ایسے میں دفاع کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے شعبوں میں بھی دونوں ممالک کے آگے بڑھنے کے امکانات ہیں۔ بھارت میں بسنے والے یہودیوں کو لگتا ہے کہ اسرائیل سے دوستی بھارت کے مفاد میں ہے۔کوچین کے ۵۹سالہ الیاس جوسیف کہتے ہیں کہ صدر کا دورہ ہند گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اسرائیل ہمارے ملک کے لئے بہترین تعلقاتی ثابت ہوسکتا ہے۔غور طلب ہے کہ کوچین بھارت میں یہودیوں کی سب سے پرانی بستی ہے اور یہاں وہ ہزاروں سال سے رہتے آئے ہیں مگر اب یہاں ان کی تعدادصرف 9بچی ہے، جن میں سے الیاس جوسیف ایک ہیں اور یہاں کے تاریخی سینیگاگ میں رہتے ہیں۔حالانکہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ فی الحال بھارت میں صرف چار سے پانچ ہزار کے بیچ یہودی ہیں اور ان میں سے بھی بیشتر ممبئی میں آباد ہیں۔ کم تعداد ہونے کے سبب سرکار بھی ان کے حقوق کی جانب توجہ نہیں دیتی اور انھیں اقلیتی درجہ نہیں ملا ہے۔ ان کے سینیگاگ کوچین، ممبئی کے علاوہ کلکتہ میں بھی ہیں اور یہ تینوں شہرپرانے زمانے سے یہودیوں کی جائے قیام رہے ہیں۔فی الحال یہودیوں کے صرف دس خاندان دلی میں ہیں مگر پہلے یہاں وہ خاصی تعداد میں تھے اور یہاں سینیگاگ کے علاوہ ہمایوں روڈ پر ان کا قبرستان بھی ہے۔ وہ مسلمانوں کے عہد حکومت کے دوران بھارت میں چین وسکون کے ساتھ رہتے تھے مگر ملک آزاد ہونے کے بعد ان میں سے کچھ اسرائیل چلے گئے اور بیشتر یوروپی ممالک کی طرف ہجرت کر گئے۔ تاہم آج بھی راجدھانی دلی کے پہاڑ گنج علاقے ، ہماچل پردیش کے کلو ،منالی اور گوا میں یہودی دیکھے جاتے ہیں مگر یہ تمام وہ سیاح ہوتے ہیں جو بھارت کی سیاحت کے لئے آتے ہیں۔یہاں کے ہوٹل صنعت پر ان کا آج بھی اثر ہے۔
بھارت میں یہودیوں کی تاریخ
بھارت میں آنے والے غیر ملکیوں میں سے بیشتر ابتدا میں تاجر کے طور پر یہاں آئے تھے اور ایسے ہی یہودیوں کی آمد بھی ہوئی۔
وہ عیسائیوں اور مسلمانوں سے سینکڑوں سال قبل کیرل میں آئے ۔ روایتوں کے مطابق آج سے لگ بھگ 2985 سال قبل یعنی 973 قبل مسیح میں یہودیوں نے کیرالہ کے مالابارساحل پر قدم رکھا تھا۔اندازہ ہے کہ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا زمانہ تھا۔حضرت سلیمان کا تاجر بیڑا مصالحے اور خزانے کے لئے یہاںآیاتھا۔ایک مہمان نوازہندو راجہ نے یہودی لیڈر جوزف رببن کو جاگیر فراہم کی اور ان کا ایک طبقہ یہیں بس گیا۔اس کے بعدیہودی کشمیر اور شمال مشرقی ریاست میں بھی آباد ہوئے تھے۔حالانکہ عیسائی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی کشمیر آئے تھے اور اس سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ یہاں پہلے سے کچھ یہودی رہے ہونگے جس کے سبب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہاں آمد ہوئی ہو۔کیرل میں بعد کے دور میں بھی یہودیوں کی آمد ہوتی رہی اور یہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔یہ بھی روایت ہے کہ ہیکل سلیمانی کی تباہی کے بعد یہاں یہودیوں کی آمد ہوئی تھی۔ شاید یہ یہودیوں کا دوسرا قافلہ تھا۔ایک روایت ہے کہ پانچویں صدی میں جب یہودیوں کوفرانس سے نکالا گیا تو وہ یہاں آئے اور بس گئے۔یہان کے راجہ کی ان کی طرف خاص نظر رہی یہاں تک کہ راجہ کی فوج میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہے۔یہودیوں کی تحریروں میں اس علاقے کو شرگلی کا نام دیا گیا ہے۔تاریخی روایت یہ بھی ہے کہ 1661 میں یہاں ڈچ آئے اور ان کی آمد سے یہودیوں کوراحت ملی۔ ڈچوں کی انہوں نے جم کر حمایت کی اور ڈچوں نے بھی ان کی سرپرستی کی۔ ویسے بھی اگلے قریب 134 سالوں تک یہاں ڈچوں کی طوطی بولی۔ یہودیوں کی اندرخوشحالی آگئی۔ آج موجود سناگوگ 1568 میں بنا تھابعد میں اس کی ساخت کو درست کروایا گیا۔ 1664 میں اس کی تعمیر نو ہوئی۔ کینٹن (چین) سے خوبصورت ٹائلیں لائی گئیں۔اٹلی سے جھاڑفانوس آئے۔ 1805 میں ٹراونکور کے مہاراجہ نے اس سناگوگ کو سونے کا ایک تاج عطا کیا۔بعد کے دور میں انگریز، یہودیوں پر مہربان ہی رہے۔ لارڈ کرزن اپنے وائسرائے دور میں 19 نومبر، 1900 کو یہودیوں کا حال پوچھنے آئے اور تاریخی سینیگاگ کو بھی دیکھا۔
بھارت میں یہودیوں کی سب سے پرانی بستی
کوچین، بھارت میں یہودیوں کی سب سے پرانی قیام گاہ ہے۔ جس بستی میں یہودیون کی آبادی تھی اسے جیوس اسٹریٹ کہاجاتا ہے مگر آج یہاں یہودی نہیں بچے ہیں بس اسٹریٹ ہی بچی ہے۔ آج یہاں صرف 9یہودی بچے ہیں جن میں بیشتر بزرگ ہیں اور اسرائیل نہیں لوٹ پائے ہیں۔ گلیوں سے گزرتے سیاحوں کو یہ بزرگ اپنے موٹے چشموں کے پیچھے سے دیکھتے رہتے ہیں۔سنیگاگ اب ایک سیاحت کامرکز ہے۔انھیں لوگوں میں الیاس جوسیف بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل چلے گئے تھے مگر ان کی دادی نے واپس بلا لیا تھا۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ وہ یہاں چین وسکون کے ساتھ رہتے آئے ہیں اور ان کے بیشتر دوست مسلمان ہیں جو بے حد پیار ومحبت کا برتاؤ کرتے ہیں۔
ممبئی میں یہودی
سمندر کے کنارے ہونے کی وجہ سے ممبئی میں جتنے غیر ملکی فرقے آکر رہے اتنے شاید پورے ہندوستان میں کہیں نہیں آئے ہوں گے۔پارسی، پرتگالی، جرمن لوگوں کے ساتھ ساتھ ممبئی میں اسرائیل سے آیا یہودی کمیونٹی بھی رہتا ہے۔لیکن زندگی بھر اسرائیل میں آخریسانس لینے کا خواب دیکھنے والے ممبئی کے یہودی کمیونٹی کے بہت سے لوگ کبھی بھی واپس اپنے وطن نہیں لوٹ پاتے اور یہیں آخری سانس لیتے ہیں اور یہودی مذہب کے مطابق جب انہیں دفن کیا جاتا ہے تو ان کی قبر پر روایتی عبرانی زبان میں پیغام لکھا جاتا ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ عبرانی میں پیغام لکھنے کا کام اتر پردیش کے جون پور کا ایک شخص کرتا ہے۔یہودیوں کے آخری سفر میں ان کی قبروں پر زندگی کا آخری پیغام لکھنے والے یاسین محمد دہائیوں سے یہودیوں کی قبروں پر عبرانی میں عبارت لکھ رہے ہیں۔یہ کام کرتے ہوئے انھیں چالیس سال سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ممبئی کے ورلی علاقے میں موجود یہودی قبرستان میں کام کرنے والے یاسین بتاتے ہیں،کہ مجھے آج تک نہیں لگا کہ ہمارے مذہبی اختلافات ہیں۔ ان لوگوں نے مجھے بہت پیار دیا اور اپنی زبان بھی سکھائی۔
ممبئی کے یہودی کمیونٹی کے لوگوں کاکہنا ہے کہ بھارت میں ان کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے۔ پہلے ان کی تعداد کچھ زیادہ تھی لیکن اب ملک بھر میں صرف چار، پانچ ہزار یہودی ہی بچے ہیں۔ ان میں سے کچھ میں اسرائیل لوٹنے کی خواہش تو ہے لیکن یہاں بھی وہ ایک سکون بھری زندگی گذار رہے ہیں۔یہودی ثقافت کے استاد شارون میر کا کہنا ہے کہ ہم یہاں خوش ہیں اور بہتر زندگی جی رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آخری سانس اسرائیل میں لیں، کیونکہ یہ ہمارے مذہب میں لکھا ہے لیکن ہر انسان تو وہاں نہیں جا سکتا۔
ممبئی میں کیسے آئے یہودی؟
ممبئی میں یہودی کیسے آئے اس بارے میں مشہور ہے کہ یہاں سمندر میں کوئی جہاز ڈوب رہا تھا جسے ملاحوں نے کسی طرح بچا لیا اور خشکی پر لائے۔ اس جہاز میں یہودی سوار تھے اور جان بچنے کے بعد وہ یہیں رہنے لگے۔یہ لوگ مذہبی خیالات رکھتے تھے اور’’ سبت‘‘ یعنی سنیچر کے دن کے احترام کا خاص خیال رکھتے تھے جو،ان کے مذہب میں لازمی تھا۔یہ بنیادی طور پر تیل کا دھندہ کرتے تھے، اس لئے مقامی لوگ انہیں سنواڑ تیلی کہہ کر پکارنے لگے۔اس طرح یہودی مہاراشٹر میں رہنے سہنے لگے۔وہ مقامی رسم ورواج میں اس طرح رچے بسے کہ اپنے مذہب کی بنیادی باتیں تک بھول گئے۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں ایک یہودی ڈیوڈ یہاں آیا۔ اس نے انہیں بھولے بسرے مذہبی قواعدانھیں یاد دلائے اور یہاں تین چیلے بھی تیار کئے۔انگریزوں کے دور میں بھی ممبئی میں یہودیوں کی آمد ہوتی رہی اور وہ یہاں بستے رہے۔بنی اسرائیل اور ڈچ یہودیوں کے علاوہ بغدادی اور یورپی یہودی بھی ہمارے ملک میں آکر آبادہوئے۔ تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے شام، عراق، ایران اور افغانستان سے بغدادی یہودی بھارت آئے۔ 1833 میں ڈیوڈ سسون صنعت کار خاندان کا ممبئی میں چرچا تھا۔ 1853میں انھوں نے یہاں سینیگاگ بھی بنوائے تھے۔آج ممبئی میں چار سناگوگ ہیں۔اس خاندان نے پونا میں بھی سناگوگ بنوایاتھااسی طرح کلکتہ کے ایجرا اور کوہین یہودیوں نے بھی نام کمایا۔ ملک کی آزادی کے وقت ۱۹۴۷ء میں یہاں لگ بھگ بیس ہزار یہودی تھے مگر آزادی ملنے کے سال بھر بعد ہی یہودیوں کا اپنا ملک اسرائیل بنا اور آہستہ آہستہ یہ لوگ اپنے بزرگوں کی زمین کی طرف واپس لوٹنے لگے۔
کلکتہ کے یہودی
کلکتہ بھی ان شہروں میں شامل ہے جہاں یہودیوں نے اپنا ٹھکانہ بنایا تھا۔ یہاں آج بھی جیوش گرلس اسکول چل رہا ہے مگر بغیریہودی طلبہ کے۔ یہاں آج بھی سینگاگ اسٹریٹ ہے اور یہاں یہودی عبادت خانہ بھی موجود ہے مگر دروازے پر تالہ لٹکتا رہتا ہے۔ یہاں آج بھی نارکلڈانگہ علاقے میں یہودیوں کا قبرستان ہے اور ازرا ہاسپیٹل، ازرامینشن ان کی یاد دلاتا ہے۔ یہاں آج بھی تاریخی نیو مارکیٹ میں نہوم اینڈ سنس کانفکشنری ہے مگر شہر میں ڈھوندنے پر مشکل سے کوئی یہودی ملتا ہے۔ کیونکہ ان میں بیشتر انگلینڈ،کناڈا، آسٹریلیا اور یوروپی ممالک کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ حالانکہ یہاں ان کی دو سو سال کی تاریخ رہی ہے اور یہاں کے سماج پر ان کے اثرات رہے ہیں۔ کلکتہ کے یہودیوں میں بیشتر بغدادی یہودی کمیونیٹی کے لوگ تھے۔ (یو این این)
جواب دیں