بدھ کی صبح بھٹکل کے مشہور تعلیمی ادارے جامعہ اسلامیہ جامعہ آبادکے طالبِ علم ارسلان احمد قاضی جو کہ شارجہ جانے کے لئے ایرپورٹ پہنچے تو ان کے پاسپورٹ پر صرف بھٹکل کا نام اور اسلامی لباس و چہرہ دیکھ کر ، یٰسین بھٹکل کے نام پر نہ صرف سوالات کئے بلکہ کئی دیر تک انتظار کروایا اور جب ان کی فلائٹ ایر عربیہ اُڑان بھرگئی تو ارسلان کا مذاق اُڑاتے ہوئے ان کی ٹکٹ اور پاسپورٹ ان کے حوالے یہ کہتے ہوئے دیا گیا کہ اب تم واپس گھر جاسکتے ہو کیوں کہ ایر عربیہ اُڑان بھرچکی ہے ۔پہلے تو یٰسین کے نام پر یہ سوال کرنا کہ تم اُسے جانتے ہو سرے سے غلط ہے ۔یہ حق امیگریشن کو کس نے دیا کہ وہ اس کے نام پر ایک مسافر سے اس طرح کے سوا ل کرے، کیا انہیں کوئی خفیہ اطلاع دی گئی تھی کہ بھٹکل کا نام دیکھتے ہی تم اول فول سوا ل کرو، پھر جب ایک بار سوال کے جواب میں یہ کہہ دیا جائے کہ وہ نہیں جانتا تو پھر بار بار اسی طرح کا سوال کرکے ذہنی اذیت دینے کے علاوہ ، ایک بے قصور مسافر کو ڈر اور خوف کے ماحول میں ہراساں کرنا ۔پاسپورٹ کے چھان بین کے نام پر اتنا انتظار کروانا کے فلائٹ ہی اُڑان بھرجائے یہ اُس امگریشن افسر کی عصبیت اور جان بوجھ کر ایک مسلمان کو ہراساں کرنے کے لالچ اور گندی ذہنیت کو ثابت کرتا ہے ۔ یٰسین بھٹکل کی چھان بین اور تفتیش این آئی اے اور دیگر ایجنسیاں کررہی ہیں، کیا یہ ایجنسیاں اور بنگلور کی سی سی بی و دیگر جن پر سیکوریٹی کی ذمہد اریاں عائد ہوتی ہیں وہ اتنی کمزور ہوگئی ہیں کہ اب یہ کام امگریشن والے کرنے لگے، یاکوئی ان امیگریشن افسران سے پوچھے کہ کیا وہ ہر کسی مسافر سے یہی سوال کرتے ہیں ، اگر نہیں تو پھر مخصوص نوجوانوں کو ہی کیوں پریشان کیا جارہاہے ۔قوم کے ذمہداران اور تنظیمیں اس واقعہ کو ہلکے میں نہ لیتے ہوئے فوری متعلقہ افسران کے خلاف ہتک عزت اور ذہنی ہراسانی کا مقدمہ درج کرے اور ہرجانے کا بھی مطالبہ رکھے، کیوں کہ بلاوجہ کسی بھی ہندوستانی شہری کو ہراساں کئے جانے پر آئینِ ہند ہم کو یہ حق دیتا ہے کہ ملزم سے ہرجانہ کامطالبہ کرتے ہوئے اس پر مقدمہ دائر کرے۔ اور یہ واقعہ قومی و ریاستی میڈیا میں لانے کے لئے بنگلور میں فوری پریس کانفرنس طلب کرے تاکہ اس طرح کے متعصب افسران کو عوام کے سامنے لایاجاسکے۔ ابھی حال ہی میں ممبئی میں پیش آیا واقعہ ہمارے سامنے ہے کہ گجرات سے تعلق رکھنے والی ایک ڈائمنڈ کمپنی نے ایک مسلم نوجوان کو صرف اس وجہ سے ملازمت دینے سے انکار کیا تھاکہ وہ مسلمان ہے ، وہاں کی تنظمیں فوری متعلقہ کمپنی کے خلاف مقدمہ دائر کردیا اور پورا معاملہ میڈیا کے سامنے رکھنے کے بعد حکومتیں بھی اس بات کو لے کر کمپنی کی سرزنش کی تھی، یہ واقعہ اسے بھی خطرناک اور شرمناک ہے کیوں کہ یہاں صرف اسلامی شبیہ ہونے اور پھر بھٹکل سے تعلق رکھنے کی بنا پر پریشان کیا گیا اور جلتے پر تیل کے مانند فلائٹ اُڑانے بھرنے کے بعد نوجوان کا کچھ یوں کہتے ہوئے مذاق اُڑایا گیا کہ فلائٹ تو اُڑ گئی اب تم گھر واپس جاؤ ،تمہیں پریشان کرنے کا ہمارا مقصد پورا ہوگیا، وقت کے ضیاع اور ٹکٹ کے اخراجات کے نقصان کے علاوہ ایسی ذہنی اذیت دی گئی جس کو متعلقہ نوجوان ہی سمجھ سکتا ہے کہ اُس موقع پر اُس پر کیا گذررہی تھی۔
جواب دیں