لیکن دن ڈھلتے ہی پورا ماحول خوشگوار ہوجاتا تھا اور راتیں عام طور پر پرسکون گزرتی تھیں، اسی لئے دور دور تک شبِ مالوہ یعنی بھوپال کی شب کی شہرت تھی۔اسی طرح بھوپال کی سردی جسم میں کپکپی تو پیدا کرتی تھی لیکن خون کا دوران نارمل رہتا تھا، موسم باراں کئی لحاظ سے بھوپال کا سب سے خوشگوار موسم ہوا کرتا تھا، جب جھرنوں، تالابوں اور پہاڑوں کے دامن میں سانس لیتا ہوا یہ خوبصورت شہر حقیقت میں خوابوں کی سرزمین بن جاتا تھا، یہاں کے پہاڑیاں وادیاں اور میدان سبز لباس زیب تن کرلیتے تھے، خاص طور پر شملہ پہاڑی ، عیدگاہ پہاڑی، اریڑے کا پہاڑ اور منڈوا بھانڈ کے ٹیکرے کو دیکھ کر کشمیر، شملہ، مسوری، دارجلنگ، نینی تال کا دھوکہ ہوتا تھا۔ ساون میں یہاں کے شاداب جنگل نہا دھوکر خوب نکھر جاتے تھے اور ان کی ہری قبا نہایت خوبصورت لگتی تھی لیکن بھوپال شہر کی آبادی بڑھنے اور اس کی اندھا دھند توسیع نیز عمارت سازی نے مالوے کے قدرتی حسن سے آراستہ اس شہر پر غیر معمولی اثر ڈالا ہے۔
کلکتہ سے ۲۷ برس بعد اور حیدرآباد سے کوئی ۱۲۶ سال بعد ۱۷۲۲ء میں آباد ہونے والے بھوپال شہر کی عمر اب تین سو سال کے قریب ہوگئی ہے دوسرے بڑے شہروں کی طرح بھوپال کا جو پرانا رنگ روپ تھا، وہ کافی تبدیل ہوگیا ہے، ملک کی آزادی کے وقت بلکہ اس کے کئی سال بعد تک یہ شہر ۲۷ مربع کلومیٹر رقبہ تک محدود تھا ، جو آج آبادی کے پھیلاؤ اور عمارتوں کے جال کی وجہ سے ڈھائی سو کلومیٹر علاقہ کو اپنے اندر سمیٹ چکا ہے، اسی طرح آبادی بھی چند ہزار نفوس سے بڑھ کر۲۲ لاکھ کے عدد کو چھو رہی ہے۔ آبادی اور پھیلاؤکے اس بے تحاشہ اضافہ کا سب سے زیادہ اثر یہاں کی آب وہوا پر مرتب ہوا ہے اور موسموں کا توازن اس کی وجہ سے کافی بگڑ گیا ہے۔ اب نہ وقت پر گرم ہوائیں چلتی ہیں، نہ بروقت سرد ہوائیں جسموں کو متاثر کرتی ہیں اور نہ مانسون کے آنے جانے کا وقت مقرر ہے، ضرورت کے مطابق بارش نہ ہونے سے شہر کی جھیلیں اور تالاب بھی خشک ہوجاتے ہیں۔
بھوپال تال جس سے یہ کہاوت منسوب تھی
تال تو بھوپال تال اور ہیں تلیاں
رانی تو کملا پتی اور ہیں گدھیاں
اس تالاب کو ایک ہزار سال پہلے مالوہ کے راجہ بھوج نے تعمیر کرایا تھا حالانکہ دو پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہونے سے اس کے قدرتی تالاب ہونے کا گمان ہوتا ہے اور اس کی شہرت سن کر پورے ملک سے لوگ اسے دیکھنے کے لئے بھوپال آتے ہیں، ابھی حال تک بھوپال شہر کی شہ رگ (لائف لائن) ہونے کامقام بھی اسے حاصل تھا، شہر کے بڑے حصہ کو یہاں سے پینے کا پانی فراہم کیا جاتا تھا۔
شہر کا چھوٹاتالاب جسے سابق ریاست بھوپال کی تیسری خاتون حکمراں نواب شاہ جہاں بیگم نے ۱۸۹۴ء میں شہر کے مشرقی سمت ایک پشتہ تعمیر کراکے بنوایا تھا، یہ بڑے تالاب کے مقابلہ میں دسویں حصہ کے برابر ہے، پہلے بارش اور بڑے تالاب کے پانی سے یہ لبریز ہوتا تھا، لیکن اب ارد گرد کی آبادی کے استعمال شدہ پانی سے یہ بھرتا ہے اور اسی لئے یہ ایک بڑی، گہری اور مسموم جھیل میں تبدیل ہوگیا ہے، جس کا پانی عرصہ سے ناقابل استعمال ہے۔
شاہ پورہ جھیل، شہر کی تیسری بڑی جھیل کے نام سے جانی جاتی ہے، اس کی تعمیر ۷۵۔۱۹۷۴ء میں ہوئی تھی اور اسے مچھلیوں کی پرورش اور کاروبار کے مقصد سے بنایا گیا تھا، لیکن آج یہ ایک خوبصورت پکنک اسپارٹ میں تبدیل ہوگیا ہے، اس کا پانی بھی پینے کے استعمال میں نہیں آتا۔ شاہ جہاں آباد کے لینڈ یا تالاب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ پولس اور فوج کی اس علاقہ میں موجودگی کی وجہ سے اس کا نام لینڈیا تالاب پڑا اور ناجائز قبضے ہونے کے سبب سے یہ دن بدن سکڑتا جارہا ہے، اسی علاقہ میں موتیا تالاب ، نورمحل تالاب اور منشی حسین خاں تالاب بھی ہیں، انہیں سیڑھی نما اونچائی پر ایک کے بعد ایک کرکے بنایا گیا ہے، ان میں سب اوپر موتیا تالاب ہے، چوکور شکل والا یہ تالاب بے نظیر، باب عالی، تاج محل اور تاج المساجد سے گھرا ہوا ہے۔ نورمحل کے تالاب کا آج صرف نام باقی ہے اور منشی حسین خاں کے تالاب کا مچھلیوں کی پرورش وتجارت کے لئے استعمال ہورہا ہے، شہر کے صنعتی علاقے بھیل کا سارنگ پانی تالاب بھی انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا ہے، اس کو بی ایچ ای ایل کارخانے سے برآمد ہونے والے مسموم پانی کو جمع کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔
شہر میں مذکورہ تمام پانی کے سرچشموں کے بھرنے کا دارومدار موسمی بارش پر ہوتا ہے، اسی لئے یہاں ان کا تذکرہ ضروری تھا، جہاں تک بارش کی شدت اور کمی کا سوال ہے تو پرانی نسل کے ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ پہلے شہر میں مسلسل ایک ایک ہفتہ بارش ہوتی تھی ، آسمان بادلوں سے ڈھکا رہتا تھا اور لوگ اس بارش سے لطف اندوز ہونے کے مختلف طریقے اپناتے تھے،بھدبھدا ڈیم، یاٹ کلب، ثمرستان عبید، اسلام نگر، منڈوابھانڈ کا ٹیکرا، شملہ پہاڑی اور وہ مقامات ہیں جہاں شہر کے لوگ بارش میں عموماً جاتے اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے تھے، گھروں میں بھی بارش کا خاص پکوان تیار ہوتا تھا، زمانہ گزر گیا، وقت بدلا، آبادی میں اضافہ ہوا شہر کی سرسبزی وشادابی رخصت ہوگئی اور اس کی جگہ سیمنٹ کی پختہ عمارتوں کا جنگل کھڑا ہوگیا تو موسم کے تیور بھی بدلنے لگے، پہلے ہفتوں بارش ہوتی تھی لیکن کسی محلہ یا علاقے میں پانی بھرنے یا سیلاب سے بستی ڈوبنے کی خبر نہیں ملتی تھی، لوگ ہفتہ میں ایک دن شہر سے باہر سیر وتفریح کے لئے جایا کرتے تھے، ساون کے مہینہ میں میلے لگتے اور ان میں جھولے پڑتے، جہاں بچے اور عورتیں جاکر جھولا جھولتے تھے، یہ روایت آج بھی جاری ہے لیکن پرانے دور کے میلوں میں جو گہما گہمی ہوتی تھی وہ اب دکھائی نہیں دیتی، اسی طرح بارش کے ایام میں ایسی خبریں ملنے لگی ہیں کہ فلاں علاقے میں پانی بھر گیا، بستی خالی کرانی پڑی یا وہاں پانی کے تیز بہاؤ نے مکان کی دیوار گرادی اور لوگ اس میں دب گئے ۔ پہلے کچے مکان گرتے ضرور تھے مگر جانی نقصان کم ہوتا تھا،صورت حال میں یہ تبدیلی غالباً اس لئے آئی کہ نئی آبادی بسانے میں پانی کے نکاس کا خیال نہیں رکھا گیا ، یہی وجہ ہے چار چھ گھنٹے کی تیز بارش میں شہر کی عام زندگی درہم برہم ہوکر رہ جاتی ہے، سڑکوں پر پانی بھر جاتا ہے، نالے ندی کا روپ لے لیتے ہیں۔
۹ سال پہلے ۱۴ اگست ۲۰۰۶ء کو صرف سات گھنٹے کی بارش نے اس شہر پر وہ قہر برپا کیا کہ نصف درجن سے زیادہ نشیبی بستیاں پانی میں ڈوب گئیں ، اس سے پہلے ۷۴۔۱۹۷۳ء میں یہ شہر پانی کے سیلاب سے دوچار ہوچکا ہے اس وقت بھی کافی جانی ومالی نقصان لوگوں کو اٹھانا پڑا تھا، نچلی بستیوں میں پانی بھرنا تو عام بات ہوگئی ہے پھر بھی ایسے ناخوشگوارحادثات سے سبق نہیں لیا گیا، مستقبل میں اس ناگوار صورتحال کا اعادہ نہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ یہاں کی انتظامیہ اور شہری اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ماحول اور آب وہوا کو بگاڑنے کی ہر سرگرمی کی حوصلہ شکنی کریں، تعمیر وترقی کے کاموں کو منصوبہ بند طریقے سے انجام دیں تاکہ موسم برشگال خوشگوار ماحول میں گزرے، وقت پر مانسون کی آمد اور رخصت ہو اور دوسرے موسموں میں بھی فضا سازگار رہے۔ *
جواب دیں