️حافظ عمرسلیم عسکری ندوی بروز پیر مؤرخہ 14 اگست 2020 جناب لیاقت صاحب کو عرضہ قلب لاحق ہونے کی وجہ سے انھیں فورا ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرما کر انکے سیئات […]
بھٹکل کے معروف اور امانت دار تاجر جناب لیاقت صاحب انتقال کر گئے
️حافظ عمرسلیم عسکری ندوی
بروز پیر مؤرخہ 14 اگست 2020 جناب لیاقت صاحب کو عرضہ قلب لاحق ہونے کی وجہ سے انھیں فورا ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرما کر انکے سیئات کو حسنات میں مبدل فرمائے، اوران کو جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے اور ان کے اہل خانہ واعزہ و اقارب اورجملہ پسماندگان کواپنے فضل وکرم سے صبر جمیل عطا فرمائے۔
جناب لیاقت صاحب اپنے خالق اور منعم کی عطا کردہ نعمتوں کو مخلتف دینی معاشی اور سماجی خدمات میں صرف کرکے اپنی مخلصانہ ومحتسبانہ عمل پر انعام حاصل کرنے اپنے حقیقی مالک کے دربار میں حاضر ہوئے۔
موصوف كے سانحہ ارتحال کی خبرنے ان کے اہل خانہ اور اعزہ واقارب پر جس طرح رنج و غم کا پہاڑ کھڑا کر دیا اسی طرح اس غم میں خاندانى قرب كى وجه سے ناچیز بھی برابر شریک ہے۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے اس فانی دنیا میں ہر انسان اور ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ دیکھا جاے تو انسان کی زندگی چند پل کے سوا کچھ نہیں، اس کے بعد مادی وجود کو خاک میں ملناہے۔ البتہ ان میں بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی گراں قدر خدمات کی وجہ سے ساکنان عرش وفرش کے لئے بھی قابل رشک ہوتےہیں۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ ہے کل ہماری باری ہے
موصوف نے اپنے والد بزرگوار کی طرح اپنی زندگی انتہائی سادگی اور قناعت کے ساتھ گذاری، فخر وتکبر سے کوسوں دور تھےاور لباس و پوشاک میں کسی قسم کا تصنع وبناوٹ نہیں تھا، بالکل معمولی اور سادہ لباس پہنتے، ہر کام لوجه اللہ کرتے، نہ نام ونمود کی خواہش اور نہ ہی شہرت کی تمنا، بلکہ اپنا کام خود کرتے، کسی سے خدمت نہ لیتے حتی کہ اپنے کپڑے بھی خود دھوتے، اتنے بڑے مالدار اور صاحب حیثیت ہونے کے باوجود کبھی مال کی محبت کو اپنے اوپر سوار ہونے نہیں دیا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث " کن فی الدنيا كأنك غريب او عابر سبيل" یعنی (دنیا میں پردیسی یا مسافر کی طرح رہو) کو انھوں نے اپنے اندر اتار لیا تھا، اور خاندان کےلئے ایک نمونہ پیش کیا۔ موصوف صوم وصلوہ کے پابند تھے، خوش مزاجی اور جود وسخا کے پیکر تھے، ایسے خاموش مزاج تھے کہ کبھی اپنی بیماری کا گلہ شکوہ نہیں کیا، ہر حال میں الحمدللہ اور اللہ کا شکر ادا کرتے۔
موصوف ایک کامیاب اورمعروف تاجر تھے، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد کچھ سال نوکری کر کے اپنی تجارت کا آغاز کیا، تھوڑی مدت میں ہی ایک کامیاب تاجر بن کر اپنے فرزندان اور اعزہ واقارب کوتجارت میں منسلک کرکے ترقی کی راہ پر گامزن ہوے ۔ آپ ہمدرداور غم خوار تھے،اللہ عز وجل نے بہت زیادہ مال سے نوزا تھا جہاں ایکطرف اپ غریبوں، محتاجوں اور بیواؤں کو تلاش کر کے ان کی امداد کرکے ماہانہ وظائف طے کرتے، اسی طرح مساجد، مدارس اور مختلف اداروں کےلئے دامے درمے قدمے سخنے مالی تعاون پیش کرتے، خود انکے فرزند ارجمند کی زبانی کہ: ہمیں ان کی وفات کے بعدتعاون کردہ لفافہ ملا جس میں مختلف اداروں کے تعاون کرنے کے نام موجود تھے" گویا اس حدیث کی فضیلت حاصل کی "ورجل تصدق بصدقة فأخفاھا حتی لاتعلم شمالہ ما تنفق یمینه"(ایک آدمی چپکے سے صدقہ کرتا ہے یہاں تک کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہیں کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا)
غریبوں کی مدد کرو
دل کو تسلی ملے گی
بہرکیف موصوف بہت ساری اچھی خوبیوں اوربہت سارے اوصاف کے حامل تھے۔
اخیر میں جملہ لواحقین اور اہل خانہ کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرکے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے۔
گزر جائے گی تیرے بغیر لیکن
بڑی اداس بڑی سوگوار گزرےگی
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں