار کرنی چاہئے اور حکمت و دانائی سے کام لینا چاہئے۔ اس معاملہ میں قرآن کریم کی بہت واضح اور متعین ہدایات ہیں۔’’والّٰتی تخافون نشوزہن فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن‘‘(النساء/۳۴)اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو۔
یعنی درجہ بدرجہ انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے اور آخری صورت میں بھی انہیں چہرہ بگاڑدینے جیسے کسی جسمانی نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں۔اب ایک سے زیادہ شادی کا رواج نہیں رہ گیا ہے۔تاہم اگر کسی شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو انکے درمیان عدل و انصاف سے کام لینا ضروری ہیورنہ بڑا ظلم اور شدید گناہ شمار ہوگا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور اس نے ان دونو ں کے درمیان عدل و برابری سے کام نہیں لیا، وہ قیقمت کے دن اس طرح آئیگا کہ اسکا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا۔(ترمذی)۔
نکاح میں اسلامی شریعت کی روح کے مطابق سادگی اور آسانی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے، جہیز کا مطالبہ اور خواہش یکسر غلط ہے، اسی طرح بڑی بڑی باراتیں لیجاکر لڑکی والوں پر دعوت کا بوجھ ڈالنا بھی غلط ہے،ولیمہ صرف شوہر کے گھر والوں کو کرنا چاہئے اور اس میں اسراف بے جا اور نمود و نمائش سے پرہیز کرنا چاہئے۔ (آداب معاملات/ابو مسعور اظہر ندوی/ص:۱۳۰)

«
»

دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے آخر کون۰۰۰؟

موہن بھاگوت: ہوئے تم دوست جس کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے