عارف عزیز(بھوپال)
”بھوپال گیس سانحہ“ آج سے ۶۲ سال چھ ماہ پہلے اس وقت ہوا، جب ہندوستان میں گلوبلائزیشن کی ہوائیں چلنا شروع نہیں ہوئی تھیں، لیکن اسے امریکہ کی ان سامراجی پالیسیوں کا ہی نتیجہ قرار دیا جاتا ہے، جو تیسری دنیا کے انسانوں کو انسان کم اور گوشت پوسٹ کا کچرا زیادہ سمجھتا ہے، حالانکہ اس المیہ کو عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اس کے اثرات آج بھی جھیلوں اور تالابوں کے شہر بھوپال میں محسوس ہوتے ہیں اس عرصہ کے دوران مرکز اور ریاستوں میں جو بھی حکومتیں آتی جاتی رہیں، ان کا ایک ہی کام تھاکہ یونین کاربائڈ سے ملنے والے معاوضہ کو دریا دلی سے لٹادیاجائے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ بھوپال کے لاکھوں گیس متاثرین کی واقعی ضرورت کیا ہے؟
گیس متاثرین کے مسائل سے اَن دیکھی: اس عرصہ میں خیرات کی طرح معاوضہ کی تقسیم ضرور ہوئی اور دوا و علاج کے لئے دستیاب فنڈ کا استعمال اسپتال تعمیر کرنے اور مریضوں کو ادویہ تقسیم کرنے میں ہوتا رہا، لیکن نہ اسپتالوں کا نظم ونسق درست ہوا، نہ معیاری دوائیں مریضوں تک پہونچ سکیں،یہی وجہ ہے کہ قسطوں میں لوگ موت کا شکار بنتے رہے اور آج ان کی تعداد ۳۳ ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ۳ لاکھ کے قریب گیس متاثرین آج بھی بیمار ہیں، کینسر، ہارٹ کی شکایت، گردوں کی خرابی، آنکھوں کی کمزوری اور ڈائبٹیز جیسی درجنوں مہلک بیماریاں ان کو لاحق ہیں، ان میں سے ۵۱ ہزار ۸۴۲ سے زیادہ مرنے والوں کے ورثاء کو معاوضہ کی تقسیم ہوچکی ہے جبکہ پونے چھ لاکھ گیس متاثرین کو پہلے مرحلہ میں ۵۱سو ۷۳کروڑ روپے تقسیم ہوئے اور دوسرے مرحلہ میں تقریباً ۵۱ سو ۷ کروڑ روپے بطور معاوضہ ادا کرنے کا کام جیسے تیسے مکمل کرکے حکومت ہند اور مدھیہ پردیش سرکاروں نے یہ سمجھ لیا کہ گیس سانحہ کے تئیں ان کی جوابدہی اب باقی نہیں رہی۔
عدالت کا فیصلہ انصاف کا خون: اس کا واضح ثبوت ۶۲ سال بعد۸ مجرموں کے خلاف عدالت سے صادر ہونے والا فیصلہ ہے کہ مذکورہ ملزموں کو صرف دو سال کی سزا سنائی گئی اور ۵۲-۵۲ ہزار روپے کے مچلکوں پر انہیں فوراً ضمانت مل گئی۔ اس سے زیادہ شرم وافسوس کی بات یہ ہے کہ یونین کاربائڈ سے متعلق تین کمپنیوں پر مجموعی طور سے ۵۱ لاکھ روپے کا جرمانہ عائد ہوا، گیس حادثہ کا سب سے بڑا ملزم وارن اینڈرسن عدالت کی گرفت میں نہیں آسکا،حالانکہ دسمبر ۴۸۹۱ء میں مہلک میتھائل آئسو سائنٹ گیس کا اخراج ہونا، یونین کاربائیڈ انتظامیہ کی مجرمانہ لاپرواہی کا نتیجہ تھا اور اس کا ذمہ دار اینڈرس ہی تھا، لیکن اوپر کے دباؤ پر مقدمہ کی شدت کو کم کرتے ہوئے سی بی آئی نے استغاثہ اتنا کمزور پیش کیا کہ دو ماہ سے زیادہ سزا ملنا دشوار تھا۔
یہ حادثہ اگر امریکہ میں ہوتا تو متاثرین کو ۰۵ گنا زیادہ معاوضہ ادا ہوتا یعنی ۵۱۷ کروڑ روپے کا معاوضہ ۰۵۷۵۳ روپے میں تبدیل ہوجاتا، یہی نہیں متاثرین کی بازآبادکاری کی ذمہ داری نبھاتے نبھاتے متعلقہ کمپنیاں دیوالیہ ہوجاتیں۔ ’بھوپال گیس سانحہ‘ حقیقت میں دنیا کا سب سے بڑا حادثہ تھا جو انسانی خطا کے باعث سرزد ہوا اور اس کے مجرموں کی شناخت بھی ہوگئی ہے۔ پھر بھی جانچ ایجنسیوں کی شعوری کوتاہی بلکہ جانبداری سے اول تو مقدمہ کو ۵۲سال تک کھینچا گیا، دوم اس کا نتیجہ ایسا برآمد ہوا جس کو انصاف کے خون کے سوا دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔
عالمی ردعمل سے گھبراکر وزارتی گروپ کی تشکیل: بھوپال گیس مقدمہ کے فیصلہ کے بعد نہ صرف بھوپال بلکہ پورے ملک اور دنیا میں اس کے خلاف جو شدید ردعمل سامنے آیا اور اس میں نامی گرامی شخصیتوں کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش کئے گئے، اس سے گھبرا کر مرکزی حکومت نے ازسر نو معاملہ پر غور وخوض کرکے متاثرین کی اشک سوئی کیلئے وزیر داخلہ پی چدمبرم کی سربراہی میں ایک وزارتی گروپ تشکیل دے دیا۔ اس کی کارروائی سے اندازہ ہواکہ اسے معاملہ کو نمٹانے کی جلدی تھی لہذا جیسے تیسے حکومت کے خیال میں زیادہ سنگین گیس متاثرین کو معاوضہ دیکر اس سلسلے کا کام بند کردیا گیا ہے، اس وقت معاوضہ کی ایک اور قسط دی جاسکتی ہے، دوسری طرف مدھیہ پردیش سرکار نے بھی ایک کمیٹی بنائی ہے، جس نے پورے معاملہ کو ازسرنو کھولنے کی سفارش کردی ہے، ریاستی سرکار کی ایک اور دلچسپی تھی کہ شہر کے باقی ماندہ بیس وارڈوں کو بھی گیس متاثرہ قرار دیکر وہاں کے لوگوں کو معاوضہ دلایا جائے، اگر یہ مطالبہ مرکزی حکومت یا سپریم کورٹ نے مان لیا تو اس کے نتیجہ میں حقیقی گیس متاثرین کا حق ہی مارا جائے گا۔
امید ہے کہ امروز وفردا کے دوران وزارتی گروپ میں سپریم کورٹ میں گیس متاثرین کے معاملہ پر نظر ثانی کرنے کی درخواست پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے جس میں یہ لحاظ ضروری ہے کہ حقیقی گیس متاثرین کو کم از کم اتنا معاوضہ تو ضرور دیا جائے جتنا ۴۸۹۱ء کے ”سکھ مخالف فسادات“ کے متاثرین کو ادا ہوچکا ہے یعنی پانچ لاکھ روپے۔
گیس متاثرین کیلئے راہ پھر بھی آسان نہیں: لیکن یہ حقیقت پھر بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ چار پانچ لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا ہونے سے بھی گیس متاثر کے دکھ درد کا خاتمہ ہونے والا نہیں کیونکہ پہلے بھی یہ تجربہ ہوچکا ہے کہ گیس معاوضہ کی ادائیگی بھوپال شہر کیلئے رحمت کے ساتھ زحمت بھی ثابت ہوتی رہی ہے، کیونکہ شہر کی اقتصادیات پر اس کے گہرے مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہیں، معاوضہ تقسیم ہونے پر دیکھتے ہی دیکھتے قیمتوں کا انڈیکس اوپر پہونچ گیا، غریب طبقہ کو اضافی رقم ملنے سے اس میں کام کاج کے تئیں لاپرواہی دیکھنے میں آئی، یہانتک کہ گھریلو نوکری، فیکٹری میں کام کرنے والوں، کامگاروں اور مزدوروں نے جوڑی ڈال دی، دوسرا تجربہ یہ ہوا کہ معاوضہ کی تقسیم کے عمل کو اتنا پیچیدہ بنادیا گیا کہ گیس متاثرین کیلئے اس کا حصول کسی درد سر سے کم نہیں رہا۔
ایک تجویز بھوپال شہر کے ممبر اسمبلی اور مدھیہ پردیش کے گیس راحت وزیر عارف عقیل نے یہ معقول پیش کی تھی کہ مقامی سرکاری ملازمتوں میں گیس متاثرین کو ۵۲ فیصد ریزرویشن دیا جائے کیونکہ یہ طریقہ دوسرے علاقوں یا شعبوں میں پہلے بھی اپنایا جاتا رہا ہے ایک اور تجویز پر وزارتی گروپ کو غور کرنا چاہئے تھاکہ گیس متاثرین کی اولادیں جو اب تک گیس معاوضہ یا دوسری سہولتوں سے محروم ہیں۔ ان کیلئے بھی راحت رسانی کا معقول انتظام ہو کیونکہ ایک دو نہیں درجن بھر سروے اس سچائی پر روشنی ڈال چکے ہیں۔یونین کاربائیڈ کے کارخانے سے جس وقت گیس نکلی تھی اس وقت یا اس کے بعد جو ہزاروں بچے ماں کے بطن میں تھے سب نے زہریلی گیس کے منفی اثرات قبول کئے ہیں، آج وہ بچے ۵۳-۵۳ سال کے ہوگئے ہیں اور کاربائیڈ کے زہر کا اثر ان کی زندگی میں صاف دکھائی دے رہا ہے، یہی نہیں اس کے بعد پیدا ہونے والے بچوں میں بھی جسمانی اور دماغی نقائص عام ہیں گیس سے متاثرہ مذکورہ ماں باپ کی اولادیں مختلف عوارض کا شکار ہیں لہذا ان کے لئے بھی مالی راحت اور میڈیکل سہولت کا معقول انتظام ہونا چاہئے تھا۔ بھوپال شہر میں گیس راحت کے فنڈ سے جو اسپتال چلائے جارہے ہیں ان کی حالت پچھلی حکومت میں بدتر ہوچکی تھی، مذکورہ اسپتال کا آج بھی یومیہ ۰۱ ہزار مریض اپنے علاج کیلئے چکر کاٹتے ہیں اور ان کے دواء علاج کا فنڈ بڑھانا چاہئے۔ (یو این این)
جواب دیں