اسی کے ساتھ سمجھا جارہا ہے کہ جہاں بی جے پی اس وقت بہار الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہے وہیں وشو ہندو پریشد اور اس کے حامی سادھو سنت ۲۰۱۷ میں ہونے والے یوپی اسمبلی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔
رام مندر کی تعمیر کا نعرہ
بی جے پی صدر امت شاہ کہہ رہے ہیں کہ رام مندر کی تعمیر کرانا ہے تو بی جے پی کو ۳۷۰ لوک سبھا سیٹیں دلاؤ تو مودی حکومت کی پہلی سالگرہ کے موقع پر آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد نے بی جے پی کو اجودھیا میں رام مندر بنانے کی یاد دلائی ہے۔ سنگھ پریوار کی دونوں اکائیوں نے بی جے پی کو اس سلسلے میں لوک سبھا انتخابات کے دوران کیا گیا وعدہ پورا کرنے کو کہا ہے۔آر ایس ایس (آر ایس ایس) کے آل انڈیاجوائنٹ کنوینر ارون کمار نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، بی جے پی حکومت کو اپنے وعدے پورا کرنے میں لوگوں کی امیدوں پر کھرا اترنا چاہئے۔ خاص طور پر رام مندر اور آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے معاملے میں، جس کے ذریعے جموں کشمیر کو اسپیشل اسٹیٹس ملا ہے۔ اس درمیان، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بھی حکومت سے اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر میں رکاوٹوں کو دور کرنے کو کہا ہے۔ ہریدوار میں وی ایچ پی کی مرکزی مارگ درشک منڈل کی دو دنوں تک چلنے والی میٹنگ کے پہلے دن پاس کی گئی تجویز میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کو حکومت کے ساتھ اٹھانے کے لئے سنتوں کا ایک وفد بنایا جائے گا، تاکہ رام مندر کی تعمیر سے وابستہ رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ وی ایچ پی کے ترجمان نے بتایا کہ تنظیم کے بین الاقوامی ورکنگ صدر پروین توگڑیا اور صدر راگھو ریڈی اس میٹنگ میں موجود تھے۔ اجلاس میں متھرا اور کاشی میں موجود ہندوؤں کے دو اور مذہبی مقامات پر دعویٰ کر ہندوتو کا ایجنڈا آگے بڑھانے کی بات بھی کہی گئی۔وی ایچ پی کے بیان میں کہا گیا ہے، مرکزی مارگ درشک منڈل نے طے کیا ہے کہ سنتوں کا ایک وفد حکومت ہند کے ساتھ رابطہ کر رام مندر کی تعمیر سے وابستہ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے بات چیت کرے گا۔ وی ایچ پی نے ایودھیا میں متنازعہ مقام پر مندر اور مسجد دونوں بنائے جانے سے متعلق کسی بھی فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہندوؤں کے مذہبی مقامات میں مسلمانوں کی عبادت گاہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بابر کے نام پر عمارت نہیں
جہان ایک طرف وی ایچ پی نے مندر کا راگ الاپنا شروع کیا ہے وہیں دوسری طرف جگدگرو شنکراچاریہ سوامی سوروپانند سرسوتی نے کہا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کو اب بابر کا نام نہیں لینا چاہئے۔ رام جنم بھومی کو بابری مسجد بتانا غلط ہے۔ ہائی کورٹ الہ آباد پہلے ہی فیصلہ
دے چکا ہے کہ جہاں رام للا براجمان ہیں وہ مقام رام کی پیدائش کی جگہ ہے۔ شنکراچاریہ نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ بابر کے سپہ سالار میرباقی کی طرف سے ایودھیا میں مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔اس فیصلے پر اب سپریم کورٹ کی مہر لگنا باقی ہے۔انھوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلمان اب بھی رام جنم بھومی کو بابری مسجد کہہ کر پکار رہے ہیں۔شنکراچاریہ نے کہا کہ ہم مسلمانوں کے مخالف نہیں ہے۔ مذہب کی بنیاد پر ان کے ساتھ ناانصافی بھی نہیں کرنا چاہتے۔حقیقت یہ ہے کہ مغلوں کی حکمرانی میں نہ صرف ہندوؤں پر ظلم ہوئے بلکہ ان کی عبادت گاہیں بھی تباہ کی گئیں۔ اگرچہ آج کے مسلمانوں کی اس کام میں کوئی شراکت نہیں تھی۔ جھگڑا صرف اتنا ہے کہ آج کے مسلمان ہندوؤں پر کئے گئے مظالم کی مخالفت نہیں کرتے۔اجلاس میں موجودسنتوں نے کہا کہ انہیں ایودھیا ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں کہیں بھی بابر کے نام پر مسجد قبول نہیں ہے۔ اجلاس میں رام مندر کو لے کر منظور تجویز میں کہا گیا کہ کیس میں سپریم کورٹ میں روزانہ سماعت ہو۔ اس کے لئے مرکزی حکومت خاص کورٹ کی تشکیل کرے۔اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’رام جنم بھومی ٹرسٹ‘‘کی جانب سے پیش مندر کے فارمیٹ کے مطابق مندر بنے گا۔ ایودھیا میں واقع ورکشاپ میں اس فارمیٹ کے مطابق تقریبا ساٹھ فیصد پتھر تراشنے کا کام مکمل ہو چکا ہے۔
مودی بنے ہنومان
وشو ہندو پریشد اور اس سے منسلک سنت اکثر مرکزی حکومت پر حملہ کرتے رہے ہیں۔ اس بار وشو ہندو پریشد کے فائر برانڈ لیڈر پروین توگڑیا سے لے کر دیگر سنت اس پر خاموش رہے۔وشو ہندو پریشد کے بین الاقوامی جنرل سکریٹری چیت رائے نے تو نریندر مودی کا موازنہ ہنومان سے کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہنومان کو معلوم تھا کب کودنا ہے ویسے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی پتہ ہے کہ کب کیا کرنا ہے۔اس اجلاس میں مودی کو یہ نصیحت بھی دی گئی ہے کہ وہ بابر سے جنگ چھیڑیں اور ملک میں کہیں بھی اس کے نام سے کوئی عمارت نہیں بننے دیں۔ حالانکہ راجدھانی دلی کے کناٹ پلیس سے چند کیلومیٹر فاصلے پر ہی بابر روڈ اور بابر لین ہیں، جہاں بہت سے سرکاری بنگلے ہیں۔ اس کا کیا کیا جائے اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔
مہارانا پرتاپ کو عظیم بنانے کی کوشش میں وزیر داخلہ
ملک میں جہاں ایک طرف تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہورہی ہے وہیں دوسری طرف مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے مہارانا پرتاپ کو عظیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ فروغ انسانی وسائل کے وزیر سے مہارانا پرتاپ کی کہانی کو سی بی ایس سی کے نصاب میں شامل کرنے کی درخواست کریں گے۔وزیر داخلہ نے پرتاپ گڑھ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اکبر کو عظیم کہنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن یہ بات ان کی سمجھ سے باہر ہے کہ مہارانا پرتاپ کو عظیم کہنے میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ مانتا ہوں کہ مہارانا پرتاپ بھی عظیم تھے اوران کا نام لیتے ہی فوری طور پر میواڑ کی سرزمین یاد آ جاتی ہے۔انھوں نے کہا کہ مہارانا پرتاپ کی سوانح عمری کو نصاب میں پڑھانے کے سلسلے میں راجستھان حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ہندوستان کی حکومت کو بھی چاہئے کہ مہارانا پرتاپ کی کہانی کو صرف بھارت میں نہیں پوری دنیا میں پہنچانے کی کوشش کرے۔انہوں نے کہا کہ مہارانا پرتاپ کی 475 ویں
جینتی پورے ہندوستان میں منائی جائے گی اور دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے ہندوستانی بھی مہارانا پرتاپ کی جینتی منائیں گے۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ مہارانا پرتاپ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے وطن کی حفاظت کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیالیکن ہندوستان کی تاریخ میں جس طرح سے انھیں جگہ ملنا چاہئے نہیں ملی۔ راج ناتھ سنگھ نے ویت نام کی طرف سے امریکہ کی فوج کے خلاف جدوجہد اور کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ویت نام کو جد جہد کی قوت مہارانا پرتاپ کی زندگی سے ملی تھی اور یہ بات خود ویت نام کے صدر نے بتائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ویت نام کے اس وقت کے وزیر خارجہ نے بھی اپنے بھارت دورے کے دوران اودے پور میں آکر مہارانا پرتاپ کو خراج تحسین پیش کی تھی۔ملک کی آزادی کے لئے اپنی جانیں نچھاور کرنے والے مہارانا پرتاپ، چھترپتی شیواجی سمیت مختلف سورماؤں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام عظیم لوگوں کی جد وجہداور بہادری کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ راجستھان طاقت کی سرزمین ہے جس نے ہندوستان کے اعزاز کو بڑھانے کا کام کیا ہے۔ سنگھ نے کہا کہ مہارانا پرتاپ کی بہادری، شجاعت اور حب الوطنی کو زمان ومکان کی سرحدوں میں نہیں باندھا جا سکتا ہے۔
وزیر داخلہ کا علم تاریخ
وزیر داخلہ کو تاریخ کا کتنا علم ہے اس کا اندازہ ان کے بیان سے ہوجاتا ہے۔ اکبر اایک ایسا حکمراں تھا جس نے ’’سب کا ساتھ ،سب کا وکاس‘‘ کے نعرے کو عملی روپ دیا تھا۔ اس نے ملک سے مذہبی منافرت ختم کرکے قومی یکجہتی کو فروغ دینے کاکام کیا تھا اسی لئے اسے عظیم مانا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ فاتح بھی تھا۔ وزیر داخلہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ تاریخ ہمیشہ فاتح کی نظر سے لکھی جاتی ہے مفتوح کی نظر سے نہیں۔ مہارانا کو اکبر سے شکست ہوئی تھی۔ ویسے سنگھ پریوار ان دنوں اپنے ہیروتراشنے میں لگا ہوا ہے اور اب مہارانا پرتاپ پر اس کی نظر ہے جن کے بہانے وہ راجپوت ووٹوں پر نشانہ سادھ رہا ہے۔ حالانکہ مہارانا پرتاپ کی فوج میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔ اسی طرح سے اکبر کی فوج کا سربراہ مان سنگھ تھا جو خود مہارانا پرتاپ کا رشتہ دارایک راجپوت تھا۔ مہارانا کو فرقہ پرستی سے جوڑ کر دیکھنے کا مطلب ہے کہ بھاجپائی جان بوجھ کر رجعتی قدم اٹھا رہے ہیں۔ مہارانا کو شیواجی کی طرح کبھی ہندو ہردے سمراٹ نہیں کہا گیا نہ ہی ان کی امیج کبھی فرقہ وارانہ رہی۔ انہوں نے ملک میں واحد حکومت کے خواہاں اکبر کی مخالفت کی تھی۔سیاست داں تاریخ کو بھی بانٹنے کی کوشش کرتے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی ہیرو بھی دائیں بازو آر ایس ایس کے پالے میں چلے گئے۔سنگھ پریوار نے مہاراناپرتاپ، چھتر پتی شیواجی، سوامی دیانند اور سوامی وویکانند کواپنا ہیرو بنا لیا۔مہارانا پرتاپ کو لے کر کمیونسٹوں اور دائیں بازو کے گروہوں میں جنگ چھڑی رہتی ہے۔سینئر مفکر اور مؤرخ شمبھوناتھ چرن شکل کہتے ہیں کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ کوئی رانا پرتاپ کو سرے سے مسترد کر رہا ہے تو دوسرا انہیں نصاب میں لانے کو بے چین ہے۔ چونکہ حکومت کی طرف سے یہ پہل مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کی جس کی وجہ سے مانا گیا کہ رانا پرتاپ راجپوت تھے اس وجہ سے ایک راجپوت وزیر ایسا کہہ رہا ہے۔وزیر داخلہ کو سمجھنا ہوگا کہ خود جہانگیر، شاہجہاں اور اورنگ زیب کو تاریخ گریٹ نہیں مانتی ہے۔ اگر اکبر کو مانتی ہے تو اس کے صلح کل کے رویے کی وجہ سے مانتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس قسم کی سیاست کا مقصد دینا ناتھ بترا کی تاریخ کو ملک میں لاگو کرکے تاریخ کا بھگوا کرن کرنا ہے۔(یو این این)
جواب دیں