اور یہ تمام صورت حال اس واقعے کے بعد پیدا ہوئی ہے واقعہ یہ ہے کہ رامپور گاؤں کے راج کشور (جو اب مسلمان ہوچکا ہے اسلامی نام عبداللہ ہے) نے اپنے بھائی نند کشور کی المناک موت کے بعد (واضح رہے کہ نند کشور کی موت سانپ کاٹنے سے ہوئی ہے اور اس کی لاش کے حلیے بگڑ گئے تھے جس سے متاثر ہوکر راج کشور نے دامن اسلام میں پناہ لیا اور خود کو جہنم کی آگ سے بچانے کا کام کیا) اسلام قبول کرلیا ، خدا کی قدرت اسے اپنے بھائی کی لاش دیکھ کر سمجھ میں آئی تو اس نے اسلام قبول کرلیا لیکن یہ بات فرقہ پرستوں کو ہضم نہیں ہوئی اور راج کشور کی اہلیہ جو کہ اس وقت اپنے مائیکے میں تھی اسے ورغلا کر اپنے شوہر اور رامپور کے مسلمانوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے لیے کہا اس کی اہلیہ نے رامپور کے مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی اور پولس یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے مسلمانوں کی گرفتاریاں شروع کردی ۔ حالانکہ راج کشور عدالت میں حلفیہ بیان بھی دے چکا ہے کہ وہ اسلام کسی کے دباؤ میں آکر قبول نہیں کیا ہے بلکہ وہ خود خدا کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور اسلام کو سچا مانتے ہوئے اپنایا ہے اس نے یہاں تک بھی بیان دے دیا ہے کہ اگر میرے حلق پر تلوار رکھ کر بھی ایمان سے بے ایمان ہونے کے لیے کہا جائے گا تو میں اپنی موت تو قبول کرسکتا ہوں لیکن دامن اسلام نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر بھی پولس والے ، آر ایس ایس اور بی جے پی کے غنڈے راج کشور کو ڈرا دھمکا کر اسلام سے پھرنے کو کہہ رہے ہیں اور گاؤں والوں کو بھی زدوکوب کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ پولس بھی یک طرفہ کارروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاؤں کے جامع مسجد کے امام مولانا محمد شبیر قاسمی اور ایک دیگرمحمد مستقیم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ہے۔ اتنا ہی نہیں آر ایس ایس کے کارکنان نے یہاں تک دھمکی دے دی ہے کہ اگر راج کشور ایمان سے نہیں پھرا تو پورا گاؤں آگ وشعلہ بن جائے گا اور لاش خاک وخون کے درمیان تڑپے گی۔ ابھی رام پور گاؤں کا حال یہ ہے کہ اطراف کے ہندو گاؤں جانی پور، پوپری ، جنک پور، کھوپی وغیرہ سے آر ایس ایس کے کارکنان، بجرنگ دل اور بی جے پی کے اراکین پورے گاؤں کو گھیرے میں لیے ہوا ہے۔ رام پور گاؤں مکمل کرفیو زدہ ہے۔ بی جے پی کے سیاسی لیڈران اس فرقہ پرستی میں اپنی سیاسی روٹی سینکنے کو تیار ہے اور ماحول کو زیادہ المناک بنانے کی پوری تگ ودو میں ہے پتہ نہیں کب اور کس وقت رامپور گاؤں آگ خون میں نہا جائے۔ اطراف کے مسلم سیاست دانوں کی مکمل خاموشی سے رامپور گاؤں کے مسلمان پریشان ہیں اگر وہ لوگ چاہیں تو معاملے کو بالکل نپٹا سکتے ہیں لیکن ان کی خاموشی ان فرقہ پرستوں کو شہ دے رہی ہے۔ حال ہی میں عیدالاضحی کا تیوہار آنے والا ہے قربانی کے تئیں لوگ بے حد فکر مند ہیں اور ان کی فکر بھی بجا ہے ، لوگوں میں خوف وہراس سمایا ہوا ہے اپنے بچوں کی سلامتی اور اپنی عصمت وعفت کی پاکیزگی کی برقراری کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ پورا گاؤں فرقہ پرستوں کی زد پر ہے۔ اطراف کے مسلم گاؤں والوں کو چاہیے کہ ان کی مدد کریں۔ لڑائی جھگڑے سے ہٹ کر معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ عدالت کو بھی چاہیے کہ وہ راج کشورکے حلفیہ بیان کو بنیاد بناکر گاؤں کے مسلمانوں کو راحت دیں نہیں تو رامپور گاؤں کی گنگا جمنی تہذیب ان فرقہ پرستوں کی سازش سے خاک وخون میں مل جائے گی ۔(واضح رہے کہ رام پور گاؤں میں ہندومسلم برسوں سے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے آئے ہیں آج تک نہیں سنا گیا ہے کہ وہاں کبھی ہندو مسلم فساد ہوا ہو نہ آزادی سے پہلے اور نہ ہی آزادی کے 68سال بعد لیکن چند مفاد پرستوں کی زہر افشانی اور تخریب کاری کی وجہ سے دونوں فرقہ آمنے سامنے ہونے کو تیار ہے۔ ) اور مسلمان صرف رامپور کے ہی نہیں بلکہ پورے بہار میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھیں گے لہذا مانجھی حکومت کو اس معاملے میں دخل دے کر دونوں فرقہ کے لوگوں کو سمجھا بجھا کر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرے اسی میں پورے بہار کی بھلائی ہے نہیں تو جس طرح سے فرقہ پرستوں کے تیور ہیں اس سے تو یہی لگ رہا ہے کہ انجام انتہائی خطرناک ہوگا۔
جواب دیں