بہار کے عوام نے ادا کی ذمہ داری اب عظیم اتحاد کی باری

لالو پرساد یادو نے اپنی پریس کانفرنس میں اس سوال کا بھی جواب دے دیا ہے جو بی جے پی ، اس کے ساتھی اور عظیم اتحادس کے مخالف اٹھاتے رہے ہیں کہ عظیم اتحاد کے کامیاب ہونے کی صورت میں لالو پرساد یادو گڑ بڑ کر سکتے ہیں یا انہیں کی وجہ سے یہ سرکار عارضی ثابت ہو سکتی ہے لالو پرساد یادو نے نتیش کمار کے گھر ملنے آنے کے وقت اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نتیش اور کانگریس مل کر چناؤ لڑے ہیں ۔ یہ جیت عظیم اتحاد کی جیت ہے ہمارے وزیر اعلیٰ کے امید وار نتیش کمار جی تھے اور وہی رہیں گے اب ہم آر جے ڈی ، جے ڈی یو یا کانگریس نہیں بلکہ عظیم اتحاد ہیں ۔
بہار کے نتائج نے دہلی کی یاد تازہ کردی ہے جہاں بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ بہار کے عوام نے اس چناؤ میں کئی باتوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ۔ بہار میں دوسری بات یہ ثابت ہو گیا کہ مودی کی شخصیت میں کرشمائی جادو جیسی کوئی بات نہیں ہے ۔یا یوں کہا جائے کہ ان کی کوئی لہر یا ہوا باقی نہیں ہے جو لوک سبھا کے وقت وکاس کے نام پر بنائی گئی تھی ۔مودی کا وکاس کا نعرہ صرف ایک چناوی جملہ ثابت ہوا ہے ۔ بہار کے عوام نے یہ بھی دیکھا کہ ایک ریاستی چناؤ کو جیتنے کے لئے مرکز کی پوری سرکار لگ گئی تھی ۔ وزیروں کی فوج ، ممبران پارلیمنٹ کی ٹکڑیاں ، فلمی ہستیوں کی ٹولیاں اور کئی وزیر اعلیٰ نے چناوی سبھاؤں کو خطاب کیا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ نے بہار کو سمجھنے میں شاید غلطی کی اور اپنی سبھاؤں میں ایسی زبان کا استعمال کیا جس سے عوا م کو مایوسی ہوئی ۔ بھیڑ اور نوجوانوں کو دیکھ کر بھاجپا میں یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ بہار کے عوام ان کے ساتھ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھیڑ کبھی ووٹر نہیں ہوتی وہ تو اپنے وزیر اعظم سے یہ جاننا چاہتی تھی کہ نو جوانوں کو روزگار کے مواقع کیسے فراہم ہوں گے ۔ مہنگائی کم کرنے کے لئے وہ کیا کررہے ہیں ترقی کے لئے ان کے پاس کیا ایجنڈہ ہے ملک کے ماحول کو بگڑنے سے بچانے کے لئے وہ کیا کوشش کررہے ہیں اس کے بر خلاف وزیر اعظم اپنی ذات بتانے میں لگے ہوئے تھے ۔وہ بھی ہر جگہ نئی ذات ،کہیں انہوں نے اپنے آپ کو بچھڑا بتایا توکہیں انتہائی پسماندہ اور ایک جگہ تو وہ اپنے آپ کو دلت کا بیٹا تک کہہ بیٹھے ۔ان باتوں نے ان کے اعتماد کو کم کیا پھر انہوں نے اپنے معیار سے نیچے اتر کر جس طرح باتیں کیں اس سے کبھی کبھی ان کی تقریر کو سن کر ایسا گمان ہوتا تھا کہ کوئی وزیر اعلیٰ بول رہا ہے نہ کہ وزیر اعظم ۔ سچائی یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے بعد جو بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں بی جے پی کا ووٹ فیصد گھٹا ہے اس بات کو سامنے رکھ کر بی جے پی کو حکمت عملی اپنانی چاہئے تھی جو وہ نہیں اپنا سکی ۔ 
بی جے پی نے بہار میں ووٹ کٹوا پارٹیوں کا اچھا کھیل کھیلا تھا جس کے لئے اویسی ملائم سنگھ اور پپو یادو کو استعمال کیا گیا ۔لیکن بہار کے عوام نے ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نکار دیا ۔بھاجپا نے جب دیکھا کہ مودی کی ریلیوں سے کام نہیں چلنے والا تو وہ گائے کو لے آئی اس کے بعد پاکستان کو اپنے کمپین کا حصہ بنایا یعنی ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن بہار کے عوام نے بڑی سمجھداری سے بی جے پی کی ہر کوشش اور چال کا اس کے خلاف ووٹ دیکر جواب دیا ہے ۔ 
ہر شخص اس بات پر متفق تھا کہ وزیر اعلیٰ کے طور پر نتیش کمار سب سے بہتر ہیں عظیم اتحاد نے عوام کی پسند کو ہی اپنی پسند کے طور پر پیش کیا جبکہ این ڈی اے وزیر اعلیٰ کے لئے کسی کا نام آگے نہیں بڑھا سکا ۔شایدبھاجپا مہاراشٹر ، ہریانہ اور جھارکھنڈ کی طرح جیت کے بعد وزیر اعلیٰ کے طور پر کسی کانام پیش کرنے کی کوشش کررہی ہوگی لیکن وہ یہ بھول گئی کہ وہاں کے اور بہار کے حالات میں کافی فرق ہے ۔مہاراشٹر ، جھارکھنڈ یا ہریانہ میں حسب مخالف اپنی مضبوطی ظاہر نہیں کرسکے تھے نہ ہی وہ کسی ایک شخص کے نام پر متفق تھے ۔جبکہ یہاں نتیش کمار کے نام پر عظیم اتحاد کے سبھی ساتھیوں کا اتفاق تھا پھر یہاں جھار کھنڈ ہریانہ یا مہاراشٹر کی طرح ریاستی حکومت کے خلاف ماحول نہ ہو کر نتیش کمار کے حق میں رائے عامہ تھی اور ان کی ساکھ بھی اچھی تھی ۔
شروعاتی دور میں یہ مانا جا رہا تھا کہ بھاجپا آگے نکل رہی ہے لیکن یہ بھی اندازوں کی غلطی تھی جس کا اندازہ ایگزیٹ پول کے آنکڑوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔چانکیہ نے تو این ڈی اے کو 155سیٹیں ملنے کی پیشگوئی کی تھی ۔سوال یہ ہے کہ جب ڈیٹا یا جانکاریاں ایک جیسی تھیں تو نتیجوں میں فرق کیوں ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اعداد وشمار جمع کرکے پیش کرنے والوں کی کیلکولیشن میں کہیں غلطی تھی پھر اس پر طرہ یہ کہ بھاجپا کے ہمدرد ٹیلی ویژن چینل نے ان آنکڑوں کو دن بھر دکھا کر بہار کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ۔جس چینل پر یہ آنکڑے دکھائے جا رہے تھے اس کی مالک مرکزی وزیر روی شنکر پرساد کی بہن ہے ۔صحافیوں کے پاس آنکڑو ں کو پرکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ کروڑوں ووٹروں تک پہنچ سکتے ہیں کہ ان کی رائے جان کر کوئی تجزیہ عوام کے سامنے پیش کرسکیں کہ کون کامیاب ہوگا ۔
بہار میں اگڑی ذاتیوں کا ایک جٹ ہونا اور کھل کر بی جے پی کے حق میں بات کرنا این ڈی اے یا بی جے پی کے خلاف گیا ۔اس کا سیدھیا پیغام یہ گیا کہ اگڑی ذاتیاں پچھڑی ذاتیوں یا دلتوں کو سبق سکھائیں گی اور اس طرح پسماندہ ذاتیں ایک جٹ ہو گئیں ۔دادری جیسے واقعات سے بی جے پی نے بہار کے الیکشن میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اس کا بھی بہار میں الٹا اثر دیکھا گیا اور لوگوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ نتیش کمار کے ساتھ زیادہ محفوظ ہیں ۔اس لئے پولنگ کے فیصد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ۔خاص طور پر خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔
عام ووٹر یہ سمجھ رہا تھا کہ گاؤ ں تک بجلی اور سڑک پہنچی ہے ، بھلے ہی کچھ گاؤں باقی رہ گئے ہوں تو وہ نتیش کمار کے زمانے میں ۔سائیکل پر اسکول ڈریس میں لڑکیوں کو اسکول جاتے دیکھ کر ہر باشندہ فخر محسوس کرتا ہے اس کو لگتا ہے کہ لڑکیاں بڑھائی میں آگے بڑھیں گی تو اس کا سماج ترقی کریگا ۔اس لئے بھاجپا کے وکاس کے نعرہ کی طرف ووٹروں نے کوئی دھیان نہیں دیا ۔پھر مرکزی سرکار کا کمزور مظاہرہ بھی اس کی ایک بڑی وجہ بنا ء بہار کے پچھڑے پن ریاست سے نقل مکانی ، کرپشن کا ایک سر راگ میں الاپنے والے وزیر اعظم کی نیتی نے بھی کمزور طبقات کوایک کردیا ۔دوسری طرف بہار کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان اس انداز میں کیا گیا مانو وہ ذاتی سطح پر بہار کا بھلا کررہے ہوں ۔لالو پرساد کی وزیر اعظم کی نقل کرنا اور نتیش کمار کی سنجیدگی نے عوام کا دل جیت لیا ۔بھاجپا کی جانب سے فرقہ وارانہ کارڈ اور ذاتوں کے سمی کرن کا بھی اس چناؤ میں کوئی اثر نہیں دیکھا گیا ۔
لالو نتیش کی جوڑی اور حکمت عملی نے بھاجپا کے مقابلہ عوام پر بہتر اثر چھوڑا بھاجپا نے جنگل راج کی بات تو کی لیکن مجرموں اور غنڈوں کو ٹکٹ بھی دیا اس سے وزیر اعظم اور پارٹی لوگوں کے مذاق کا ذریعہ بنے ہیں اس سے تو لگ رہا ہے کہ آئندہ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں بھاجپا کی 
ڈگر اور مشکل ہوگی ۔
بہار کی عوام نے تو غیر معمولی اکثریت دیکر اپنی ذمہ داری ادا کردی اب عظیم اتحاد کے عوام کی امیدوں پر کھرے اترنے کی باری ہے ۔ جتنی بھاری اکثریت اتنی بڑی ذمہ داری یعنی عوا م کی امیدیں جیتنے والی پارٹی سے بہت بڑھ جاتی ہیں ویسے نتیش کمار نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ عوام کے تئیں انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کی ترقی کے منصوبے تیار ہیں جن پر کام کرنا باقی رہ گیا تھا اب امید ہے کہ ان کو ہم پورا کر سکیں گے ہماری پہلی کوشش یہ ہوگی کہ بہار کے عوام کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ بہار کے چناؤ نے یہ بتا دیا کہ عوام کو بات کا بھات نہیں اصل بھات چاہئے ۔جو کام کریگا وہی باقی رہے گا یہ پبلک ہے سب جانتی ہے ۔

«
»

فرانس پھرلہولہان!

غزل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے