تحریر : عتیق الرحمن ڈانگی ندوی رفیق فکروخبر بھٹکل میونسپل کونسل ایک سرکاری ادارہ ہے جہاں شہری ترقیاتی کام کے ساتھ ساتھ عوام سے حکومتی طورپر وابستہ بہت سی ضـروریات پوری ہوتی ہیں ، لوگوں کو یہاں کسی نہ کسی حیثیت سے آنا ناگزیر ہے۔ ہمارا حکومتی کام بغیر میونسپل کونسل کے مکمل ہوہی نہیں […]
بھٹکل میونسپل کونسل کا اردو بورڈ تنازعہ اور قابلِ غور پہلو
تحریر : عتیق الرحمن ڈانگی ندوی
رفیق فکروخبر بھٹکل
میونسپل کونسل ایک سرکاری ادارہ ہے جہاں شہری ترقیاتی کام کے ساتھ ساتھ عوام سے حکومتی طورپر وابستہ بہت سی ضـروریات پوری ہوتی ہیں ، لوگوں کو یہاں کسی نہ کسی حیثیت سے آنا ناگزیر ہے۔ ہمارا حکومتی کام بغیر میونسپل کونسل کے مکمل ہوہی نہیں سکتا۔ پیدائشی سرٹیفکٹ ، ٹیکس ادائیگی ، اسکیموں سے متعلق معلومات اور ان پر عمل درآمد کے لیے بھی آپ کو میونسپل کے چکر ایک بار نہیں بلکہ بار بار کاٹنے پڑتے ہیں ، آپ کا کام جب تک نہیں ہوتا اس وقت تک آپ کو میونسپل کونسل کی سیڑھیاں چڑھنی ہوں گی چاہے آپ بھاری بھرکم جسم والے ہی کیوں نہ ہوں۔
ایسے حکومتی ادارے میں جہاں بڑی تعداد میں لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہو تو وہاں لازمی طور پر ایسی زبانوں کا استعمال کرنا ضروری ہے جس سے لوگ واقفیت رکھتے ہوں ، سرکاری زبان جوبھی ہو لیکن آپ کو متعلقہ افسر تک پہنچنے کے لیے عمارت کا ہی پتہ نہیں ہوگا تو آپ عمارتوں کے چکر ہی کاٹتے رہ جائیں گے۔ پہلے ہی سرکاری کام کے لیے چپلیں گھِس جاتی ہیں اب عمارتوں کے ڈھونڈنے میں کہیں پیرہی زخمی نہ ہو جائیں۔
بھٹکل میں عرصۂ دراز سے شہری حدود میں اردو جاننے والے موجود ہیں، یہاں قومِ نوائط آباد ہے جن کا نوائطی رسم الخط بھی اردو سے ملتا جلتا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بعض حروف کو چھوڑ کر دیگر حروف اردو ہی کے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اس زبان میں کئی الفاظ اردو کے مستعمل ہیں۔ ان ہی حالات کو دیکھتے ہوئے شاید ہمارے اسلاف نے میونسپل کونسل پر کنڑا ، انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی نام لکھنا ضروری سمجھا تھا جس پر آج تک کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ آج بھی میونسپلٹی کی نئی عمارت سے کچھ ہی فاصلہ پر موجود میونسپلٹی کی پرانی عمارت پر اردو میں نام جلی حروف میں لکھا ہے لیکن اچانک اردو کو کس کی نظرلگ گئی؟ خود کو کنڑا حامی کہنے والے لوگوں نے نئی عمارت پر اردو میں میونسپلٹی کا نام لکھے جانے پر پرزور مخالفت کی اور اسے دوسرا رخ دینے کی کوشش کی ، کچھ ہی دیر بعد کرناٹک کے ترنگے کے رنگ کی شال پہن کر خود کو کنڑا پریمی اور کنڑیگاس ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں میونسپلٹی سے اردو نام ہٹانے کا مطالبہ کیا اور مطالبہ پورا نہ کیے جانے پر سخت احتجاج کی بھی دھمکی دے ڈالی۔
اردو کے حامی اس پر کہاں خاموش رہنے والے تھے ۔ کیونکہ اردو زبان بھی ہندوستان ہی کی مشہور زبانوں میں ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس کو استعمال کرنے والے ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے زیادہ ہیں لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے بھی اردو کے شاعر اور ادیب گذرے ہیں۔ اس وجہ سے کسی زبان کو مذہب کا آئینہ لگاکر دیکھنا صحیح نہیں ہے۔ زبانیں کسی کی جاگیر نہیں ہوتیں ، ہر ایک کو کسی بھی زبان کو سیکھنے اور بولنے کا اختیار ہے۔ آج کے لوگوں نے اپنے آباء واجداد کو اردو بولتے اور پڑھتے دیکھا ہے بلکہ انہوں نے اپنے پہلے والوں کو اردو سے محبت کرتے دیکھا تو یہ محبت سالہا سال سے چلتی آرہی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب سے بھٹکل میں لوگ آباد ہوئے ہیں اس وقت سے یہاں اردو بولیں اور پڑھائیں جارہی ہے یا جب سے اردو نے جنم لیا ہے یہاں کے لوگوں نے اسے اپنی پوری محبت دی ہے۔
اس تاریخی زبان کی حمایت میں بھلا لوگ کیوں کرنہ بولتے ، انہیں بھی حق ہے اپنی آواز اٹھانے کا، اپنی بات رکھنے اور دستور میں دئیے گئے حقوق حاصل کرنے کا۔ لہذا آناً فاناً بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے اور اردو بورڈ کسی بھی صورت میں نہ نکالنے کی صلاح دی ۔ صلاح کیا دی بلکہ مخالفین کو چیلنج کیا کہ کسی بھی صورت میں اس تاریخی چیز سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ کیا کسی کے دباؤ بنانے سے اردو سے محروم ہوا جاسکتاہے؟ کیا اسے مذہبی رنگ دے کر خاص طبقہ سے جوڑنے کی کوششیں کامیاب ہونے کے لیے یونہی میدان چھوڑا جائے گا؟
اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے
اب سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے
لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ جب کنڑا کو پہلے نمبر پر جگہ دے کر کنڑیگا ہونے کا ثبوت مل چکا ہے تو ہھر اردو نام پر اعتراض کیوں؟ کیا ہندوستان میں اب اردو لکھنا اور بولنا جرم ہوگیا ہے؟ کیا کسی سرکاری عمارت پر لوگوں کی آسانی کے لیے ان کی معروف زبان میں لکھنا غلط ہے؟ کیا دو چار کے اعتراض سے اردو کے محبین کو اپنی شکست تسلیم کرلینی چاہیے اور ان کی بات مانتے ہوئے اپنے حقوق سے دستبردار ہوجانا چاہیے؟
ان تمام سوالات اور واقعات کے تناظر میں یہ سوچنا اب ضروری ہوگیا ہے جس اردو زبان کا بورڈ لگانے کے لیے آگے آکر اس کی حمایت میں اپنی بات قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کی جارہی ہے تو کیا اس بات پر بھی غوروخوض نہیں کرنا چاہیے کہ جس شہر کی تاریخ اردو سے سالہا سال سے جڑی ہوئی ہو وہاں اردو کی بقا کے لیے کتنی فیصدی کوششیں ہورہی ہیں۔ جو کوششیں ہورہی ہیں کیا نئی نسل کے لیے کافی ہیں یا پھر انہیں فروغ دینے کی ضرورت ہے؟ کیا ان کوششوں سے نئی نسل میں پورے طور پر اردو زبان منتقل کرنے کی ذمہ داری ادا ہوسکتی ہے؟
ان جیسے سیکنڑوں سوالات ہیں جس پر سوچنے کے لیے مذکورہ واقعہ دعوت دے رہا ہے۔
میرے خیال میں سب سے پہلے نئی نسل کو اردو سے واقف کرانے کی ضرورت ہے، انگریزی کے پیچھے جس تیزی سے ہم بھاگ رہے ہیں اس کی رفتار ہمیں کم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے تاریخی اثاثے بلکہ دینی اثاثے سے فائدہ اٹھانے کے لیے اردو کی تعلیم وقت کی ضرورت ہے اس کے لیے ہمیں ایسے تعلیمی اداروں کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے، جہاں اردو سے محبت کرنے والے موجود ہوں ، جہاں اردو کی ثقافت اور تہذیب سے واقفیت رکھنے والے ہوں ، جہاں اردو کے اس عظیم سرمایہ کو نئی نسل میں منتقل کرنے کا ہنرجاننے والے ہوں۔
آج بھی بھٹکل میں بڑی تعداد میں لوگ اردو لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں بلکہ ایک تعداد ان لوگوں کی بھی ہے کہ انہیں کسی دوسری زبان سے واقفیت ہو یا نہ ہو لیکن اردو سے واقفیت ضرور ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نئی نسل کا ایک بڑا طبقہ اردو زبان سے نا آشنا ہوتا جارہا ہے۔
کہیں ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑجائے کہ
مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں