کیا بہار میں امت شاہ کا اصل امتحان ہونے والا ہے؟ کیا یہاں نریندر مودی کی اب تک کی کارکردگی کی پرکھ بھی ہوگی؟ کیا یہاں آرایس ایس اور اس کی تمام بغل بچہ جماعتوں کی قوت کا امتحان بھی ہوگا؟یا پھر نتیش کمار اپنا قلعہ بچانے میں کامیاب ہوجائینگے اور جنتا پریوار ایک متبادل کے طور پر ابھرے گا؟ ان سوالوں کو لے کر عوام وخواص سب میں سسپنس ہے اور پورا ملک بہار کے چناؤ کی طرف نظر جمائے بیٹھا ہے۔ دوسری طرف بہار میں تمام پارٹیاں انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں اور اپنی اپنی حکمت عملی تیار کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ بی جے پی اور اس کے صدر امت شاہ کے لئے یہ انتخاب خاص طور پر زندگی اور موت کا سوال بن چکا ہے۔ سنگھ پریوار نے پورے ملک سے اپنے کیڈروں کو لاکر بہار میں جمع کرنا شروع کردیا ہے تاکہ اسمبلی ہی نہیں بلکہ بوتھ سطح پر اپنے اپنے ووٹوں کو پکا کیا جائے۔ اسے بی جے پی ایک امتحان کے طور پر لے رہی ہے۔ حالانکہ بہار کے امتحانات کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہاں امتحان کی تیاری کتابوں سے نہیں ہوتی بلکہ چیٹنگ سے ہوتی ہے اور یہاں سب کچھ مینیج کیا جاتا ہے۔ کبھی امتحان گاہ میں چٹ پہنچانے کی کوشش کی جاتی تو کبھی پولس والوں کو رشوت دے کر اندر تک رسائی کی کوشش ہوتی ہے۔سنگھ پریوار بھی یہاں اسی قسم کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے اور اس نے اپنی پوری قوت بہار میں جھونک دی ہے اور بوتھ سطح پر وہ تیاریاں کررہا ہے جس میں اصل تیاری مینجمنٹ کی ہی نظر آتی ہے۔ اسے پتہ ہے کہ دلی اسمبلی الیکشن میں شکست کے بعد اب اپنے وقار کو بچانے کا یہ آخری موقع ہے۔ اگر بہار میں ہار گئے تو اس کے بعد ہی آسام اور مغربی بنگال کے انتخابات ہیں، جہاں اس کی شکست یقینی ہوجائے گی۔ حالانکہ ۲۰۱۷ء میں اترپردیش کے اسمبلی انتخابات ہونگے جہاں سے بی جے پی نے لوک سبھا کی بیشتر سیٹوں پر قبضہ کرکے مرکز میں اپنی سرکار بنائی ہے۔ یعنی بہار کی شکست کے بعد بی جے پی کی الٹی گنتی شروع ہوجائے گی اور جیت گئی تو مستقبل میں اس کے لئے مثبت نتائج ہوسکتے ہیں۔
دوست، دوست نہ رہا
الیکشن کمیشن کی طرف سے ستمبر،اکتوبر میں بہار اسمبلی انتخابات کرانے کے اشارے دئے جانے کے ساتھ ہی بہار کی تمام سیاسی پارٹیاں ’’انتخابی موڈ‘‘ میں نظر آنے لگی ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں اسمبلی انتخابات کے لئے تیار رہنے کی بات کر رہی ہیں۔ ویسے بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں طے ہے کہ گزشتہ انتخابات کے دوست اس بار دشمن نظر آئیں گے اور گزشتہ انتخابات کے دشمن کے ہاتھ تھامے دکھائی پڑینگے۔گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اور جنتا دل (یونائیٹڈ) جہاں ساتھ الیکشن لڑے تھے، اس الیکشن میں طے ہے کہ یہ دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوں گی، وہیں 20 سال سے الگ الگ سیاست کر رہے بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے صدر لالو پرساد گلے مل چکے ہیں۔ دونوں کی جماعتوں کے انضمام میں تکنیکی رکاوٹ آنے کے بعداب وہ سیٹوں کا تال میل کر الیکشن لڑنے کی تیاری میں لگے ہیں۔گزشتہ انتخابات میں لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری تھی لیکن لوک سبھا انتخابات میں رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی نے این ڈی اے کا دامن تھام لیا تھا۔ طے مانا جا رہ ہے کہ لوک جن شکتی پارٹی آئندہ انتخابات میں بی جے پی کے ہی ساتھ انتخابی میدان اترے گی۔ کانگریس ماضی میں آر جے ڈی کے ساتھ رہی ہے اور اب اس کے سامنے دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے ۔حالانکہ کانگریس نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں تمام 243 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے اور تنہا مقابلہ کیا تھا۔
بی جے پی کے ممبران کی تعداد سب سے زیادہ
آئندہ بہار انتخابات کے لئے سیاسی پارٹیاں اپنی تیاریوں میں جٹ گئی ہیں۔ جنتا دل ایک ہوکر بی جے پی سے مقابلے کی تیاری کر رہا ہے، تو بی جے پی بھی اپنی حکمت عملی سے تمام پارٹیوں کو شکست دینے کی کوشش کرے گی۔ اگرچہ سیٹ بٹوارے کو لے کر آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے درمیان اختلافات کی خبریں ہیں، ان خبروں کا کتنا اثر انتخابات پر پڑے گا یہ کہنا ابھی جلدی ہوگی لیکن بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات کے بعد وسیع سطح پر رکنیت مہم چلائی۔اس مہم نے کئی ریکارڈ توڑ دیئے اور بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ بی جے پی کی حکمت عملی اپنے اراکین کے دم پر الیکشن لڑنے اور بوتھ لیبل تک کارکنوں کی مناسب حکمت عملی سے الیکشن جیتنے کی ہے۔ بی جے پی کے رکنیت مہم کی کامیابی کا پہلا انتخابی ٹیسٹ ثابت ہونے جا رہے بہار کے اسمبلی انتخابات سے پہلے پارٹی کے لیڈروں سے کہا گیا ہے کہ وہ سیاسی لحاظ سے انتہائی اہم ریاست بہار میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے پارٹی کے بڑھے ہوئے ارکان کا فائدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ بھگوا پارٹی نے دعوی کیا ہے کہ ملک بھر میں اس نے 10 کروڑ سے زیادہ رکن بنائے ہیں اور بہار میں یہ تعداد 75 لاکھ سے زیادہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست میں ہر نواں ووٹر بی جے پی کا رکن ہے۔ریاست کے اسمبلی انتخابات کے لئے حکمت عملی پر گفتگو کرنے کے لئے جب بہاربی جے پی کے لیڈران ،پارٹی صدر امت شاہ سے ملے تو ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں ممبران کی بڑھی تعداد کا فائدہ لیں۔ اسی کے ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ہے کہ خراب انتخابی نتائج سے ممبران کی 10 کروڑ کی تعداد کے بارے میں کئی سوال اٹھ سکتے ہیں۔بہار اور جھارکھنڈ میں کل اراکین کی تعداد 93 لاکھ سے زیادہ ہے اور بہار کے سابق وزیر اعلی سشیل کمار مودی نے کہا کہ ریاست میں یہ تعداد 75 لاکھ سے زیادہ ہے۔ سشیل کمار مودی نے کہا، ہم آئندہ دنوں میں ان کی معلومات کی تصدیق کریں گے اور ان کی طاقت کا
استعمال اسمبلی انتخابات جیتنے کے لئے کریں گے۔ حالانکہ پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی نئے اراکین کی سنجیدگی کے بارے میں یقین نہیں رکھتے ہیں کیونکہ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے مسڈ کال کے ذریعے رکنیت حاصل کی ہے۔
160160160160بی جے پی کی تیاری زوروں پر
بہار میں بی جے پی مودی حکومت کی پہلی سالگرہ کا استعمال بھی الیکشن پرچار کے طور پر کرے گی، نیز ۲۱جون کو بین الاقوامی یوگا دیوس ہے اور اسے بھی بہار میں انتخابی تشہیر کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔حالانکہ پارٹی ان دونوں مواقع کا جشن ملک بھر میں منائیگی، مگر بہار میں آئندہ انتخابات کو دیکھتے ہوئے کئی دیگر مقامی تقریبات بھی منعقد کی جائیں گی۔ بی جے پی کو دہلی اسمبلی انتخابات میں کراری شکست مل چکی ہے اور اب وہ اہم ریاست بہار میں وزیر اعلی نتیش کمار اور آر جے ڈی کے لالو پرساد یادو کے مضبوط اتحاد کے خلاف جیتنے کے لئے سیاسی ہوا کو واپس اپنے حق میں موڑنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی ہے۔
وزیر اعلیٰ کون ہوگا؟
160 بی جے پی کی طرف سے وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لئے امیدوار کون ہوگا؟ اس سوال پر پارٹی کے اندر اور باہر قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ وزیر اعلی کے عہدے کے امیدوار کو لے کر غیر یقینی صورتحال کے درمیان بی جے پی کے قومی ترجمان سید شاہنواز نے کہا کہ ان کی پارٹی کا پارلیمانی بورڈ اس بارے میں فیصلہ لے گا۔ مشرقی چمپارن ضلع ہیڈکوارٹر موتیہاری میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے شاہنواز نے کہا کہ وزیر اعلی کے عہدے کے امیدوار کو لے کر بی جے پی پارلیمانی بورڈ فیصلہ لے گا ااور یہی آخری فیصلہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ دیگر جماعتوں کی طرح بی جے پی پارلیمانی بورڈ ہی اس معاملے میں فیصلہ لیتاہے۔انھوں نے کہا کہ پارٹی میں کئی لیڈر اس عہدے کے لئے مناسب ہیں جن میں سشیل کمار مودی، نندکشور یادو، بی جے پی کے ریاستی صدر منگل پانڈے شامل ہیں۔ مرکز ی سرکار میں بہار سے جولیڈران وزیر ہیں ان میں سے کچھ اس عہدے کے امیدوار لائق ہیں۔حالانکہ شاہنواز نے فوری طور یہ بھی کہا کہ وزیر اعلی کے عہدے کے امیدوار کا اعلان انتخابات سے پہلے کیا جائے یا نہیں ؟اس بارے میں فیصلہ پوری طرح سے بی جے پی پارلیمانی بورڈ کے ہاتھ میں ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی کے عہدے کے امیدوار کا اعلان کئے جانے سے زیادہ ہمارے لئے اہم چیلنج اس سال ہونے والا بہار اسمبلی انتخاب ہے جس کے لئے پارٹی کی صوبائی اور مرکزی یونٹ باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔شاہنواز نے دعویٰ کیا کہ پارٹی بہار اسمبلی کی 243 سیٹوں میں سے 185 حاصل کریگی۔انہوں نے کہا کہ پڑوسی ریاست جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات کی طرح ہی بہار اسمبلی انتخابات میں لالو پرساد اور نتیش کمار کی پارٹی کو ہم صفر پر آؤٹ کر دیں گے۔وزیر اعلیٰ کے سوال پر رام ولاس پاسوان کا کہنا ہے کہ بی جے پی جس شخص کو بھی وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنائے گی،لوک جن شکتی پارٹی اس کی حمایت کرے گی۔
مودی کا چہرہ سامنے ہوگا؟
بی جے پی کی حکمت عملی میں اس بار یہ بھی شامل ہے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کا چہرہ سامنے کرکے الیکشن لڑے گی۔ مرکزی وزیر زراعت رادھاموہن سنگھ نے کہا کہ بہار انتخاب،وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے کو آگے رکھ کر لڑا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ مرکز کی
مودی حکومت غریبوں اور کسانوں کے مفاد میں کام کر رہی ہے۔دوسری طرف بی جے پی کے سینئر لیڈر سشیل کمار مودی کہتے ہیں کہ این ڈی اے اسمبلی انتخابات کو لے کر پوری طرح تیار ہے۔ان کو یقین ہے کہ نریندر مودی کی اب تک کی کارکردگی سے ملک کے عوام خوش ہیں اور وہ ان کے نام پر بی جے پی کو ووٹ دیں گے۔کچھ ایسی ہی سوچ شہنواز حسین کی بھی ہے۔ مرکز کی موجودہ این ڈی اے حکومت کی طرف سے لائے گئے تحویل اراضی بل کے بارے میں شاہنواز نے کہا کہ مودی حکومت کسانوں کی ایک انچ زمین کارپوریٹ گھرانوں کو نہیں دے گی۔کانگریس اپنی سیاسی زمین چھن جانے سے دکھی ہے۔شاہنواز نے کہا کہ این ڈی اے حکومت نے ملک میں مہنگائی کم کرنے کے ساتھ عام لوگوں کو اس سے راحت دلانے کے لئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔
بہار کا موجودہ سیاسی سین اور بی جے پی
اس بار بہار میں سیاسی بساط ماضی سے الگ دکھائی دینے والی ہے اور اس کا استعمال بی جے پی اپنے فائدے کے لئے کرنا چاہتی ہے۔ آئندہ اسمبلی انتخابات میں کبھی نتیش کے قریبی رہے جیتن رام مانجھی اور آر جے ڈی سے نکلے رہنما پپو یادو بھی اہم کردار میں نظر آئیں گے۔ مانجھی جہاں ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) بنا کر تمام 243 سیٹوں پر لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں، وہیں پپو یادو نے جن کرانتی ادھیکار مورچہ بنا کر خود کو آر جے ڈی کا اصلی وارث بتا کر آرجے ڈی کے لئے پریشانی پیدا کر دی ہے۔ ظاہر کہ یہ دونوں پارٹیاں کسی نہ کسی روپ میں بی جے پی کی مدد کریں گی اور پس پردہ بی جے پی ہی ان کی حکمت عملی تیار کرتی نظر آئے تو کسی کوحیرت نہیں ہونی چاہئے۔کہا جارہا ہے کہ یہ پارٹیاں بڑی تعداد میں مسلم امیدواروں کو میدان میں اتار کر مسلم ووٹ کو بکھیرنے کا کام کرسکتی ہیں تاکہ بی جے پی کے لئے راستہ صاف کیا جاسکے۔اطلاعات کے مطابق بی جے پی نے جنتادل (یو) کے اندر بھی اپنے ایجنٹوں کو بٹھا رکھا ہے جو اسے داخلی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔اس وقت بی جے پی کی تنہا حریف جنتا دل (یو) ہے جو گزشتہ الیکشن میں اس کی ساتھی تھی۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالیں تو جد (یو) نے 141 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے، جس میں 115 امیدوار اسمبلی پہنچ سکے تھے، جبکہ بی جے پی نے 102 نشستوں میں سے 91 نشستوں پر فتح کا پرچم لہرایا تھا۔تب دونوں پارٹیوں نے ساتھ الیکشن لڑا تھا۔آر جے ڈی نے 168 امیدوار اتارے تھے، جن میں سے 22 جیتے، جبکہ لوک جن شکتی پارٹی کے 75 امیدواروں میں سے تین ہی فاتح ہو سکے تھے۔ کانگریس نے تمام 243 سیٹوں پر امیدوار اتارے تھے، لیکن اس کی جھولی میں محض چار سیٹیں ہی آئی تھیں۔ بائیں محاذ نے 56 سیٹوں پر امیدوار اتارے تھے، لیکن ایک امیدوار ہی جیت سکا تھا۔
جواب دیں