بگڑی ہوئی ترجیحات؟

بقلم: محمد شاہد خان ندوی

جاپان میں ایک اسٹیچو نصب کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تمہارااصل  وزن وہ نہیں ہے جو کیلو گرام کی شکل میں تمہارے بھاری بھرکم جسم کاحصہ ہے بلکہ تمہارا اصل وزن وہ کتابیں ہیں جو تم نے پڑھ رکھی ہیں اور جس نے جتنی زیادہ کتابیں پڑھی ہیں وہ اتنا ہی زیادہ باوزن ہے۔
لیکن افسوس کہ مشرقی ممالک میں قدریں بدل چکی ہیں، مغربی تہذیب نے ہماری آنکھوں کو خیرہ کردیا ہے اور ہمارا پورا معاشرہ اس کی ظاہری چمک دمک  کے پیچھے اوندھے منھ دوڑ رہا ہے، اب وہ زمانہ نہیں رہا جب سر والوں کو سر پر بٹھایا جاتا تھا بلکہ اس کے برعکس اب پیر والوں کو سر پر بٹھایا جاتا ہے، اب ایک فلم اسٹار ایک فٹبال کھلاڑی اور ایک کرکٹر ہمارا ہیرو ہے ورنہ دلی کے لوک سبھا الیکشن میں ماہر تعلیم آتشی سابق کرکٹر گوتم گمبھیر سے ہار نہ جاتیں 
عرب شاعر زهير بن ابي سلمي نے کہا تھا کہ 
لسان الفتی نصف ونصف فوادہ 
فما یبقی الا صورة اللحم والدم 

انسان کا نصف اس کی زبان ہے اور نصف اس کا دل ہے 
اسکے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ گوشت اور خون ہے 

لیکن لگتا ہے کہ یہ شعر اب ہمارے معاشرے کے حسب حال نہیں، کیونکہ زمانہ بدل چکا ہے اصول واقدار تبدل ہو چکے ہیں، مغربی تہذیب کی قباحتیں ہمارے معاشرہ کا فیشن ہیں اور جو اسکی خوبیاں ہیں اس سے خدا واسطے بیر ہے خلاصہ یہ کہ مشرق اب بھی الٹی سمت میں محو سفر ہے، اس زمانے میں کوئی بھی فرد جو سینما یا ٹیلی ویزن اسکرین کا حصہ ہو جو کہ دراصل ہماری جزوقتی تفریح کا ایک سامان ہے وہ اپنے میک اپ ہئر اسٹائل اور فتنہ انگیز ملبوسات کے ذریعہ ہمارا ہیرو بن جاتا ہے، اخبارات  میں اس کے لئے کالمز مخصوص کئے جاتے ہیں ریڈیو  اور ٹیلی ویزن پر روزانہ ایک حلقہ (segment )اس کی ہر طرح کی خبروں کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے اس کی ایک جھلک پانے کے لیے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے تاب رہتے ہیں، اسے آسانی سے انتخابات لڑنے کے لیے ٹکٹ مل جاتا ہے اوروہ ہمارے ووٹوں سے آسانی سے جیت بھی جاتا ہے اس کی ایک مثال 
1984 میں آٹھویں لوک سبھا الیکشن میں فلمی اداکار امیتابھ بچن کی ہیماوتی نندن بہوگنا جیسے سیاست داں کے مقابلے میں شاندار جیت ہے 
دوسری طرف  وہیں سماج میں علماء وادباء، دانشور و مفکریں ہیں جو  نان شبینہ کو ترستے ہیں، میڈیا ان کے کاموں کو کوریج نہیں دیتا یہاں تک کہ وہ گمنامی کی موت مر جاتے ہیں کیونکہ میڈیا کو پیسے سے غرض ہے اور وہ پیسے کمانیکے لیے ہر وہ پروگرام پیش کرسکتا ہے جس سے اسکی ٹی آر پی بڑھے چاہے اس کے لیے صحافت کا گلا ہی کیوں نہ گھونٹنا پڑے۔
اس کے برعکس مغرب میں پڑھے لکھوں کی بڑی قدر ہے، وہاں پوری دنیا سے اچھے ڈاکٹرس، انجینیرس، اور سائنسدانوں کو تلاش کرکر کے لے جایا جاتا ہے، اسوقت دنیا کے جو ممالک اپنے ملکوں کی شہریت دوسروں کو آفر کررہے ہیں ان کی شہریت کے شرائط کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے 
عراق پر امریکی حملے کے بعد تقریبا تین سو عراقی سائنسدانوں کو تلاش کرکے ایک ہوائی جہاز میں بٹھاکر امریکہ لے جایا گیا تاکہ امریکہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکے 
امریکی سائنسی ادارے ناسا میں 
ایک بڑی تعداد ہندستانیوں اور عربوں کی موجود ہے 
آخر کیا وجہ ہے کہ اچھی صلاحیتوں کے لوگ مغربی ممالک اور امریکہ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں؟
اسکی وجہ صاف ہے کہ ہمارے سماج میں ان کی قدر نہیں ہے اور ان کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے مواقع نہیں۔
ہمارے ملکوں میں اعلی تحقیقاتی اداروں کا وجود نہیں اورجو تھوڑے موڑے ہیں بھی تو  وہ بھی کسمپرسی کا شکار ہیں۔
کیا ہماری حکومتوں اور سماج کے لیے یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ آخر ہم کدھر جارہے ہیں؟

«
»

رویش کا بلاگ: تالے میں بند کشمیر کی کوئی خبر نہیں،لیکن جشن میں ڈوبے باقی ہندوستان کو اس سے مطلب نہیں

تین طلاق بِل کی بار بار منظوری، بی جے پی حکومت کا سیاسی ہتھکنڈا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے