بہار ایم ایل سی الیکشن میں سیکولرزم کی ہار۔

بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 14.5فیصد یعنی تقریباً ایک سو ساٹھ ملین ہے۔ لوک سبھا کے 543 میں سے 102 حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم ووٹ قابل لحاظ تعداد میں ہیں۔ 26 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان 30 فیصد ہیں اور 14 سیٹیں وہ ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ مسلمان بالعموم انتخابات میں اپنی قوت، پسندیدگی یا ناراضگی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ شمالی بھارت میں سیاسی لحاظ سے کانگریس کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی ناراضگی ہے۔ انیس سو نواسی کے بھاگلپور فسادات کے بعد بہار میں اور 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں مسلم ووٹروں نے کانگریس سے ناراض ہوکر اس کے خلاف جو ووٹ دیا اس کی مار سے وہ ابھی تک ابھر نہیں پائی ہے۔ اور یہ سب کو معلوم ہے لیکن نچلی ذات کے ایک گوالے کا بیٹا، انتیس سال کی عمر میں بھارتی پارلیمان کا کم عمر ترین رکن، کلرک، ساری دنیا میں بہاری کلچر متعارف کروانے والا، ہندوستانی ریلوے کی کایا کلپ کا بانی، کئی وزرائے اعظم کی کرسیاں کھسکانے اور انہیں راج سنگھاسن پر بٹھانے والے لالو پرشاد یادَو نے جو پہلی کامیابیاں حاصل کیں وہ مسلمانوں کو الو یا ان کو بی جے پی کا خوف رلا کر کہ اگر ان کو وو5 گیا تو مسلمان کا وجود ختم ہو جائے گا اور مسلمان خوف زدہ ہو کر اور مسلمانون کا مسیحا سمجھ کر ووٹ اس کی جھولی میں ڈال دیتالیکن مسلمان لالو کی سیاسی چال اس وقت سمجھے جب وہ پہلی با ر جب وہ جیل گئے تھے تو ان کو وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا تھااور اپنی بیوی کوجو دیہاتی ،گھریلو اور ان پڑھ تھی اسے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر بٹھا دیا۔ ملک بھر میں اس کا مذاق اڑایا گیا اور رابڑی دیوی نے بھی اگرچہ اپنی ناتجربہ اور لا علمی کے باوجود اپنے آپ کو سنبھالے رکھا مگر ظاہرہے کہ وہ نہ سیاست میں تھیں ، نہ حکومت کے فن و گر سے واقف تھیں۔ کسی طرح کھینچ تان کر انہوں نے کچھ دن تک سنبھالا لیکن اس سے لالو اوران کی پارٹی کی ساکھ مجروح ہوئی۔ ان کی پارٹی کی کمزوری وہیں سے شروع اور زیادہ ہوگئی اور پارٹی کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ اس وقت کچھ لوگوں نے انہیں مشورہ دیا تھاکہ عبد الباری صدیقی کو وزیر اعلیٰ بنا دیں لیکن لالو نے اس تجویز کو پسند نہیں کیا اور ان کو یہ خوف لاحق رہا کہ کہیں ان کی طاقت کمزور نہ ہوجائے۔ آج عبد الباری صدیقی اسمبلی میں لالو کی پارٹی آر جے ڈی کے سربراہ ہیں جبکہ ان کا حق بھی ہوتا ہے کہ اسمبلی سے باہر بھی آر جے ڈی کی سربراہی کریں اگر لالو کی پارٹی اور لالو مل کر صدیقی کے حق میں فیصلہ کرتے تو آر جے ڈی کے حق میں یہ بہتر ثابت ہوتا۔ لیکن لالو جی کو خاندانی سیاست چمکانا ہے اس لیے وہ عبد الباری صدیقی کو نہیں بنایا تومسلمانوں کا بھی جھکاوآر جے ڈی کی طرف کچھ کم ہوتا چلا گیاہوتااور حالیہ ایم ایل سی مین 10سیٹوں میں اپنی برادری کو دینا تو آخری کیل ثابت ہوا اور سیکولر اتحاد میں اپنے کو بڑا بھائی کہنے والے اور ان کی پار ٹی راشٹریہ جنتا پارٹی کو مسلمانون نے بڑا جھٹکا دیا اور کونسل کی 24 سیٹون میں سے 12 بی جے پی کے کھاتے میں ڈال کر اور مسیحا ئی کے جھوٹا دعویٰ کرنے والے کو 10 میں سے صرف 4 سیٹ پر سمیٹ دیا یہ کوئی مودی لہر کا نتیجہ نہیں بلکہ لالو جی کے اہنکار کا نتیجہ تھا اسی لیے کہ مسلمانون نے لالو کو سمجھ گیے لالوجی کانگریس کی طرزپرمسلمانوں کوبی جے پی سے ڈراکریہ بھی کب کہتے رہے کہ مسلمانوں کوچپ چاپ بیٹھ جاناچاہئے ان کی لڑائی ہم لڑیں گے ورنہ سب ہندوبی جے پی کی طرف چلے جائیں گے۔۔۔اور تمام سیٹ یادو کو دے دیا اورساٹھ برسوں کی طرح پھرمسلمانوں کواستعمال کرنے کاپلان تھا۔۔۔.لالویادوکی یہ ذہنیت انہیں مزیدلے ڈوبے ۔۔۔.مسلمان اب بیدارہوچکے ہیں۔۔۔دہلی نے سب کو سبق سکھادیاہے لیکن ابھی بھی سیکولرزم کے دعویداروں کو ہوش نہیں آیاہے…انہیں استحصال اوراستعمال کرنے والی پالیسی اب بدلنی یوگئی…مسلمانوں کواب لفاظی اورچٹکلوں سے بے وقوف نہیں بنایاجاسکتاانہیں اپنی اوقات بھی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ نتیش جی بھی دس ہی سیٹ پرالیکشن لڑے تھے اورلالوبھی لیکن یادوپریم انہیں لے ڈوبا اوریہ سمجھے کہ یادو سیاسی کشتی کو پاڑ لگا دیں گے اب سمجھ میں آگیا یادومیں کتنا دم ہے.اب مناسب وقت ہے کہ نام نہادہی سہ سیکولراتحادکے سامنے مسلمانوں کواپنی دعویداری پیش کرنی چاہیئے اورٹکٹ کی تقسیم میں مناسب نمائندگی کے مطالبہ کے لیئے دباوبناناچاہیئے۔۔۔..سیکولرزم کء حفاظت کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہی نہیں ہے.آبادی کے تناسب سے سیکولراتحادمسلمانوں کوٹکٹ دے نہیں تو جسَ طرح اقلیت کا ووٹ بی جے پی کے امید وار کو گیا ہے جو کہ اچھی بات نہیں ہے اسے یہ بات صاف ہوگیا کہ اب فرقہ پرستی کا خوف دلا کر سیکولر زم کے نام پر انہیں استعمال کیا گیا اب مسلمان نہ استعمال ہوں گے اور نہ ان کا استحصال کیا جائے گااورکب تک اس طرح سیاسی بازی گروں کے ہاتھوں کا کھلونا بنتے رہیں گے۔اورکب تک ہسلمانوں کو بے وقوف بنا یا جائے گا کر اور مسلمانوں کے بچوں اور نوجوانوں کو اصل مسائل سے ہٹا کرافیم دے کر سلایا جاتا رہے گا۔ اس لیے مسلمانوں کا کونسل الیکشن کا فیصلہ سیاسی اعتبار سے اور ان فرقہ پرستوں کو ووٹ جانا اور فرقہ پرستوں کا جیتنا درست نہیں نہیں ہے .اس صورتحال کے مد نظر ارباب فکرو نظر یہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ کا مل اتحاد کا مظاہرہ ہو۔ کا مل اتحاد کا مظاہرہ دو طریقوں پر کیا جا سکتا ہے۔ اولاً مکمل اتحادو اتفاق اور خلوص نیتی سے ایک محکم و مستحکم مسلم پا رٹی کا قیا م عمل میںآ ئے یا کو ئی پرانی مسلم پا رٹی کو ہی از سر نو تشکیل دیا جا ئے اور مسلم ووٹرس صمیم قلب سے تہیہ کر لیں کہ اس کے امید واروں کو ہی اپنا قیمتی ووٹ دینگے۔ دوم، مسلم ووٹرس جس پارٹی کو بھی ووٹ دیں مکمل اتحاد کے ساتھ دیں اور ساتھ ہی ساتھ اس پا رٹی کے موقر لیڈران پر یہ حقیقت اچھی طرح واشگاف کردیں۔ بعید از امکان نہیں کہ یہ کا مل اتحاد کو ئی مژدہ جا ں فزا لے کر آئے اور اس پا رٹی سے مسلما نوں کا کو ئی فائدہ ہو سکے۔(یو این این)

«
»

جہیز کے خلاف ذہنی بیداری مہم نہایت ضروری

معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے