ہمیں آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر۔۔۔

(قاضی صاحب کے ساتھ پیش آئے واقعہ کے تناظر میں)

 

تحریر :  عتیق الرحمن ڈانگی ندوی 

(رفیق فکروخبر بھٹکل)

وہ پستول لہراتا نہ جانے کیوں ان کے گھر کا رخ کیے ہوئے تھا۔!! اسے شاید پتہ بھی ہو کہ وہ کس کے گھر کی طرف جارہا ہے؟!!۔ ہاتھ میں لہراتی پستول اس کی نیت کو واضح کررہی تھی۔!! مگر وہ اس حقیقت سے ناواقف تھا کہ اسے اپنے ارادہ میں کامیابی ملے گی بھی یا نہیں۔!! پھر بھی اسے اپنے ارادہ کی تکمیل مقصود تھی جس کے لیے اس نے اپنا رخ اس گھر کی جانب موڑ دیا تھا۔!!صدر دروازہ پر لگا تالا اس کے ارادے میں ایک دیوار بن کر حائل ہوا، بہر حال اسے اپنی خواہش پوری کرنی تھی جس کے لیے وہ سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار تھا۔!!دیوار پھاند کر وہ متعلقہ مقام پر بھی پہنچا جہاں اس کا قصد تھا۔!! اپنے ناپاک ارادہ کو دوبارہ دوہراتے ہوئے اس نے یک لخت پستول لہرائی۔!! اسے بار بار اپنی نیت کے متعلق سوچنا چاہیے تھا۔ جس گھر تک وہ پہنچا تھا وہ شہر کے معزز ترین فرد تھے، جن کے فیصلوں پر کسی کو بھی چوں چرا کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ان کے جب ہونٹ حرکت کرتے ہیں تو سینکڑوں افراد ان کی زبان سے ادا ہونے والے کلمات سننے کے لیے بے چین ہوجاتے ہیں۔ وہ جب اپنے قدموں کو حرکت دیتے ہیں تو کسی میں بھی یہ مجال نہیں ہوتی کہ اپنے قدم کو ان کے قدم سے ملا لے۔!!  بھلا ایسے شخص کی طرف کوئی ناپاک عزائم کے ساتھ رخ کرلے گا تو اسے خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑے گا۔ کیونکہ اس شخص کی حفاظت اللہ رب العزت کی وہ ذات کررہی ہے جس کی نظر رات اور دن میں یکساں ہوتی ہے۔ اسے رات کے اندھیروں میں اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح دن کے اجالوں میں۔!!

ابھی واقعہ کو زیادہ دیر نہیں گذری تھی کہ انہوں نے اس واقعہ کے پس منظر کو جاننے کی کوشش کی۔ ان کی اہلیہ جو اس واقعہ کی چشم دید گواہ تھی بار بار رات کے اندھیرے میں آنے والے شخص کے ارادہ کو معلوم کرنے کی کوشش کررہی تھی۔!!  اس کے سامنے ہر وقت وہی منظر گردش کررہا تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران کھڑکی سے گھر کے اندر کی سمت داخل ہوتا ہاتھ اور اس ہاتھ میں پستول جیسا مہلک ہتھیار۔!!  اس نے بار بار واقعہ کو بھولنے کی کوشش کی لیکن ہر باریہی واقعہ دوسرا رخ دھارتا اس کے چہروں کے سامنے آجاتا۔!!  ان کے شوہر نامدار نے بھی واقعہ کے متعلق سوچنا شروع کیا اور بالآخر ان دونوں نے فیصلہ لیا کہ واقعہ کے متعلق اپنے عزیزوں کو آگاہ کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ کوئی بھی رات کے اندھیرے میں کیا، دن کے اجالے میں بھی کسی کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کرسکتا ہے۔!! ایسے واقعات پر روک لگانے کے لیے انہیں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ شہر کے ان اداروں کا بھی تعاون ضروری تھا جو وارداتوں کی روک تھام کے لیے ہر وقت فکر مند رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے قریب ترین افراد کو اپنے گھر مدعو کیا اور ساتھ ہی اداروں کے ذمہ دار بھی وہاں پہنچے جنہوں نے واقعہ کے متعلق تفصیلات معلوم کیں۔ اس کو سننا تھا کہ وہاں بیٹھا ہر شخص سکتہ میں آگیا۔ انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ شہر کے معزز ترین شخص کے ساتھ بھی اس طرح کی گھناؤنی حرکت کی جاسکتی ہے؟۔!!!  وہ اس واقعہ کے اسباب تلاش کرنے لگے، ان کے ذہنوں کے دریچے کھلتے چلے گئے لیکن اس واقعہ کا پس منظر ابھی بھی ان کے ذہنوں سے کوسوں دور تھا۔ انہو ں نے باربار اس واقعہ کی تفصیلات پر غور کرنا شروع کردیا لیکن ہر مرتبہ ان کے ذہنوں سے یہی جواب آنے لگا کہ آنے والی کی نیت میں کھوٹ ضرور ہے مگر حقیقت سے واقفیت کی کوئی شکل انہیں نظر نہیں آئی۔!!

گھر کی چہاردیواری سے نکل کر یہ خبر شہر کے گلی کوچوں میں پہنچ چکی تھی۔!! ہر نکڑ پر اسی واقعہ کے تذکرے ہورہے تھے اور ہرکوئی اس کو جاننے کی کوشش کررہا تھا۔!!  سوشیل میڈیا کے ذرائع سے آنے والی خبروں پر ہر کسی کو اس وجہ سے یقین نہیں تھا کہ اس کی خبر پر یقین کرنا خطرہ سے خالی نہیں ہے۔!!  اکثر خبریں حقیقت سے کوسوں دور ہوتی ہیں لیکن جب شہر کے ذمہ داروں کے نمبرات سے مسلسل موصول ہونے والے پیغامات اپنی موجودگی کو ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے تو ہر کسی کا شک یقین میں تبدیل ہوگیا۔!!  ہر کوئی اس واقعہ کی تہہ تک جانا اس وجہ سے چاہ رہاتھا کہ جس شخص کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے انہیں کوئی عارضہ لاحق ہوتا ہے تو پورا شہر فکر مند ہوجاتا ہے بھلا اس واقعہ پر وہ کیوں کر خاموشی اختیار کرتے!!؟

اب ایک ہی صورت باقی رہ گئی تھی کہ شہر میں اس طرح کی گھناؤنی سازشوں پر لگام کسی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے دوبارہ کوئی شہر کے معزز افراد کے ساتھ کیا۔  عام آدمی کے خلاف بھی اس طرح کی جرأت نہ کر بیٹھے۔شہری پولیس تھانہ میں پل بھر میں ذمہ دار پہنچ گئے۔اس امید کے ساتھ کہ شاید عوام کو تحفظ فراہم کرنے والا یہ محکمہ اپنے تجربات کی روشنی میں اس واقعہ کی حقیقت کو آشکارا کرنے میں ذمہ داروں کا تعاون کرے اور اس کے پیچھے کار فرما عوامل سامنے لاکر مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو شہر میں پنپنے نہ دے۔ محکمئہ پولیس نے ہر ممکن تعاون پیش کیا اور متعلقہ گھر پہنچ کر معلومات بھی حاصل کرلیں۔ چوبیس گھنٹے ہر جاندار و بے جان کی حرکت پر رکھنے والی ٹیکنالوجی کی بھی مدد لی گئی اور وہاں سے بھی کچھ حقائق اکٹھا کی جانے کی کوشش ہونے لگی۔ اب شہر کا ہر شخص چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ہاتھ میں پستول لہراتے شخص کے متعلق جاننے کے لیے بے چین ہے، اور پولیس محکمہ عوام کی ٹکٹکی باندھی آنکھوں کا جواب ڈھونڈنے میں مصروفِ عمل ہے۔

09/فروری 2020

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے