عارف عزیزبھوپال گیس المیہ کی آج 38ویں برسی ہے38 برس قبل ۲ اور ۳ دسمبر 1984ء کی درمیانی شب میں یونین کاربائیڈ کے جراثیم کش ادویہ کارخانہ سے وہ مہلک گیس خارج ہوئی تھی جس نے اس شہر کی محوِ خواب آبادی کے لاکھوں انسانی نفوس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا سینکڑوں اسی […]
بھوپال گیس المیہ کی 38ویں برسی پر احتساب کی ایک نظر
عارف عزیز بھوپال گیس المیہ کی آج 38ویں برسی ہے38 برس قبل ۲ اور ۳ دسمبر 1984ء کی درمیانی شب میں یونین کاربائیڈ کے جراثیم کش ادویہ کارخانہ سے وہ مہلک گیس خارج ہوئی تھی جس نے اس شہر کی محوِ خواب آبادی کے لاکھوں انسانی نفوس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا سینکڑوں اسی وقت موت کا شکار ہوگئے اور ہزاروں کو سانس کی ایک کچی ڈور سے باندھ دیاتھا جو آہستہ آہستہ موت سے ہمکنار ہوتے رہے اور اس طرح ہنستے کھیلتے شہر، جھیلوں اور تالابوں کی نگری میں درد کا ایک ایسا دریا بہا جسے دیکھ کر پتھر دل بھی تڑپ گئے، ساری دنیا اس المیہ کی شدت کا احساس کرکے اسی طرح سہم گئی جس طرح کہ ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم کے وقت لزرگئی تھی۔مذکورہ دونوں حادثوں میں ایک یکسانیت یہ تھی کہ ان کے پیچھے امریکہ تھا جو تیسری دنیا کے ممالک کو انسان کم اور گوشت پوست کا کچرا زیادہ سمجھتا ہے، حالانکہ اس المیہ کو کافی وقت گزرگیا ہے لیکن درد کا دریا آج بھی بہہ رہا ہے۔ بلکہ یہ کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ان کی بڑی تعداد ایسی ہے جو مختلف عوارض کا شکارہوکر رات دن اسپتالوں کے چکرلگانے پر مجبور ہے۔ کچھ تو طویل عرصہ گذرجانے کے باعث اور کچھ ہمدری کے کھوکھلے پن کی وجہ سے گیس المیہ کی برسی کا یہ دن ایک بندھی ٹکی رسم میں تبدیل ہوگیا ہے، جس طرح دسہرے کے دن راون کاپتلا جلایاجاتا ہے تقریباً اسی نہج پر گیس متاثرین کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں یونین کاربائیڈ یا اس کے سربراہ انڈرسن کے پتلے نذرِ آتش کرتی ہیں اور بیشتر لوگ تو دعائیہ یا تعزیتی جلسے کرکے گذشتہ صدی کے سب سے بڑے کیمیائی حادثہ کو باقی سال کے لئے طاق نسیاں کردیتے ہیں۔ المیہ درالمیہ یہ ہے گیس حادثہ موت اور ماتم سے شروع ہوکر معاوضہ پر جاکر رک گیا جیسے تیسے معاوضہ کی ادائیگی ہوئی تو اس کے بعد کم از کم مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے تو یہی سمجھ لیا کہ اب ان کی کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہی یونین کاربائڈ سے سمجھوتہ میں وصول کی گئی رقم کا سود ہی اگر بھوپال کے شہریوں کی دوا علاج پر معقول طریقہ پر خرچ کیاجاتا تو ان کی اتنی بدتر حالت نہیں ہوتی جتنی کہ نظرآتی ہے۔پرانے شہر کے حقیقی گیس متاثرین جنہوں نے مہلک میتھائل آئسو سائنٹ گیس کے اثرات کو براہ راست بھگتا اور اس کے بعد قسطوں میں ہلاک ہوتے رہے ان کو بندھی ٹکی رقم ادا کرکے یہ سمجھ لیا گیا کہ اب ایسے لوگوں کے تئیں ساری ذمہ داری سے مرکزی وریاستی سرکاریں عہدہ بر آہوگئی ہیں۔ دور دراز کی نواحی بستیوں کو بھی معاوضہ کی رقم ملے اس کی سیاست بھی خوب ہوتی رہی۔ مرکزی حکومت سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں تھا کہ بچوں،بوڑھوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد جوازحد بے بسی کی زندگی گزارتی رہی اس کو معقول معاوضہ کیوں نہیں دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مرکزی حکومت میں بیٹھے لوگوں نے پہلے جس انداز سے سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑا اور یونین کاربائیڈ سے حقیر معاوضہ پر سمجھوتہ کرلیا اس عمل نے گیس متاثرین کے مفادات کو سخت نقصان پہونچایا۔جس کا ثبوت وہ رقم ہے جو معاوضہ کے نام پر ادا کی گئی حالانکہ انسانی صحت وتندرستی کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان سے تو وہ ویٹ نام اچھا ہے جہاں امریکہ کے کیمیائی بموں کے بدلہ میں ملک کی تعمیر وترقی کے نام پر تاوان وصول کیا گیا اور اس رقم سے ملک کو ایک صنعتی دیش بنانے میں مدد ملی۔ اس عرصہ کے دوران ہندوستان میں سپریم کورٹ کی پہل پر بھوپال میموریل ٹرسٹ ہاسپیٹل کا قیام ضرور عمل میں آیا اور اس کی برانچیں شہر کے مختلف علاقوں میں کام کرنے لگیں مرکزی ہاسپیٹل نے بھی کافی بڑے سرمایہ سے تعمیر کے مراحل مکمل کرکے کام کرنا شروع کردیا اور اس کے ٹرسٹی پوری فرض شناسی کے ساتھ کام کررہے تھے لیکن اسپتال کا انتظام اس سے چھین کر مرکزی وزارت کے سپرد کردیاگیا ہے آج نہ وہاں معقول علاج ہورہا ہے، نہ ڈاکٹر کی مناسب تعداد موجود ہے۔ بھوپال گیس المیہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی مجرمانہ لاپرواہی کا نتیجہ تھا لیکن یہ کتنی ستم ظریفی ہے اقتصادی کھلے پن اور گلوبلائزیشن کے نام پر ہمارے ملک میں کثیر قومی کمپنیوں کے لئے عرصہ سے لال قالین بچھا دیا گیا ہے۔ گیس المیہ کی۳۸ ویں برسی ایک مرتبہ پھر ہمارے حکمرانوں کو انسانی بنیاد پر ان دکھیوں کے تئیں اپنا فرض یاد دلارہی ہے جو وقتی سیاسی ہنگامہ میں عام طور پر فراموش کردیاجاتا ہے۔٭
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں