بھوپال ، گنگا جمنی تہذیب کا ایک مثالی شہر

یہاں سب سے پہلے ایک تالاب کا بند بندھوا کر شہر کا نام’’ بھوج پال‘‘ رکھا، جو کثرتِ استعمال سے بھوپال ہوگیا، پہلے یہاں گونڈوں کی آبادی تھی، یہ گونڈ ان سیاہ فام شدیوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے، جنہیں سکندر اعظم ہندوستان پر حملہ کرتے وقت ساتھ لایا تھا، راجہ بھوج کے زمانے میں یہ ایک بڑا شہر تسلیم کیا جاتا ہے، بعد میں اسے گنور کے راجہ نظام شاہ گونڈ نے اپنی جاگیر میں شامل کرلیا، رانی کملا پتی، اسی نظام شاہ کی بیگم تھی۔
بھوپال شہر کی بنیاد میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب جس کا خمیر ہندو مسلمانوں کے میل جول سے اٹھا شروع شامل رہی ہے۔ مغل بادشاہ فرخ سیر کے عہد میں ایک طالع آزما افغان سردار دوست محمد خاں یہاں وارد ہوا اور مالوہ کے کئی شہر سانچی، بھوج پور، ہوشنگ آباد اور ساگر میں اس کا اثر ورسوخ قائم ہوگیا، اسی زمانے میں نظام شاہ کو اس کی برادری کے لوگوں نے زہر دیکر مار ڈالا، نظام شاہ کی بیوی رانی کملا پتی اپنے شوہر کے قتل کا انتقام لینا چاہتی تھی، اس نے سردار دوست محمد خاں سے مدد چاہی اور وعدہ کیا کہ اگر میرے شوہر کے قاتلوں سے انتقام لے کر سردار نے اس کا علاقہ آزاد کرالیا تو میں ایک لاکھ روپے ادا کروں گی، سردار دوست محمد خاں نے ایک ہندو خاتون کی مدد کیلئے پکار کو سن کر اس کے دشمنوں کا قلع قمع کردیا، رانی نے انہیں اپنے علاقے گنور کا حکمراں بنادیا اور حسب وعدہ ایک لاکھ کی رقم ادا نہ کرنے پر بھوپال کو جو اس وقت دس ہزار روپے سالانہ آمدنی کا ایک معمول قصبہ تھا، سردار کے سپرد کرایا۔
سردار دوست محمد خاں نے ۱۷۲۲ء میں یہاں فتح گڑھ کا قلعہ اور شہر پناہ کی پختہ فصیل بنوائی، اس ہندو مسلم اشتراک( رانی کملا پتی اور نواب دوست محمد خاں) کے نتیجہ میں ریاست بھوپال معرض وجود میں آئی، سوا دو سال بعد ۱۹۴۹ء میں نواب حمیداللہ خاں پر اس ریاست کا خاتمہ ہوا لیکن اس میں ہندو آبادی کی کثرت شروع سے آخر تک برقرار رہی اور اہل ہنود ہر دور میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔فوج وپولس میں مسلمانوں کی اسی نوے فیصد تعداد ہونے کے باوجود، وہ ہر طرح محفوظ ومامون رہے۔
ریاست بھوپال کی گنگا جمنی تاریخ کے ثبوت کیلئے یہ کافی ہے کہ عالمی شہرت کے حامل بودھ مذہب کی ایک قدیمی یادگار استوپوں کی صورت میں یہاں موجود ہے۔ اس کی بنیاد ڈھائی سو برس قبل مسیح اشوک اعظم کے بیوی دیوی نے سانچی میں رکھی تھی، جو بھیلسہ موجودہ ودیشہ کی رہنے والی تھی، سانچی کو آج بھی جاپان، سری لنکا، برما، تائیوان اور تھائی لینڈ جیسے بودھ اکثریت کے ممالک سے زائرین بڑی تعداد میں دیکھنے کیلئے آتے ہیں۔ سانچی کے قریب قصبہ رائسین میں ایک ہزار سال قبل مسیح میں راجہ سین کا بنوایا ہوا تاریخی قلعہ ہے، اس قلعہ کے نیچے خواجہ صاحب اجمیریؒ کے بھانجے حضرت شاہ فتح اللہ جنہیں’’ شہنشاہ مالوہ ‘‘کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے کی درگاہ ہے، یہاں سبھی مذاہب کے لوگ آکر عقیدت کے پھول چڑھاتے ہیں۔
ریاست بھوپال کے حکمراں ضرور مسلمان تھے لیکن یہاں کے کاربار حکومت کو چلانے میں ہندو اعلیٰ حکام کا بڑا حصہ رہا ہے، نوبت رائے، گلشن رائے، امان سنگھ، ہمت سنگھ، راجہ بجے رام، راجہ خوش وقت رائے، دیوان چھٹو لال، راجہ اودھ نرائن بسریا، چتر نرائن مالوی تو بڑے عہدوں پر فائز ہندو حکام کے چند نام ہیں، ان کے علاوہ بھی سرکاری ملازموں میں ہندو بڑی تعداد میں موجود تھے۔
۱۹۴۷ء کے پرآشوب دور میں جب ہندوستان برصغیر کے مختلف شہروں میں متعصب جنونی انسانوں کا خون بہا رہے تھے، بھوپال کے مسلمان اور ہندو دنیا کے سامنے اپنی گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ محبت وراداری کی مثال پیش کررہے تھے۔ 
آج بھی بھوپال شہر کی پرانی آبادی میں جہاں جامع مسجد، موتی مسجد، تاج المساجد کے میناروں سے اذان کی آواز بلند ہوتی ہے، وہیں منوا بھانڈ کے پہاڑ، مندر کمالی، جین مندر، کالی کا مندر، شیتل داس کی بغیہ اور برلا مندر سے ناقوس وگھنٹیوں کی صدا سنائی دیتی ہے۔ اور ایسے مندروں کی تعداد کافی ہے ، جن کو قیمتی آراضی مسلم فرمانرواؤں نے عنایت کی اور آج وہ ان کی غیر معمولی آمدنی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔اس شہر کے ساکنوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرونے اور ان کے درمیان گہرے سماجی رشتے پروان چڑھانے میں یہاں کی زبانوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ، جس میں اردو جو یہاں کی سرکاری زبان تھی اور اس کی بہن ہندی شامل ہیں، دہلی اور لکھنؤ کے ’’اماں‘‘ اورحیدرآباد کے ’’حضت‘‘ کی طرح یہاں مخاطب کرنے یعنی خلوص ومحبت سے پکارنے کے لئے ’’خاں‘‘ کا استعمال ہوتا ہے، جسے قدیم باشندے آج بھی استعمال کرتے ہیں اور دوسرے شہروں میں جب وہ جاتے ہیں تو اپنے اس خاص لب ولہجہ کی وجہ سے پہچان لئے جاتے ہیں۔ دونوں زبانوں میں اپنے قلم کا جوہر دکھانے والوں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں ، جگل کشور سیراب، گوپی ناتھ سہائے مفتون، جادو رائے ناظم، تربینی سرن شاد، گووند پرساد آفتاب، پنا لال نسیم، شمبھو دیال سخن، پربھو دیال سخن، درگا پرشاد شاد، پرمود بہاری لال شیدا، سالگ رام ویاس اور سیلانی سیوتے نے جہاں شعر وشاعری کی آبیاری میں حصہ لیا، وہیں ماسٹر نتھو لال، ڈاکٹر گیان چند جین اویناش چندر رائے، دیوی سرن، کے این پردھان کا نام اردو کے نثر نگاروں اور صحافیوں میں آتا ہے۔ ریاست کے وزیر اعظم راجہ اودھ نرائن بسریا کی دختر راج کماریسورج کلا سہائے سرورؔ بھی شاعرہ تھیں، ان کے مجموعہ کلام ’’حریمِ ناز‘‘ پر فراق گورکھپوری نے مقدمہ لکھا تھا ، اسی طرح ہندی زبان وادب کے پرستاروں میں سرفہرست نام نواب شاہ جہاں بیگم کا ہے، جو ہندی میں شاعری کرتی تھیں، ’’روپ رتن ‘‘ان کا تخلص تھا، بھارتیندو ہریش چندر نے اپنے اخبار ’’آریہ ورت‘‘ میں ان کی کویتائیں شائع کیں اور ان کی ہندی شاعری کی تعریف کی۔ کمال خاں کمال، منظور احتشام، احد پرکاش کے علاوہ بے شمار اردو شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں نے ہندی زبان کوگاہے بگائے اپنے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے ۔
نوابی ریاست کے دور میں یہاں سالانہ پچاس کے قریب تعطیلات ہوتی تھیں اور ان میں ہندو مسلمانوں کے لئے چھٹیاں تقریباً برابر تھیں، یہاں کے تہواروں کا بھی ایک خاص انداز ہے، جس جوش ومسرت کے ماحول میں عید اور بقرعید کے تہوار منائے جاتے ہیں، دیوالی، دسہرا اور ہولی کے تہوار بھی، اسی شان سے منعقد ہوتے ہیں، پہلے بھوپال ایک بہت چھوٹا شہر تھا، جس کی مسجدوں میں سے عیدگاہ، تاج المساجد، جامع مسجد، موتی مسجد اور پیر صاحب کی مسجد میں عیدین کی نمازیں ہوتی تھیں، اب شہر دس گنا بڑھ گیا ہے تو پچاس کے قریب مسجدوں میں مسلمان عید کا دوگانہ ادا کرتے ہیں، ہندو تہواروں میں پہلے بھی خوب چراغاں ہوتا تھا، دسہرے اور ہولی کا جلوس نکلتا، بھائی رتن کمار اس کے راوی ہیں کہ’’ نواب حمید اللہ خاں اپنے محل احمد آباد پیلس پر ہندو تہوار مناتے تھے اور ہولی کا رنگ کھیلنے کے لئے خوبصورت پچکاریاں محل سے فراہم ہوتی تھیں‘‘، آج بھی بھوپال کے تہواروں کا یہی رنگ قائم ہے، مسلمان اپنے ہندو بھائیوں کے گھر جاکر اور ہندو مسلمانوں کے یہاں پہونچ کر گلے ملتے اور مبارکباد دیتے ہیں، رمضان کے ایک ماہ تک اس شہر میں روزہ افطار کی جو دعوتیں ہوتی ہیں، ان میں برادران وطن بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور ان کے لباس، وضع وقطع کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ ان میں ہندو اور مسلمانوں کی تعداد کا فیصد کیا ہے۔ 
یہاں کے رائے دہندگان نے اپنے نمائندے منتخب کرنے میں ہمیشہ رواداری کا مظاہرہ کیا ہے، مولانا سعید اللہ خاں رزمی، میمونہ سلطان، عارف بیگ ہندو اکثریت کے بھوپال پارلیمانی حلقہ سے کامیاب ہوئے جبکہ مولانا طرزی مشرقی، خان شاکر علی خاں، حمید قریشی، رسول احمد صدیقی ، حسنات صدیق اور عارف عقیل اسمبلی کیلئے چنے جاتے رہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے سیاست والیکشن میں بھی یہاں فرقہ واریت کازیادہ عمل دخل نہیں رہا۔ 
بحیثیت مجموعی بھوپال شہر کا سیکولر کیریکٹر پونے تین سو سال سے اپنی جگہ قائم اور مستحکم ہے، سوائے ۱۹۹۲ء کے یہ شہر فرقہ وارانہ فساد کی لپیٹ میں کبھی نہیں آیا، اس وقت بھی شہر کا پرانا حصہ جسے فصیل بند شہر کہا جاتا ہے، جان ومال کے نقصان سے محفوظ رہا، کیونکہ یہاں کے سبھی فرقوں کے درمیان سماجی رشتے اتنے مستحکم تھے کہ دنگائی انہیں کمزور کرنے میں ناکام ہوئے آج بھی لوگ بلا امتیاز مذہب ودھرم ملی جلی بستیوں میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی خوشی وغم میں شریک ہوکر انسانیت کا پرچم بلند کررہے ہیں۔

«
»

حماس اور فتح میں مفاہمت

آر ٹی آئی ایکٹ عوام کو بہلانے کا ذریعہ ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے