بھوک سے مرتے انسان اور ہماری ذمہ داریاں!

از :  محمد فرقان

    کورونا وائرس کی عالمی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پوری دنیا کے حالات بجلی کی رفتار سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس عالمگیر وبائی مرض نے پوری دنیا کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا ہے اور اسکی دہشت سے ہر جگہ لوگوں کے درمیان ایک کہرام مچا ہوا ہے۔ لاکھوں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وباء اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ کیونکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں روزانہ 20 سے 30 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ فی الحال اس کی کوئی ویکسین نہیں ہے اور کسی کے پاس حالات پر قابو پانے کا کوئی مؤثر منصوبہ بھی نہیں ہے۔ دنیا کے طاقتور ممالک بھی اس خطرناک وائرس کے آگے اپنا ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ عالمی ادارہ ئ صحت نے اسے میڈیکل ایمرجینسی قرار دے دیا ہے۔ ملکی حکومتیں اسکے روک تھام کیلئے ماہرین صحت کی رہنمائی سے طرح طرح کی حفاظتی و احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے احکامات جاری کررہی ہیں۔ جس کے پیش نظر ہندوستان سمیت متعدد ممالک میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا ہے۔ مارکیٹیں، تعلیمی ادارے، فیکٹریاں، ٹرانسپورٹ اور ہر قسم کی معاشی سرگرمیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ اور عوام کو ان کے گھروں تک محدود رکھنے کے لیے سخت ہدایات دی گئی ہیں۔ اس ہنگامی لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام شہریوں کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خاص کر وہ مزدور اور غریب طبقہ جنکی معمولات زندگی روزانہ کی محنت اور کمائی پر منحصر تھی، وہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، بلکہ فاقہ کی نوبت آپہنچی ہے۔ یہاں تک کہ مزدوروں اور غریبوں کے لیے ایک وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہوگیا ہے اور لگتا ہے یہ مہلک وائرس غریب کو مزید غریب تر کرنے آیا ہے۔ غریب بستیوں میں رہنے والی عوام یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ کورونا سے موت یقینی نہیں ہے لیکن اگرحالات یہی رہے تو وہ بھوک سے ضرور مر جائیں گے۔ غربت کے ساتھ اب بھوک کی چکی میں پستے اس غریب عوام کی روز کی کمائی کا آسرا لاک ڈاون نے بند کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کے آنند وہار سے لیکر ممبئی کے باندرا علاقے تک لاکھوں مزدوروں کو بھوک کی شدت نے سڑکوں پر آنے پر مجبور کردیا تھا۔ بھوک سے نہ صرف مرد بلکہ عورتیں، بوڑھے اور بچے سب متاثر ہیں، اور حالات انہیں مسلسل کئی دنوں تک بھوکا سلا رہے ہیں!
سلا دیا ماں نے بھوکا بچے کو یہ کہہ کر
پریاں آئیں گی خواب میں روٹیاں لے کر
    بھوک ایک ایسی بیماری ہے جو انسان سے حلال و حرام، پاک و ناپاک کی تمیز بھی چھین لیتی ہے۔ خراج تحسین ہے ان لوگوں کے لیے جو صبر کا دامن نہیں چھوڑتے اور مشکل حالات کا سامنا دلیری کے ساتھ کرتے ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ بھوک کا برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔مفر ممکن نہیں اس سے کہ کائنات کی تلخ ترین اور سفاک حقیقت بھوک ہے۔اینٹھتی آنتوں میں جب بھوک کا الاؤ بھڑکتا ہے تو تہذیب و تمدن کی سبھی دلیلوں کو خاکستر کرکے رکھ دیتا ہے۔ فلسفہ خودی اور شرافت ڈھکوسلا دکھائی دینے لگتی ہے، بھوک بڑی بدذات ہے۔ انسان، چرند پرند اور ذی روح مخلوق اپنی بھوک کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ کورونا وائرس کے پیش نظر حالیہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے غرباء اور بے سہارا لوگوں کے سامنے بھوک ایک بڑا مسئلہ بن کھڑی ہوگئی ہے۔ ملک بھر میں ہزاروں لوگ بھوک کی وجہ سے موت کی نیند سو چکے ہیں اور کئی لوگ بھوک کی شدت سے خودکشی کی راہ اختیار کرچکے ہیں۔حالانکہ حکومت غرباء اور ضروتمندوں سے ضروری اشیاء خوردنی پہنچانے کے دعوے ضرور کررہی ہے لیکن ابھی تک اس عمل کو یقینی نہیں بنایا جاسکا ہے، جس کے سبب لوگ پریشان ہیں۔ اور خصوصاً مسلمانوں کیلئے یہ خدشہ ہیکہ ہماری نئی نسل اسی بھوک کی شدت سے ارتداد کا شکار ہوسکتی ہے، بلکہ دین و شریعت سے دور رہنے والی خواتین دو وقت کی روٹی کیلئے جسم فروشی کو ذریعہ بنا سکتے ہیں۔بحیثیت مسلمان ہمارے اوپر یہ فریضہ ہیکہ ہم اپنے اردگرد رہنے والے غرباء اور مساکین کی بلاتفریق مذہب مدد کریں۔ بھوکے کو کھانا کھلائیں، جو اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے اور نبی آخر الزماں ﷺ کے توسط سے جو نظام زندگی بنی نوع انسان کو میسر آیا اس کی تعلیمات میں مرکزیت اسی نقطہ کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہیکہ کامل مومن کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا     ”وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا“کہ ”اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔“ (سورۃ الانسان)
    اسلام محض چند مخصوص عبادتوں مثلاً روزہ، نماز، حج و عمرہ کی ادائیگی کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ایک حسین امتزاج ہے۔اور اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت کو حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر بیان کیا گیا ہے۔ اسی لئے اسلام نے دنیائے انسانیت کو باہمی اخوت و محبت، ہمدردی اور خدمت گذاری کا درس دیا۔ محتاجوں، غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین و اسلام کا بنیادی درس ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے، ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنے کو دین و اسلام نے کار ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کا نسخہ بتایا ہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”أفضلُ الأعمالِ أن تُدْخِلَ علی أخیکَ المؤمنَ سروراً، أوتقضیَ عنہُ دَیْناً، أو تُطْعِمَہ خُبْزاً“ کہ ”یہ افضل عمل ہے کہ تم اپنے مؤمن بھائی کو خوشی پہنچاؤ یا اس کا قرض ادا کرو یا اسے کھانا کھلاؤ!“ (سلسلۃ الصحیحۃ)۔خالق کائنات اللہ تبارک و تعالیٰ نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مدد کرے۔ شیخ سعدی ؒ نے فرمایا تھا ”ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد“ کہ جو مخلوق کی خدمت کرتا ہے تو مخلوق اس کی خادم بن جاتی ہے۔کیونکہ کسی دکھی انسان کے درد کو بانٹنا حصول جنت کا ذریعہ ہے، کسی زخمی دل پر محبت وشفقت کا مرہم رکھنا اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے، کسی مقروض کا تعاون اور کسی محتاج کی کفالت کرنا اللہ کے رحمتوں اور برکتوں کے حصول کا ایک اہم سبب ہے، کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، ننگے کو کپڑا پہنانا یہ ایمان کامل کی علامت ہے خلاصہ یہ کہ دوسروں کے کام آجانا ہی اصل زندگی اور اصل عبادت ہے کیونکہ:
خدمت خلق کے لئے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں 
    سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں، بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود ہے۔ یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ایسے لوگوں کی ضرورت اور معذوروی کا خاتمہ کرکے معاشرے میں دولت و ضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔ جو لوگ معاشرے سے غربت و افلاس اور ضرورت و احتیاج دور کرنے کے لئے اپنا مال و دولت خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کئے گئے مال کو کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے خصوصاً کھانے کھلانے والے کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ حضرت ھانی ؓبیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ: ” یَا رَسُولَ اللہِ أَخْبِرْنِی بشَیْءٍ یُوجِبُ الْجَنَّۃَ؟ قَالَ: عَلَیْکَ بِحُسْنِ الْکَلامِ، وَبَذْلِ الطَّعَامِ“کہ ”اے اللہ کے رسول! ایسا عمل بتائیں جو جنت واجب کر دے؟ آپﷺ نے فرمایا:اچھی بات کرنا اور کھانا کھلانا“ (المعجم الکبیر)۔ دین اسلام سراسر خیر خواہی کا مذہب ہے۔ دوسروں کی خیر خواہی اور مدد کرکے حقیقی خوشی اور راحت حاصل ہوتی ہے، جو اطمینان قلب کے ساتھ ساتھ رضائے الٰہی کا باعث بنتی ہے۔ محسن انسانیتﷺ نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ عملی طور پر آپﷺ خود بھی ہمیشہ غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کیا کرتے تھے۔
    افسوس کہ آج کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ میڈیا پر یہ خبر نہ آتی ہو کہ فلاں جگہ بھوک و افلاس کے ہاتھوں تنگ آکر ماں نے اپنے بچوں کو قتل کر دیا، باپ نے خودکشی کر لی، تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری اور غربت سے اتنا تنگ ہوا کہ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کو پیشہ بنا لیا۔ اس طرح کی دیگر تمام تر برائیوں کے ظاہر اور مروج ہونے کا اصل سبب اپنے دین حق اسلام کی اصل تعلیمات سے دوری ہے۔ آج ہم دیکھیں اسلام کی روشن تعلیمات سے دور ہوکر ہمارا طرز زندگی، ہمارا طرز معاشرت بہت عجیب سا ہوگیا ہے، بے حسی تو آج کے معاشرے کا معمول بنتی جارہی ہے، ہمیں اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں ہے۔ ہم خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن برابر میں رہنے والے بھوکے پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ جبکہ اسلام نے پڑوسی کو کھانا کھلانے کا حکم دیا۔ مسلم شریف کی روایت ہیکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”یَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَۃً فَأَکْثِرْ مَاءَہَا وَتَعَاہَدْ جِیرَانَکَ“ کہ”ابوذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کو یاد رکھو۔“اور پڑوسیوں کو محروم رکھنے کو ایمان کے منافی قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَشْبَعُ وَجَارُہُ جَاءِعٌ إِلَی جَنْبِہ“ کہ”وہ بندہ مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے“ (مسند ابی یعلی)۔ وہ لوگ جو خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن فقراء و مساکین کا خیال نہیں رکھتے ان کے متعلق قرآن مجید میں ہے کہ وہ قیامت کے دن جہنم میں ہوں گے اور اپنے جہنم میں جانے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہیں گے کہ:”لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ“ کہ ”ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے“ (سورۃ المدثر)۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخرت میں ہمارا کیا حشر ہوگا، جن کے سامنے جانور نہیں زندہ سلامت انسان بھوک و افلاس کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔شاید ہمارے اندر سے آخرت کی جوابدہی کا احساس ختم ہورہا ہے۔اگر غرباء و مساکین بھوک کو کورونا سے بھی زیادہ خطرناک قرار دے رہے ہیں تو بے جا نہیں۔ ان لوگوں کو ماسک اور سینی ٹائزر سے کوئی غرض نہیں، غرض ہے تو فقط روٹی سے، جو انہیں دستیاب نہیں ہورہی۔ ہمیں فلاح انسانیت کے لئے اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نبی کریم ﷺ کے کہنے پر اپنی جان ومال اپنے مسلمان بھائیوں پر نچھاور کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے، اسی طرح آج ہمیں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔آج ہمیں خود کو نکھارنے، اور اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنے لئے تو سبھی جیتے ہیں، کیوں نہ دوسروں کے لئے جیا جائے، دوسروں کی مشکلات و مسائل کو محسوس کرتے ہوئے ان کا سہارا بنا جائے۔ ہماری مدد و معاونت سے اگر کسی کی جان بچ سکتی ہے تو یہ ہمارے لئے باعث اعزاز اور باعث راحت ہے۔اس پر جلد از جلد غور و خوص کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اگر تاخیر کی گئی تو حالات کو یہ حقیقت ثابت کرنے میں تاخیر نہ لگے گی کہ بھوک، کورونا تو کیا ہر شے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
باہر وبا کا خوف ہے گھر میں بلا کی بھوک
کس موت سے مروں میں ذرا رائے دیجئے!

مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر ہیں۔ان کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

18اپریل2020
 

«
»

گودی میڈیااورصحافت کے عصری تقاضے

اے صاحب ایمان ! تیری سادگی پہ رونا آیا !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے