بہار میں نریندر مودی کا وقار داؤ پر

جب کہ بھاگلپور ضلع میں آئندہ 30 اگست کو ریلی سے خطاب کئے جانے کا امکان ہے۔اس سے قبل وزیر اعظم مودی بہار کا ایک سرکاری دورہ کر چکے ہیں اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ساتھ اسٹیج شیئر کرچکے ہیں مگر وہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے باز نہیں آئے۔مودی کے دورہ بہار کو آئندہ بہار اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی تیاری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
آر پار کی جنگ 
بہار انتخابات کا وقت جیسے جیسے قریب آرہا ہے دونوں طرف سے نئے نئے داؤ آزمانے کی کوششیں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ شہ مات کے کھیل میں ہر کوئی اپنا پتہ بہت شاطرانہ طریقے سے پھینک رہا ہے۔ابھی کسی پارٹی نے امیدوارون کے ناموں کا اعلان نہیں کیا ہے مگر باوجود اس کے نتیش کمار نے سب سے پہلے اپنی انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ لالو پرساد بھی اپنے رنگ میں نظر آنے لگے ہیں اور بی جے پی نے اپنے مہارتھیوں کو اتارنا شروع کردیا ہے۔ سنگھ پریوار سے جڑے ہوئے لوگ ہر سطح پر بی جے پی کے لئے سرگرم ہوگئے۔ پورے ملک سے آر ایس ایس کے تجربہ کار افراد کو بہار لایا جارہا ہے تاکہ کسی بھی قیمت پر اس دنگل کو جیتا جاسکے اور یہ ثابت کیا جاسکے کہ بی جے پی کا جادو اب بھی برقرار ہے اور نریندر مودی کی لہر آج بھی موجود ہے۔ بی جے پی اب تک کسی بھی فرد کا نام وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر آگے نہیں کرسکی ہے مگر تشہیری رتھ نکال کر اس نے نتیش کمار کے پرچار کے کاٹ کا انتظام کردیا ہے۔ 
بی جے پی کا تشہیری رتھ
بہار میں بی جے پی کا تشہیری رتھ تیار نکل چکا ہے۔جدید تیکنالوجی سے لیس’’ رتھ‘‘ کے سہارے بی جے پی 100 دنوں میں ایک لاکھ اجلاس کرے گی۔ پارٹی صدر امت شاہ نے گاندھی میدان سے ہائی ٹیک انتخابی مہم کو شروع کردی ہے اور عنقریب نریند رمودی بہار کے انتخابی دورے پر آنے والے ہیں۔ وہیں اس بار نعرہ ہوگا’’دو سال، بہار بدحال‘‘۔ان ہائی ٹیک رتھوں کی تعداد ابتدا میں 160رکھی گئی ہے ۔گاؤں گاؤں گھومنے والی ہائی ٹیک رتھوں کی تعداد کو جلد ہی بڑھا کر 243 کر دیا جائے گا۔ ہائی ٹیک رتھ کے ذریعے بی جے پی کا ہدف محض 100 دن میں ایک لاکھ اسمبلی اجلاسوں کے ذریعے 6.5 ملین ووٹروں تک اپنی پہنچ بنانا ہے۔پچھلے انتخابات میں 300 9،ایسے بوتھ تھے جہاں محض 50 ووٹوں کے فرق سے بی جے پی کی شکست ہوئی تھی۔ پارٹی کے قومی صدر نے بہار کی پارٹی یونٹ کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان رتھوں کا استعمال روزانہ 1000 سے 1200 جلسوں کا انعقاد کرنے میں کیا جائے گا۔اسی کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پارٹی کو جتانے کے لئے 100 اضافی ووٹر لائے جائیں۔امت شاہ نے اپنی پہلی حکمت عملی کے تحت پارٹی کی ریاستی یونٹ کو یہ ہدایات دی ہیں کہ ریاست کے کل 779 62بوتھوں میں سے ہر ایک پر پارٹی کے کم سے کم 20 رکن موجود رہیں گے۔اس سے پہلے 5 سے 10 رکن ہی ایک بوتھ پر ہوتے تھے۔ اس بار بہار انتخابات کے پیش نظر پارٹی نے اپنے پرانے سلوگن ’’اب کی بار مودی سرکار‘‘ کو بدل کر ’’اب کی بار بی جے پی سرکار‘‘ کر دیا ہے۔
کتنا ہائی ٹیک ہے بی جے پی کا رتھ؟
بی جے پی کے ہر تشہیری رتھ میں 52 انچ کی اسکرین لگی ہے، جس پر لوگوں کو بی جے پی کے بڑے لیڈروں کی تقریر یں سنائی جائیں گی۔ پارٹی لیڈر اور مقبول گلوکارواداکار منوج تیواری کے جوشیلے نغمے کی ایک دھن بھی بنائی گئی ہے ۔ہر رتھ میں 4 لوگ ہوں گے جن کے ساتھ ایک موبائل App ہوگا جو گاڑی اور اس کے پرچار کی پوری معلومات کنٹرول روم کو دے گا۔بی جے پی نے تشہیری رتھ کے ذریعے 100 دنوں میں ایک لاکھ انتخابی جلسوں کا ہدف طے کیا ہے۔ان رتھوں کی رپورٹنگ براہ راست امت شاہ کے دفتر کو ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مہم میں این ڈی اے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے یہ مکمل مہم بی جے پی کے پرچم تلے ہے۔اگرچہ اتحاد کے تمام لیڈروں کی تصاویر اس رتھ میں لگائی گئی ہیں۔رتھ میں رام ولاس پاسوان، اپیندر کشواہا اور جیتن رام مانجھی کی تصاویر کو جگہ دی گئی ہے۔سورت کے ، 100 تاجروں نے بہار میں مودی برانڈ سے انتخابی مہم چلانے کے لئے مقامی رہنما سی آر پاٹل سے مل کر بات چیت کی۔ بات چیت میں یہ طے کیا گیا کہ قابل استعمال تمام اشیاء اور تھیلوں پر بی جے پی یا مودی کا نام پرنٹ کیا جائے گا۔
بی جے پی کے گلے کی ہڈی
جہاں ایک طرف بی جے پی پورے دم خم کے ساتھ بہار کا دنگل جیتنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے وہیں دوسری طرف خود اس کے اپنے ہی لوگ اس کے لئے مشکلیں کھڑی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔مسلسل باغی تیوروں میں دکھائی دے رہے’’بہای بابو‘‘ ’’شاٹ گن‘‘ یعنی شتروگھن سنہا نے ودھان پریشد میں جیت کے نشے میں ڈوبی بی جے پی کی خوشی یہ کہہ کر کافور کر دی ہے کہ پارٹی کو اس جیت پر اترانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ یہیں پر نہیں رکے انہوں نے بڑی فتح کے بعد بھی بی جے پی میں کسی کو وزیر اعلیٰ کے قابل نہ مانتے ہوئے لوک جنشکتی پارٹی کے سربراہ رام ولاس پاسوان کو بہتر امیدوار بتا دیا۔مرکزی قیادت کی طرف سے مسلسل خود کو نظر انداز کرنے سے شتروگھن سنہا کی ناراضگی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بیباک بیانات سے کئی بار پارٹی کی مشکلات بڑھا چکے ہیں۔اب انہوں نے یہ کہہ کر پارٹی کے سامنے کشمکش کی کیفیت پیدا کر دی ہے کہ پاسوان وزیر اعلی کے عہدے کے لئے بہتر چہرہ ہو سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاسوان کے پاس سیاست کا طویل اور بے داغ تجربہ ہے اور وہ تمام رہنماؤں کے لئے قابل قبول بھی ہیں۔اگرچہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ان کی نجی رائے ہے،وزیر اعلی امیدوار کا فیصلہ تو بی جے پی کا پارلیمانی بورڈ کرے گا۔ جب ان سے خود کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے خود کو سی ایم کے قابل ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس سی ایم کے قابل نہ تو شکل ہے اور نہ عقل۔وہیں مانا جارہا ہے کہ شاٹ گن کے اس بیان کے بعد پارٹی کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں کیونکہ اس کے ممکنہ پارٹنر جتن رام مانجھی اور پپو یادو پہلے ہی اس پر دباؤ بنائے ہوئے ہیں۔بہار میں کئی کئی جماعتوں سے اتحاد کے چلتے پہلے ہی پارٹی کو سی ایم کے عہدے کے کئی کئی غیر اعلانیہ امیدواروں کا دباؤ بھی جھیلنا پڑ رہا ہے۔ اب شتروگھن سنہا کا یہ بیان پارٹی کے گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔
نتیش کمار سب سے آگے؟
رواں سال کا بہار اسمبلی انتخاب اب تک کے سب سے الگ انتخابات میں شمار ہونے جا رہا ہے۔ سیاسی اتحاد کی سطح پر ہی نہیں، تشہیر کے طریقوں میں بھی وہاں نئے نئے ڈھنگ آزمائے جارہے ہیں۔ ووٹنگ میں بھلے ہی ابھی کئی ماہ کا وقت باقی ہے، لیکن ہر کوئی اپنے حساب سے ووٹروں تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ابھی تک تشہیر میں نتیش کمار سب سے آگے دکھائی دے رہے ہیں مگر اب جن طریقوں کو بی جے پی آزما رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ مستقبل میں وہ پرچار کی سطح پر نتیش۔لالو سے آگے نکل جائیگی۔جے ڈی یو لیڈر اور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کی تشہیر گزشتہ ایک مہینے سے پورے رنگ میں ہے، جس کے انتخابات تک اور تیز ہونے کی توقع ہے۔ فی الحال انہوں نے سب سے محفوظ راستہ اپناتے ہوئے اب تک کی تشہیر کے تمام ہٹ طریقوں کو اپنی مہم میں سمیٹ لیا ہے۔اروند کیجریوال اور نریندر مودی کے طریقوں کو بھی بہار میں آزمانے کی پہل نتیش نے ہی کی ہے۔ نتیش کمار ’’ہر گھر دستک‘‘ مہم بھی چلا رہے ہیں، جس میں 1 کروڑ گھروں تک جے ڈی یو پہنچے گی۔’’بریک فاسٹ وتھ نتیش‘‘ کے تحت وزیر اعلی میڈیا، دانشور اور دیگر لوگوں سے ملیں گے اور ’’برانڈ نتیش‘‘ کو پروموٹ کریں گے۔ہائی ٹیک انتخابی وین سے نتیش پوری ریاست میں پرچار کریں گے۔
کجریوال آئیں گے بہار؟
دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو زبردست پٹخنی دے چکے اروند کیجریوال اب بہار میں بھی بی جے پی کو پٹخنی دینے کے موڈ میں ہیں۔بتایا جا رہا ہے کیجریوال نتیش کمار کے لئے الیکشن پرچار کر سکتے ہیں۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق سیکولر ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کے لئے عام آدمی پارٹی بہار اسمبلی انتخابات میں کوئی امیدوار نہیں اتارے گی۔اس سلسلے میں نتیش کمار نے اروند کجریوال سے ملاقات بھی کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیجریوال کا ساتھ نتیش کے لئے فائدے کا سودا ہو سکتا ہے۔کیونکہ اروند کیجریوال قومی سطح پر مضبوط لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں انھوں نے دلتوں کے علاوہ مسلمانوں میں بھی گہری پیٹھ بنائی ہے۔
لالو پرساد اپنے رنگ میں
بہار میں ودھان پریشد انتخابات میں پٹخنی کھانے کے دو دن بعد ہی لالو نے بی جے پی اور مرکزی حکومت کے خلاف مورچہ کھول دیا۔ اپنے سیاسی وارث دونوں بیٹوں اور پورے دلبل کے ساتھ سابق وزیر اعلی لالو یادو پٹنہ کی سڑکوں پر اترے۔موقع تھا، ذات پات کی بنیاد پر ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار کو عام کرنے کی مانگ کو لے کر مرکزی حکومت کے خلاف مارچ نکالنے کا ،اور نشانہ تھا، آئندہ اسمبلی انتخابات میں اپنی زمین مضبوط کرنے کا۔ دونوں ہی محاذوں پر لالو یادو نے بااثر موجودگی درج کرانے کی کوشش کی۔حالانکہ اس دوران لالو کے نئے پارٹنر اور سیاسی ساتھی نتیش کمار اور ان کی پارٹی کے لوگ اس مارچ سے دور ہی رہے۔
دلچسپ ہوگا بہار انتخاب
سمجھا جارہا ہے کہ بہار میں آنے والے دنوں میں اسمبلی انتخابات کی جنگ کافی دلچسپ ہونے والی ہے۔ آر جے ڈی سربراہ لالو یادو کے MYاتحادکے ساتھ انتخابی دنگل میں اترنے کی تیاری ہے۔ابھی حال ہی میں نتیش۔لالو اتحاد کو ودھان پریشد انتخابات میں زوروں کا جھٹکا لگ چکا ہے ایسے میں دونوں نیتاؤں کے سامنے انتخابات میں کارکنوں کا حوصلہ برقرار رکھنا تو چیلنج ہوگا ہی انہیں یہ ہار پاٹنے کے لئے بھی خاصی مشقت کرنی پڑے گی۔اس جوڑے کی سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ بی جے پی صدر امت شاہ نے ان کے گڑھ میں شکست دینے کے لئے ان ہی کے ذات پات والے داؤ پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت انھوں نے مودی کو ملک کا پہلا اوبی سی وزیر اعظم کہا تھا۔جبکہ دلت اور مہا دلت کے بھروسے اقتدار میں واپسی کی امید لگائے بیٹھے نتیش کے سامنے بی جے پی کے سپہ سالار کے طور پر کھڑے مانجھی اور پاسوان مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔اسی کے ساتھ اس بار انتخابات میں خواتین اور پہلی بار بنے ووٹر فیصلہ کن اثر ڈالیں گے۔ ریاست میں نئے ووٹرس تقریبا 8 فیصدہوں گے۔

«
»

کیا حق ہے ہمیں آزادی منانے کا

بیٹی‘ اپنی اور پرائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے