کسی سے لڑنے ،اختلاف کر نے اور ناچاقی کر نے سے ہمیشہ کے لیے تو بہ کر لی۔بڑے ملکوں سے ہر قیمت پر تعلقات استوار کیے۔بین الاقوامی منڈیوں میں اپنا سرمایہ لگایا اور اونے پونے منافع سے خوش ہو گئے ۔غریب ممالک نے یہ کیا مگرشاطر اسرائیل ،امریکہ،بر طانیہ او ردیگر یورپی ممالک نے اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کا ہی اغوا کرکے اسے اپنی رکھیل بنا لیا اور اس کا صدر دفتر جینوااس کے بعد نیویارک منتقل کر کے اس کے تمام اختیارات محدود کر دیے اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کو مکمل طور پر بے دست و پا کر دیا۔اس کے منہ میں اپنے سیم و زر ٹھونس کر یا اس کے سر پر اپنا تاج رکھ کر اسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔
پھر دنیا نے دیکھاکہ دیکھتے ہی دیکھتے امریکی،اسرائیلی اور یورپ کی مشترکہ اقوام و افواج کے ہاتھوں کویت،عراق ،شام،افغانستان،لیبیا،مصر، فلسطین سب کے سب تباہ و بر باد ہو گئے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ان طاقتوں کے اشارو ں پر ناچ ناچ کراُلٹامظلوموں کو ہی صبر و ضبط کی تلقین کر تی رہی۔ کہیں کہیں اس نے بے قصوروں کو دفاعی حرکات پر ہی مجرم بنا کر ان پر مقدمے چلوادیے او رفیصلے ان معصوموں کی پھانسیوں کے دیے۔پھر جیسے ہی ’’مجرم ‘‘ ختم ہو ئے ،اقوام متحدہ اور اس کے آقاؤں نے قہقہے لگائے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جتنا نقصان گزشتہ تین چاردہاہیوں میں عالم انسانیت اور دنیا بھر میں ہوا ہے۔جس قدر قتل و غارت اور املاک کی تباہی و بربادی ہو ئی ہے ۔جتنی بڑی تعداد میں دنیا میں بیماریاں،ناسوراورخطرناک وائرس پھیلے ہیں دو نوں جنگ عظیموں کے نتائج میں بھی اتنے نہیں دکھا ئی دیے،حالاں کہ اس وقت تو کوئی بین الاقوامی ضابطۂ جنگ و حرب نہیں تھا۔کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا جس کے ڈرے سے غالب افواج بے اعتدالیاں نہیں کر تیں مگرانھوں نے ایسا نہیں کیا اور آج جب کہ سب کچھ موجود ہے،پڑوسی یا دور کے ممالک کے آپسی اختلافات اور ایک دوسرے پر زیادتیوں کی شکایت کا نپٹارہ کر نے کے لیے بین الاقوامی عدالتیں،ادارے اور قوانین قائم ہیں اس کے باوجود ہماری آنکھوں نے اتنی بڑی تعداد میں انسانیت کو تباہ و برباد اور جلتے جھلستے دیکھاہے جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔بر ماخانہ جنگی کی آگ میں بار بار جلا۔روہنگی مسلمان چن چن کر دردناکی اورسفاکی سے مارے گئے۔پاکستان، کشمیر،افغانستان،ایران اور مصرو وشام میں لاشو ں کے ڈھیر لگا دیے گئے۔پر امن ممالک کا امن غارت کر نے کے لیے مجرمانہ سازشیں رچیں گئیں اور آج بھی رچی جا رہی ہیں ۔یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر اقوام متحدہ بالکل خاموش ہے۔کسی پتھر کی مورت کی طرح وہ سب کچھ دیکھ رہی ہے مگر اس میں ہاتھ اٹھانے کی قوت نہیں ہے۔اس کی آنکھوں کے سامنے ہی سب کچھ ہو رہا ہے مگر اس میں آنکھ ٹیڑھی کر نے کی بھی جسارت نہیں ہے۔اقوام متحدہ دنیا کی عالم گیرتباہی و بربادی کا نظارے دیکھ رہی ہے مگر اس میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ مجرموں کو ان کے جرم سے بازرکھے اور دنیا کا امن غارت نہ ہو نے دے۔اقوام متحدہ دنیا میں ہونے والی ہر نقل و حرکت سے واقف ہے مگر اس میں حوصلہ نہیں کہ وہ بازپرس کر ے اور مجرموں کو سزا دے۔پھر کو ئی انصاف پسند بتائے کہ اس معذور،بے بس ،ناکارہ،لاچار اور بیمار اقوام متحدہ کا ہم کیا کریں۔اقبال بقول ’’اس خوشۂ گندم کو جلا کیو ں نہ دیں جس سے دہقاں ہی کا نہیں بلکہ ان کا بھی فائدہ نہیں جن کی توقعات ان سے جڑی ہو ئی ہیں ۔‘‘ہاں !یقیناًایسی اقوام متحدہ جلادینے کے ہی قابل ہے جس نے بجائے سلامتی و تحفظ کے دنیا کا امن غارت کر ڈالا اور ساری دنیا میں انارکی پھیلادی ۔
اقوام متحدہ کے صرف یہی جرائم نہیں ہیں بلکہ زندگی کے جس جس شعبے کو بھی اس نے سنبھالنے کا دعوا کیا اسی میں اس نے انسانیت او رآدمیت سے بھدا مذاق کیا۔افریقہ کے ممالک سے تعصب برتا اور وہاں خطرناک و مہلک وائرس پھیلا دیے۔مشرقی و ایشیائی ممالک میں ایڈس،فحاشی ،عریانیت اور سیکس کے طریقے ایجاد کر دیے ۔عرب ممالک میں عیاشیوں کے سامان عام کر دیے۔اس کی یہ تمام کالی کر توت بتا رہی ہیں کہ اقوام متحدہ کامقصد کبھی انسانیت کی خدمت ا ور فلاح و بہبود نہیں رہا اور نہ ہی کبھی اس نے انسانوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے منصوبے بنائے بلکہ یہ ایک عالمی سازشی ادارہ ہے جس کی آڑ میں بڑی طاقتوں اور ملکوں نے کمزور و نادارممالک و اقوام کو بر باد کیا ہے او ران کے قدرتی جواہرکو لوٹا ہے۔ان کے ملکوں پرقبضہ کر نے کی مذموم کوشش کی ہے اور ان کی عزت و ناموس سے کھلواڑ کیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اقوام متحدہ ان ممالک کی کارروائیوں اور حرکات و سازشوں سے واقف نہ تھی،بلکہ اسے سب کچھ پتا تھا مگر چپ رہی اور اپنے فرض سے جان بوجھ کر غافل برت کر انسانیت کی تباہی کاتماشا دیکھتی رہی۔اقوام متحدہ کی یہ مجرمانہ خاموشی ا ورتماشابینی ممکن ہے اس کے لیے چھوٹی بات ہو مگر خدا کی عدالت میں اس کے اس جرم کی بہت بڑ ی سزا ملے گی اور اسی جہنم میں اسے جلا یا جائے گا جس میں اس کے آقا جلیں گے ۔
یہ سچائی ہے کہ دنیا کے تمام انصاف پسند اب ،اقوام متحدہ کی انسانیت کش پالیسیوں سے عاجز آچکے ہیں اور ان کی سب سے پہلی تمنا یہی ہے کہ اب اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرکو آگ لگا دینی چاہیے۔بھلاجس نے بجائے انسانوں کی خدمت اور معصوموں کے تحفظ کے تباہی پھیلائی اور مجرموں کی پشت پناہی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد نہ اقوام متحدہ رہے گی اور نہ ہی مجرم بچیں گے۔پھر دنیا حقیقی امن و آمان کا نظارہ کر ے گی۔
مجھے یقین کامل ہے کہ امریکہ و اسرائیل اور یورپ کی اقوام ہر گز یہ بات بر داشت نہیں کر یں گے کو ئی ان کی رکھیل سے ایسا ویسا کہے او راس کے وجود کے مٹانے کی وکالت کر بیٹھے ،مگر اب ایسا ہو کر رہے گا اور اقوام متحدہ ضرر اپنے انجا م بدکو پہنچے گی۔
جواب دیں