ڈاکٹر ساجد عباسی
دعوت الی اللہ نبی کی سب سے بڑی سنت ہے۔ امت کے اندر ادراک و شعور پیدا کرنے کی ضرورت
ملک میں حالات مسلمانوں کے حق میں روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔بالخصوص اترپردیش اور شمالی ریاستوں میں مسلمانوں پر جنگل کا قانون نافذ ہے جہاں نام نہاد عدلیہ کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ہے۔بغیر قانونی کارروائی کے گھروں کو بلڈوزر سے منہدم کرنا، من مانی فرضی مقدمات لگا کر گرفتارکرنا،پولیس کی موجودگی میں قتل کرنا اور ماب لنچنگ کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے دینا یہ ایسے جرائم ہیں جو ایک سیکولر جمہوری ملک کے دستور کے بالکل مغائر ہیں۔فرقہ پرست غنڈوں کی اتنی ہمت بڑھ گئی ہے کہ اتر پردیش میں ایک مقام پر گھر کے اندر باجماعت تراویح کو بند کروادیا گیا ہے۔رام نومی کے موقع پر تو فسادیوں کو پولیس کی موجودگی میں کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ مسلمانوں کے مکانات ،مدرسوں اور دوکانوں کو جلاکر خاکستر کردیا جائے۔
اکثر تجزیہ نگار ان حالات پر جب کہتے ہیں یا لکھتے ہیں تو وہ مسلمانوں کی سیاسی، تعلیمی اور معاشی بدحالی کو ان حالات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔اخبارات میں فرقہ پرستوں کی اسلام و مسلم دشمنی پر اظہارِ خیال کیا جاتا ہے ۔لیکن تاریخ شاہد ہے کہ عباسی دورِ خلافت میں مسلمان جب علوم و فنون میں ترقی کی معراج پر تھے اس وقت ان پر ایک جاہل اور اجڈ تاتاری قوم کی یلغار سے ان کا بدترین قتلِ عام ہوا۔اسپین میں مسلمان سائنس ،فنِ تعمیراور علوم میں اس وقت کے یوروپ سے آگے رہنے کے باوجود ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا ۔ مسلمانوں کو بالجبر عیسائی بننے پر مجبور کیاگیا ۔جنہوں نے عیسائیت کو قبول نہیں کیا ان کو قتل کردیا گیا۔ایک ترقی یافتہ ترکی کی خلافت جس کے جلو میں 43 ممالک تھے پے درپے شکست سے دوچار ہوکر ایک ملک میں محدود ہوکر رہ گئی ۔بھارت میں عظیم الشان مغلیہ حکومت انگریزوں کے ہاتھوں شکست و ریخت کے انجام سے دوچار ہوئی ۔اللہ مالک الملک ہے جس کو چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت سے دوچار کرے۔ سار ے اختیارت اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کے فیصلے فوجی طاقت اور بنیادی انسانی اخلاقیات کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔
تاریخ کا تجزیہ یہ بتلاتا ہے کہ عروج و زوال کے معاملے میں مسلمانوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون مختلف ہے ۔ان کا عروج و زوال اس بات سے وابستہ ہے کہ مسلمان قرآنی ہدایت کے ساتھ کیامعاملہ کرتے ہیں۔ ماضی میں مسلمانوں نے قرآن کے ذریعے کمزوری سے قوت و شوکت کا سفر طے کیا ۔اور قرآن کی تعلیمات کو فراموش کرنے کے نتیجے میں عروج سے بدترین زوال کا سفر بھی طے کیا۔جب تک مسلمان قرآن کے ذریعے فکری میدان میں دنیا کی رہنمائی کرتے رہے تو ان کو سیاسی میدان میں بھی برتری حاصل رہی۔اور جب انہوں نے قرآن کی تعلیمات کو فراموش کرکے قرآن کی روشنی سے دنیا کو منور کرنا چھوڑ دیا تو دنیا سے ان کی امامت و قیادت بھی چھین لی گئی اور سیاسی طاقت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔حدیث شریف میں ہے: خبردار! بے شک اللہ تعالیٰ اقوام کو اس کتاب کے ذریعے اٹھاتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے گراتا ہے۔(مسند أحمد)
اس تاریخی پس منطر کو سامنے رکھتے ہوئے ہم جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کیا وجہ ہے کہ بھارت میں حالات مسلمانوں پر سخت ہوتے جارہے ہیں اور اللہ کی مدد نہیں آرہی ہے؟کیایہ حالات آزمائش ہیں یا یہ عذابِ الہی ہے؟ جب اہلِ ایمان اللہ کے فرماں بردار ہوں اور ایمان کے تقاضے پورے کررہے ہوں اس وقت جو بھی مصیبت آتی ہے وہ آزمائش کہلاتی ہے۔لیکن جب مسلمانوں کے عقیدے میں بگاڑ ہواور اعمال بدعات اور جاہلانہ رسومات کا مجموعہ بن جائیں تو اس وقت جو بھی مصیبت آتی ہے وہ یا تو تنبیہ ہوتی ہے یا عذاب کے درجے میں ہوتی ہے ۔ مسلم معاشرے کا جب ہم جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہت ہی قلیل تعداد ایسے مسلمانوں کی ہے جو اللہ کی بندگی میں خالص توحید کو اختیار کیے ہوئے ہیں اور جن کے اعمال سنتِ رسول کے مطابق ہیں جو اللہ کی نظر میں اعمالِ صالحات قرار پاتے ہوں ۔
ہم جائزہ لیں کہ وہ کون سے اعمال ہیں جو اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو گویا اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔اللہ تعالیٰ چاہے تو دشمنوں کی تدبیروں کو اکارت کردے اور انہیں ایسے مسائل میں الجھا دے کہ وہ مسلمانوں کا پیچھا چھوڑ دیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ یقیناً ملک کی فرقہ پرست جماعت نے مسلمانوں کے خلاف ظلم کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ظالموں کو ڈھیل ضرور دیتا ہے لیکن ان کو چھوڑتا نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑے ظالم کون ہیں؟ آئیے اس بات کا جائزہ لیں کہ امت کی ذلت و رسوائی کے اصل اسباب کیا ہیں ۔
۱۔ امت مسلمہ کی قرآن سے دوری : ابھی ابھی رمضان المبارک کے بابرکت ایام سے ہم گزرے ہیں جونزول قرآن کا مہینہ ہے۔اس مہینہ میں ہمیں وہ زرین موقع ملتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں،اس کو سنیں اور اس کو سمجھیں لیکن جیسے ہمارے سارے مذہبی فرائض روایتی بن چکے ہیں اسی طرح ہماری قرآن کی تلاوت بھی روایتی انداز میں ہوئی (الا ماشاء اللہ) تراویح میں قرآن زیادہ تر روایتی انداز میں تیز رفتاری سے پڑھا گیا اور مقصد یہ تھا کسی طرح قرآن کی آیات ہمارے کانوں سے ٹکرائیں اور ہمیں ثواب مل جائے ۔قرآن سے روایتی تعلق صرف رمضان میں قائم ہوتا ہے اور بعد رمضان قرآن کو طاقِ نسیان میں رکھ دیا جاتا ہے۔قرآن کو نہ سمجھنا امت کے تمام مسائل کا اصل سبب ہے۔قرآن اللہ کا ایک زندہ و تابندہ کلام ہے ۔اس کو سمجھ کر پڑھیں گے تو روایتی ایمان حقیقی ایمان میں تبدیل ہوگا اور ایمان بڑھتا چلاجائے گا۔ اس لیے کہ قرآن میں ایمانیات کو ثابت کرنے کے لیےبے شمار دلائل دیے گئے ہیں ۔قرآن سمجھ کر پڑھیں گے تو شرک کے گناہ عظیم ہونے کی آیات ہمیں جھنجھوڑیں گی اور شرک کے ہر شائبہ سے ہم بچنے کی کوشش کریں گے۔قرآن سمجھ کر پڑھیں گے تو انسان کا مقصدِ زندگی معلوم ہوگا۔امت مسلمہ کی اس نازک ذمہ داری کا احساس ہوگا۔ قرآن کے وہ اصول معلوم ہوں گے جس سے ایک قوم ،داعی امت بن کر دنیا میں مقام امامت حاصل کرتی ہے۔
ابوشریح خزاعی سے مروی ہے كہتے ہیں كہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے اور فرمایا: خوش ہوجاؤ، خوش ہوجاؤ، كیا تم گواہی نہیں دیتے كہ اللہ كے علاوہ كوئی معبود ِ برحق نہیں اور میں اللہ كا رسول ہوں؟ انہوں نے كہا: ہاں، آپ نے فرمایا: یقیناً یہ قرآن ایك ذریعہ (رسی، سیڑھی) ہے جس كا ایك سرا اللہ كے ہاتھ میں اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اسے مضبوطی سے پكڑ لو كیونكہ اس كے بعد تم كبھی بھی گمراہ اور ہلاک نہیں ہو گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن کو مضبوطی سے پکڑنے یعنی اس کو سمجھ کر پڑھ کر اس کو عملاً اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے تو ہم نہ گمراہ ہوں گے اور نہ دوسری اقوام کے ہاتھوں ہلاک ہوں گے۔قرآن کے ذریعے ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوگا۔جو اللہ سےجڑ جائے اس کو کون ذلیل کرسکتا ہے اور کون ہلاک کر سکتا ہے۔ فرد ہو یا قوم اس کی قسمت کا فیصلہ قرآن سے اس کے سلوک کی بنیاد پر ہوگا۔
۲۔مشرکانہ عقائد: قرآن کو سمجھ کر نہ پڑھنے کا سب سے بھیانک نتیجہ ہے مسلم قوم میں عقائد کا بگاڑ ۔سب سے زیادہ جو چیز اللہ کو ناراض کرنے والی ہے وہ ہے عقیدۂ توحید میں شرک کی آمیزش۔ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا ظلم شرک ہے۔ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ تشویشناک بات یہ ہے کہ آج مسلمانوں کی خاصی تعداد شرک میں مبتلا ہے۔اللہ کا ارشاد ہے :الَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُواْ إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُوْلَـئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ (الانعام:82)
حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا
اس آیت میں ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ کرنا دراصل ایمان کو شرک سے آلودہ کرنا ہے۔یہاں یہ بتلایا جارہاہے مسلم قوم شرک کرتے ہوئے امن سے رہ نہیں سکتی ۔امن کے وہی حق دار ہیں جنہوں نے اپنے عقیدہ توحید کو شرک کی گندگی سے آلودہ نہیں کیا۔شرک اللہ کی نظر میں ظلمِ عظیم ہے لیکن قرآن جیسی کتاب کے حامل ہوکر شرک کرنا اللہ کے غضب کواور بڑھادیتا ہے۔دنیا کی دوسری اقوم کے پاس اللہ تعالیٰ کا ایسا ہدایت نامہ نہیں ہے جو خالص اور محفوظ حالت میں موجود ہو۔اگر وہ شرک کرتے ہوں تو اس کی ایک وجہ کتابِ ہدایت سے محرومی ہے۔لیکن امت مسلمہ جس کے پاس قرآن کی صورت میں اللہ کی طرف سے آخری ہدایت نامہ محفوظ حالت میں موجود ہو اور جس کی یہ ذمہ داری ہوکہ وہ توحید کی علمبردار بن کر دنیا سے شرک کو مٹانے کی سعی و جہد کرے اگر وہ خود مشرکانہ افعال کرتے ہوئے شرک کا نمونہ پیش کرے تو یہ دنیا میں سب سے زیادہ اللہ کو غضب دلانے والا فعل ہے جس کی آج امت کو سزا مل رہی ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ امت احساس ندامت سے محروم ہوکر دھڑلے سے مشرکانہ عقائد پر گامزن ہے۔
۳۔امت مسلمہ کی رسوائی کی تیسری وجہ ہے اپنے مقصد وجود سے بے خبری ۔یہ بے خبری اور غفلت بھی قرآن کو سمجھ کر نہ پڑھنے سے پیدا ہوئی ہے جبکہ قرآن واضح انداز میں امّت کے مقصد وجود کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے پیش کرتا ہے:وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (البقرہ 143) اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللہ (آل عمران 110) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
ان دونوں آیات میں امت مسلمہ کو وہ فرضِ منصبی بتلایا گیا کہ ان کو ساری انسانیت کے لیے نکالا گیا ہے کہ وہ اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچائیں اور نیکی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں ۔امت مسلمہ کو جس مقصد کے لیے دنیا میں رکھا گیا ہے اگر اس کے افراد اس مقصد کے شعور کو کھو دیں اور دوسری اقوام کی طرح ایک قوم بن کر اپنے حقوق کی تگ ودو میں لگے رہیں تو اللہ بھی ان کو فراموش کرکے ان کو دشمنوں کے حوالے کردے گا اور ان کو لعنت زدہ بنادے گا۔ الا یہ کہ وہ اپنی روش کو بدلیں اور دین حق کو اقوام عالم کے سامنے پa
۴۔ امت مسلمہ کا اپنے رسول کے اسوۂ حسنہ کو فراموش کرنا:امت کے زوال کا چوتھا سبب ہے اعمال میں سنت رسول کے بجائے بدعات و خرافات کو اختیار کرنا۔رسول اللہ ﷺ کی سب سے بڑی سنت ہے دعوت الی اللہ ہے جس کا امت کو ادراک و شعور بھی نہیں ہے۔ عام زندگی کے معمولات میں رسول اللہ ﷺ کے طریق زندگی کے بجائے ہم نے مشرک قوموں سے ان کے رسوم و رواج کو اختیار کرلیا ہے۔ہمارے معاشرہ میں نکاح مشکل ہوتا جارہا ہے اس لیے کہ ہم نے ہندوؤں کے طرز پر شادیوں میں اسراف کو اختیار کرلیا ہے۔ آج مسلمانوں کی معیشت ان رسوم کی وجہ سے تباہی کا شکار ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ۔۔فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور63)
رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔
مفسریں لکھتے ہیں کہ فتنہ سے مراد ظالم بادشاہ کا مسلط کیا جانا ہےاور عذاب سے مراد قتل عام بھی ہوسکتا ہے۔حدیث میں سنت رسول کی اتباع کی اس طرح تاکید کی گئی ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں پس جب تک تم ان دونوں پر عمل کرتے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت‘‘۔
۵۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی کی ایک اہم وجہ ہے اتحاد کا فقدان ۔ امت میں افتراق و انتشار کی اہم وجہ ہے امت کا اپنے مقصدِ وجود سے غافل ہونا اور اس کو فراموش کردینا۔ جب امت ایک مقصدِ وحید پر جمع نہ ہو تو فروعی اختلافات اہمیت اختیا ر کرلیے جاتے ہیں۔آج مدارس میں بچوں کو اس مقصد کے لیے تیار نہیں کیا جاتا جس مقصدِ بعثت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو مبعوث کیا گیاتھا جن مدارس میں علماء تیار کیے جاتے ہیں جو انبیاء کے وارث کہلاتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا ان کو سننِ انبیاء پر عمل آوری کے تیار کیا جاتا ہے۔انبیاء کی ایک ہی مشترکہ سنت رہی ہے اور وہ ہے دعوت الی اللہ ۔اگر مدارس میں طلباء کو فقہی اختلافات کاماہر بنانے کے بجائے دعوت الی اللہ کی تربیت دی جاتی تو آج ملک کی شکل مختلف ہوتی۔ مدارس سے فراغت کے بعد ساری زندگی ان علماء کے اعصاب پر فقہی اختلافات ہی حاوی رہتے ہیں جو امت میں افتراق کاباعث بن رہے ہیں۔
۶۔ حب الدنیا۔ قرآن کو سمجھ کر نہ پڑھنے سے دلوں میں حب آخرت کے بجائے حب دنیا پیدا ہو رہی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے ایمان کا بھی سودا کرلیتے ہیں۔دنیاوی مفادات پر آخرت کو قربان کردیتےہیں ۔دنیا کی محبت موت کا ڈر پیدا کرتی ہے جس سے سچائی کی خاطر جان و مال کی قربانی کا جذبہ پیدانہیں ہوتا ۔
۷۔ کفرانِ نعمت: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَضَرَبَ اللّهُ مَثَلاً قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّهِ فَأَذَاقَهَا اللّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُواْ يَصْنَعُونَ (النحل112)
اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا تب اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔
امن اور رزق دونوں بہت اہم نعمتیں ہیں۔اگر رزق میسر ہو اور امن نہ ہو تو ڈر وخوف کے ساتھ زندگی بسر ہوگی اور امن میسر ہو لیکن رزق میں تنگی ہو تو بھی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ کفرانِ نعمت کی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امن بھی چھین لیتا ہے اور رزق میں بھی تنگی پیدا ہوجاتی ہے۔شکر گزاری دل سے ہو، زبان سے بھی ہو اور عمل سے بھی۔عمل سے شکر گزاری یہ ہےکہ ہم اللہ کی بندگی کریں اور اس مقصد کو پورا کریں جس کے لیے ہم کو دنیا میں بحیثیت ِ امت بھیجا گیا ہے۔ مسلمانوں کو جب امن اور رزق میں فراوانی دونوں میسر تھے تو اس وقت انہوں نے
اسلام کی دعوت کو انسانوں کے سامنے پیش نہیں کیا اور عملاً کفران نعمت کیا جس کے نتیجے میں آج ان سے امن کی نعمت چھین لی جارہی ہے اور رزق کے دروازے بھی ان پر تنگ کیے جا رہے ہیں۔ لیکن اب بھی ہم اگر شکرگزاری کا رویہ اختیار کریں اور اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالی خوف کو امن سے اور تنگی کو فراخی سے بدلے گا۔
مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔
جواب دیں