بھارت کا اگلا وزیراعظم کون؟

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

2019میں بھارت کا اقتدار کس کو ملے گا؟کون اگلے پانچ سال کے لئے ملک کی کشتی کا کھیون ہار بنے گا؟ ملک کے تقریباً ایک ارب ووٹرکس شخص یا پارٹی کو حکومت کی باگ ڈور سونپنیں گے؟ان سوالوں کے جواب اب تک واضح نہیں ہوپائے ہیں لیکن ٹی وی چینلوں کے کئی حالیہ سروے دعویٰ کرتے ہیں کہ بی جے پی کا اقتدار ختم ہونے کے پورے امکانات ہیں اور لوک سبھا میں اس کی سیٹوں میں بڑے پیمانے پر کمی آئے گی۔اسی کے ساتھ ملک بھر میں یہ سوال بھی پوچھے جارہے ہیں کہ ا گر نریندر مودی ملک کے اگلے وزیراعظم نہیں ہونگے تو پھر کون اس کرسی پر بیٹھے گا؟ کیا نہرو خاندان کے چشم وچراغ راہل گاندھی، اگلے وزیراعظم ہونگے؟کیا کانگریس راہل گاندھی کے بجائے پرینکا گاندھی کو اس کرسی کے لئے آگے کر دے گی یا پھر منموہن سنگھ جیسے کسی ایسے شخص کو اکسیڈینٹل پرائم منسٹر بنادیا جائے گا جس کی جانب کسی کا دھیان ہی نہیں گیاہے؟ حالانکہ دوسری طرف بی ایس پی چیف مایاوتی جن کے پاس فی الحال ایک لوک سبھا سیٹ بھی نہیں ہے، پہلی دلت وزیراعظم بننے کے لئے ابھی سے بے قرار نظر آرہی ہیں۔ ویسے آئندہ لوک سبھا الیکشن میں جس قدر سیٹیں بی ایس پی کو مل سکتی ہیں، اس سے زیادہ سماج وادی پارٹی کے حصے میں آسکتی ہیں اور ایسی صورت میں مایاوتی سے زیادہ اکھلیش یادو کو یہ خواب دیکھنے کا حق ہوگا۔ ویسے اس سے کم سیٹیں لالو پرساد یادو کی پارٹی آر جے ڈی کو بھی نہیں ملیں گی جو بہار کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور لگ بھگ اتنی ہی سیٹیں شردپوار کی این سی پی کے حصے میں بھی آسکتی ہیں، جس کے اثرات مہاراشٹر میں ہیں۔ حالانکہ ان تمام پارٹیوں سے بڑی پارٹی ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس ہوسکتی ہے جو مغربی بنگال میں اپوزیشن کو ختم کرچکی ہے اور ریاست کی 42سیٹوں پر مضبوط دعویٰ رکھتی ہے۔ ان حالات میں یقینی طور پر وزیراعظم کا نام ابھی سے فائنل نہیں ہوسکتا۔ البتہ ایک بات طے لگتی ہے کہ عام انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر بی جے پی اور کانگریس ابھر سکتی ہیں۔ ممکن ہے بی جے پی گھٹ کر ڈیڑھ سو سیٹوں کے آس پاس آجائے اور کانگریس بڑھ کر اسی کے اردگرد چلی جائے۔
مایاوتی کا خواب اورسیاسی حساب
جیسے جیسے لوک سبھا انتخابات قریب آرہے ہیں اگلے وزیراعظم کی کرسی پر بحث تیز ہوتی جارہی ہے۔ حکمراں بی جے پی کے پاس موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کا نام ہے تو اپوزیشن کے ممکنہ اتحاد یا مہاگٹھبندھن بننے سے پہلے طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔اس بیچ بی ایس پی کے لوگوں نے بھی مایاوتی کو اگلا وزیر اعظم بنوانے کے لئے کوشش شروع کردی ہے۔جہاں ایک طرف مایاوتی کو لگتا ہے کہ وہ ملک کی پہلی دلت وزیراعظم بن سکتی ہیں، وہیں دوسری طرف 48 سیٹوں والے مہاراشٹر، 42 سیٹوں والے مغربی بنگال، 40 سیٹوں والے بہار اور 39 سیٹوں والے تمل ناڈو کی علاقائی جماعتیں بھی اس عہدے پر دعویٰ ٹھونک سکتی ہیں۔بی ایس پی چیف نے 2009کے لوک سبھا انتخابات میں،بھی وزیر اعظم بنانے کا نعرہ دیا تھا تب وہ اتر پردیش کی وزیر اعلی تھیں۔ مایاوتی کو تب بھی امید تھی کی کہ سہ جہاتی پارلیمنٹ کی صورت میں انہیں وزیر اعظم بننے کا موقع ملے گا لیکن کانگریس نے دوبارہ حکومت تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی اور مایاوتی کو موقع نہیں مل سکا۔اب 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے وہ یہی خواب دوبارہ دیکھ رہی ہیں۔
زبان خلقِ ، نقارۂ خدا 
ملک کا اگلاوزیراعظم کون ہوگا؟ اس سوال پر ماہرین سے لے کر عوام تک کوئی حتمی جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ہم نے سوال رکھا تو صحافی محمد شارب ضیاء رحمانی کا کہنا تھا کہ مودی اگلے وزیراعظم نہیں ہونگے، یہ طے ہے۔ان کا مزیدکہنا بی جے پی سرکاربن بھی گئی توکمزور بی جے پی کو مودی کے نام پر اتحادی جماعتیں حمایت نہیں دیں گی۔ رحمانی کے مطابق امکان ہے کہ کانگریس کی سرکار بنے لیکن یہ بھی کمزور ہوگی اورعلاقائی پارٹیوں کااہم رول ہوگا۔ترنمول کانگریس، ٹی ڈی پی ،این سی پی، ڈی ایم کے، ایس پی، بی ایس پی کنگ میکر ہوں گی۔ ہاں، ممتابنرجی شاید دیوگوڑا، شردپوار، مایاوتی اورراہل گاندھی کے نام پر تیار نہ ہوں۔ ملک کی اقتصادی حالت کودیکھتے ہوئے منموہن سنگھ جیسے کسی ماہراقتصادیات کولایاجاسکتاہے یاپھر کانگریس کے کسی دلت چہرے کوسامنے لایاجائے گا۔اس صورت میں میرا کمار کا امکان زیادہ ہے جن کے نام کی مایاوتی وغیرہ مخالفت بھی نہیں کرپائیں گی۔ نوجوان صحافی شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی(مدھوبنی ،بہار) کا خیال ہے کہ ملک کا اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟ اس سوال کا جواب فی الحال مشکل ہے مگر ملک کے حالات اور عوامی رجحان کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ ملک کے اگلے وزیراعظم راہل گاندھی ہوں گے۔اس کی بنیادی اور اہم وجہ یہ ہے کہ ملک کے سیکولر طبقہ کے لوگوں کا ان کی جانب رجحان نظر آرہا ہے۔ان کے مطابق عام انتخابات میں کس پارٹی کی جیت ہوگی ؟یہ سمجھ پانا بہت مشکل ہے البتہ یہ طے ہے کہ بی جے پی مخالف پارٹیوں کو جیت حاصل ہوگی اور یہ پارٹیاں مل جل کر سرکار بنانے میں کامیاب ہوں گی۔جب کہ ریٹائرڈ ٹیچرایچ آر معین کا ماننا ہے کہ ملک کے اگلے ممکنہ وزیراعظم کا فی الحال نام بتاپانا مشکل ہے۔حالانکہ وہ مزید کہتے ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں لیکن بی جے پی کو اکثریت حاصل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔دوسری بات یہ کہ اگر بھاجپا سب سے بڑی پارٹی بن بھی گئی توبھی نریندرمودی کے وزیر اعظم بننے پر اتفاق رائے کے آثار نہیں۔اب ان دونوں صورتوں کے علاوہ تیسری حالت میں راہل گاندھی کا نمبر دکھائی دیتی ہے لیکن اگر کانگریس کے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد بہت کم ہوئی تو ایسی صورت میں ملائم سنگھ، نتیش کماروغیرہ کے نام پر غور کیا جاسکتاہے۔ادھر دہلی کی سماجی تنظیم سوشل پرائڈ ویلفیئرسوسائٹی کے صدر ڈاکٹر کمال احمد کہتے ہیں کہ ہینگ پارلیمنٹ کا پورا پورا امکان ہے اورموجودہ لیڈروں میں سے شاید کوئی بھی وزیراعظم نہ بن سکے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ منموہن سنگھ جیسے کسی غیرسیاسی شخص کے اکسیڈینٹل وزیراعظم بننے کے امکانات زیادہ ہیں۔ وہ ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو رام راجن بھی ہوسکتے ہیں۔ 
دریا کے دو کناروں کا ملاپ
مارچ کے پہلے ہفتے میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوسکتا ہے مگر ابھی سے تقریبا تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کے امکانات بھی ڈھونڈرہی ہیں۔اگرچہ مشرق ومغرب کا ملن نہیں ہوسکتا ، ساؤتھ پول اور نارتھ پول ایک دوسرے کے قریب نہیںآسکتے، دریا کے دو کنارے آپس میں نہیں مل سکتے مگر ایک دوسرے کے خلاف لڑنے والی پارٹیاں، الیکشن کے پیش نظر اتحاد قائم کرنے کے امکان کو نظرانداز نہیں کرنا چاہتیں۔ 2014میں بی جے پی کی جیت کا ایک بڑا سبب دوسری پارٹیوں کا الگ الگ الیکشن لڑنا بھی تھا۔ اس بار یہ پارٹیاں ایسا موقع نہیں دینا چاہتی ہیں۔اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ایک دوسرے کی ازلی دشمن تھیں مگر اب انھوں نے دوستی کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی اور کانگریس ایک دوسرے کے خلاف لڑتی رہی ہیں مگر اب اندرون خانہ اتحاد کی بات کر رہی ہیں۔ آندھرا کی تیلگو دیشم پارٹی اور بہار کی آرایل ایس پی ،ابھی کل تک این ڈی اے کا حصہ تھیں اور مرکزکے اقتدار میں حصہ دار تھیں مگر اب انھوں نے یوپی اے کا ساتھ پکڑ لیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے اتحاد،اقتدار کی جنگ کو دلچسپ بنانے کے ساتھ ساتھ سیاست کے جغرافیے کو بھی الگ رنگ وآہنگ دیتے ہیں۔یہ اتحاد الیکشن سے پہلے ہی نہیں بلکہ الیکشن کے بعد بھی یہ طے کریں گے کہ ملک کا مستقبل کس کے ہاتھ میں ہوگا؟کس کی سرکار بنے گی اور کونسی پارٹی اقتدار سے باہر ہوگی؟ حالانکہ یہ اتحاد،حتمی نہیں ہیں۔ الیکشن کے بعد نئے سیاسی مورچوں کے بننے کے امکانات برقرار ہیں۔ 
کل کے دشمن، آج کے دوست 
الیکشن کے پیش نظر جو ناممکنات، ممکن ہوتے دکھائی پڑ رہے ہیں انھیں میں سے ایک عام آدمی پارٹی اور کانگریس کا ملاپ بھی ہے جو کل تک ناممکن تھا مگر اب ممکن بنتا نظر آرہا ہے۔ جس کانگریس کے خلاف جنگ لڑکر عام آدمی پارٹی اقتدار میں آئی تھی، آج اسی کے ساتھ وہ ہاتھ ملانے پر مجبور ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا ملاپ، ہندوستان کی سیاست میں پہلی بار نہیں دیکھنے میں آرہا ہے، اس سے پہلے سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ہاتھ ملاچکی ہیں۔ بہار میں لالو اور نتیش کا ملاپ ہوچکا ہے اور ٹوٹ بھی چکا ہے۔ اب عام آدمی پارٹی اور کانگریس آئندہ لوک سبھا الیکشن کے لئے اتحاد قائم کرنے جارہی ہیں۔ دونوں پارٹیوں کو احساس ہوگیا ہے کہ اگر وہ الگ الگ الیکشن لڑینگی تو اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا اور دونوں ہی کو دہلی، ہریانہ وپنجاب میں ہار کا منہ دیکھنا پڑسکتا ہے، ایسے میں اپنے وجود کو بچانے کے لئے اتحاد ہی واحد راستہ نظر آرہا ہے۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے بیچ جو اتحاد دہلی، پنجاب اور ہریانہ میں قائم ہورہا ہے،وہ اترپردیش تک بھی پھیل سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے اتحاد قائم کرلیا ہے اور اس میں کانگریس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایسے میں کانگریس کے لئے اب واحد راستہ بچا ہے کہ وہ دوسری کچھ چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد قائم کرے جس میں عام آدمی پارٹی بھی شامل ہے

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:28؍جنوری2019(ادارہ فکروخبر)

«
»

سیاسی دنگل میں کیسے ہوگا مسلمانوں کا منگل؟

مولانا واضح رشید اعلیٰ اللہ مقامہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے