ان کے آباء و اجداد ترک نسل سے تعلق رکھتے تھے اور قببیلہ برلاس (ارلاس) سے تھے۔وسط ایشیا سے ہندوستان آئے تھے اور عظیم آباد میں قیام تھا لہٰذا یہیں آپ کی ولادت عہدِ شاہجہانی میں ۱۰۵۴ھ بمطابق۱۶۴۴ء ہوئی۔
ابتدائی حالات
تذکرہ نگاروں کے مطابق بیدلؔ کے اجداد کا اصل وطن توران تھا جو وہاں سے ہجرت کر کے عظیم آباد چلے آئے تھے اور یہیں بیدلؔ کی پیدائش اور تعلیم وتربیت ہوئی۔ وہ آغازِ شباب تک یہیں رہے۔
بیدلؔ کے والد مرزا عبدالخالق ایک صوفی منش انسان تھے اور سلسلہ قادریہ کے فیضیافتہ تھے۔اسی لئے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے دلی تعلق رکھتے تھے اور ان کے عقیدت مند تھے۔بیدلؔ کو ان سے کم ہی مستفید ہونے کا موقع ملا کیونکہ ان کی موت کے وقت وہ کم سن تھے مگر سمجھدار تھے اور شاعری کی شروعات کر چکے تھے۔انھوں نے والد کے غم میں کچھ اشعار بھی کہے ہیں۔
بیدلؔ کو بچپن سے ہی پاکیزہ دینی ماحول ملا لہٰذاآپ پر تصوف کے اثرات بہت نمایاں تھے۔ انھوں نے لڑکپن میں ہی قرآن کریم حفظ کر لیا تھااور فارسی و عربی زبان و گرامر کی تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت والدہ اور چچامرزا قلندر کی رہنمائی میں ہوئی پھر باقی تعلیم کے لئے مدرسہ سیف الملک ناظمِ بہار میں داخل ہوئے جو کہ لبِ گنگا واقع تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس کے کھنڈر آج بھی موجود ہیں۔
شاعری کی ابتدا
مرزا فطری طور پر ذہین، طباع، موزوں طبع اور حسن پرست تھے۔ ایک اچھے شاعر کے لئے یہ تمام خوبیاں لازمی ہیں۔ سونے پہ سہاگہ زبان پر قدرت اور بدیہہ گوئی۔ تذکرہ نگاروں کے مطابق ان کی اپنے ایک ہم سبق سے دوستی تھی، جس سے وہ انسیت رکھتے تھے۔ یہ دوست اپنے منہ میں اکثر لونگ رکھتا تھا جس کے سبب خوشبو آتی تھی ، آپ نے اسی کے لئے رباعی موزوں کی:
یارم ہر گہہ در سخن می آید
بوی عجبش از دہن می آید
این بوی قرنفل است یا نگہتِ گل
یارائحۂ مشک ختن می آید
یہ رباعی بیدل ؔ نے دس،بارہ سال کی عمر میں کہی تھی۔ یہ مصرعے بتاتے ہیں کہ وہ شاعری کا جوہر قدرت کی طرف سے لے کر آئے تھے۔یہ ان کی شاعری کی ابتدا تھی مگر بہت سے محققین یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ایک دس بارہ سال کا بچہ ایسی رباعی کہہ سکتا ہے۔
بیدلؔ نے ابتدا میں اپنا تخلص رمزیؔ رکھا مگر گلستانِ سعدی کے مطالعہ کے دوران ایک مصرعہ نظر سے گذرا:
بے دل از بے نشاں چہ گوید باز
یہ مصرعہ پڑھ کران پر کیفیت طاری ہوگئی اور اپنا تخلص رمزیؔ سے بیدلؔ کر لیا۔ بعض اہلِ علم کے مطابق ابتدا میں ان کا شعری ذوق استاد شیخ عبدالعزیز عزتؔ کے دامنِ تربیت میں پروان چڑھا اور بعض کا خیال ہے کہ وہ مولانا کمال کے شاگرد تھے۔
درویشوں سے ملاقاتیں
بیدلؔ پر تصوف کے اثرات جن لوگوں کے سبب مرتب ہوئے ان میں ان کے والد مرزاعبدالخالق اور چچا مرزا قلندر شامل تھے جو خود بھی صوفیانہ مزاج رکھتے تھے اور اکثر صوفیہ و اہل اللہ کی خدمت میںآپ کو ساتھ لے کر آیا جایا کرتے تھے۔چچا تو پڑھے لکھے نہ تھے مگر اہل علم اور بزرگوں کے صحبت یافتہ تھے لہٰذاان کے اندر بھی علمی فکر موجود تھی اور شاعری بھی کر تے تھے۔وہ فی البدیہ شعر کہہ سکتے تھے۔
مولاناشاہ کمال رحمۃ اللہ علیہ قادریہ سلسلے کے ایک بزرگ تھے جن کے معتقد آپ کے والد اور چچا تھے۔ یہ پٹنہ سے تقریباً پچاس میل دور آرہ کے رانی ساگر علاقے میں رہتے تھے مگر آپ کے والد اور چچا روحانی تربیت کے لئے ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ اس سفر میں آپ بھی ان کے ساتھ ہوتے اور شاہ کمال سے علمی و روحانی استفادہ کیا کرتے تھے۔ بیدلؔ ان کے بتائے ہوئے اورادو وظائف لکھ لیا کرتے تھے۔ شاہ کمال سے شاعری میں بھی انھوں نے فیض پایا تھا۔
شاہ کمال کے بالکل برعکس فکرو نظر کے ایک دوسرے مجذوب بزرگ تھے شاہ ملوک،جو رانی ساگر کے قریب سرائے بنارس میں رہتے تھے۔ بیدلؔ کو ان سے بھی خاص تعلقِ خاطر تھا اور ان کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ اسی طرح جب وہ اپنے چچا کے ساتھ رانی ساگر جاتے تو شاہ ملوک بھی چلے آتے اور ہفتوں ان کے ساتھ گذارتے۔ وہ بالکل برہنہ رہتے تھے مگر زبردست عالم و فاضل تھے اور ان کی زبان سے نکلنے والی باتیں علم و فضل کا خزانہ ہوا کرتی تھیں۔ان کے پاس عقیدت مندوں کی بھیڑ رہتی اور وہ سب سے بے نیاز خاموش بیٹھے رہتے تھے۔البتہ جب خلوت میں ہوتے تو بڑبڑانا شروع کر دیتے اور ان کے منہ سے نکلنے والی باتیں بہت پتے کی ہوتی تھیں۔ایک روز وہ تنہائی میں کچھ بک رہے تھے اور بیدلؔ ان کی باتیں بہت غور سے سن رہے تھے ۔ انھوں نے اپنے ملفوظات لکھنے کو کہا اور یہ متواتر تین دن تک لکھتے رہے۔ اس دوران چالیس اشعار جمع ہوگئے جو ہندوی (اردو)میں تھے۔ان اشعار میں فلسفۂ ویدانت کی اصطلاحات بھی استعمال کی گئی تھیں۔وہ دن رات بہت سے اشعار پڑھتے رہتے تھے مگر انکے اشعار اب محفوظ نہیں ہیں۔ اگر یہ موجود ہوتے تو اردو شاعری کے ابتدائی نمونوں میں شمار ہوتے۔
شاہ یکّہ آزاد ایک صاحبِ کشف و کرامت بزرگ تھے۔ ان سے بیدل کی پہلی ملاقات چچا مرزا قلندر کے گھر پر ہوئی تھی۔ چچا نے ان کی پہلے ہی بہت تعریف کی تھی جس سے بیدلؔ کے دل میں جذبۂ شوق پیدا ہوگیا تھا۔اتفاق سے ایک دفعہ شاہ صاحب خود ہی تشریف لائے ۔ گرمی شدید تھی اور بیدلؔ نے پنکھے سے ہواداری کی خدمت انجام دی وہ بہت متاثر ہوئے اور بیدلؔ کے روشن مستقبل کی پیشین گوئی کرتے ہوئے کہا کہ ’’تیرے ہیولائی استعداد سے ایسی صورت ظہور میں آئے گی کہ اس کی کیفیت کے فہم سے بلند آگاہ بھی فائدہ اٹھائینگے۔‘‘
شاہ فاضل بھی ان اہلِ علم میں سے ایک ہیں جن سے بیدلؔ کو فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔ یہ فلسفہ و منطق اور علم کلام کے ساتھ ساتھ حدیث و تفسیر میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ بیدلؔ کو ان کی گفتگو سن کر مزہ آجاتا تھا ۔ وہ اس بارے میں اپنی کتاب ’چہارعنصر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جو نشہ میں نے آپ کے کیفیتِ تکلم سے اخذ کیا ،ہزار دورِ ساغرِ فکر سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
بیدلؔ انھیں اپنے اساتذہ میں شمار کرتے ہیں اور ان کی نظم ونثر کی تعریف کرتے ہیں۔ان کی محفل میں اکثر تصوف کے رموز پر گفتگو کی جاتی تھی۔
بیدلؔ سترہ سال کی عمر میں جب اپنے ماموں مرزا ظریف کے ساتھ ساتھ تجارت کی غرض سے اڑیسہ کے شہر کٹک گئے تو یہاں آپ کی ملاقات شاہ قاسم ھوالٰہی سے ہوئی۔ انھیں علماء کرام قطبِ زماں اور علامۃ الدہر کہتے تھے۔ شاہ صاحب گفتگوکے فن میں ماہر تھے اور خوبصورت گفتگو کیا کرتے تھے۔ اپنی گفتگومیں اشعار کا
برجستگی سے استعمال کیا کرتے تھے اور بیدلؔ کو بھی اسکی تلقین کیا کرتے تھے۔ان کے کہنے پر بیدلؔ نے صوفیہ کے ملفوظات جمع کئے اور دیباچہ میں ۶۲، اشعار لکھے۔اسے شاہ صاحب نے پسند فرمایا تھا۔ بیدلؔ نے ان سے نظم و نثر میں اصلاح لی تھی۔
والۂ ہروی کو بیدل نے تازہ گو شاعر کے لقب سے یاد کیا ہے۔ ان سے شاہ قاسم کی بزم میں ہی ملاقات ہوئی تھی اور بیدلؔ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائے تھے۔ تمکینِ عبارت اور رنگینئ مضمون کے سبب وہ ان کی تعریف کرتے ہیں۔
بیدلؔ کے تذکرے میں ایک شاہ کابلی نامی بزرگ کا ذکر آتا ہے۔ انھوں نے خود بھی اپنی تحریر میں ان کا ذکر کیا ہے۔یہ کون تھے اور کہاں کے رہنے والے تھے؟ ان کا اصل نام کیا تھا کسی کو نہیں معلوم مگر شاہ کابلی کے نام سے مشہور تھے ۔ اسی لئے سمجھا جاتا ہے کہ ان کا تعلق کابل سے ہوگا،اسی نسبت سے شاہ کابلی مشہور ہوگئے تھے۔یہ کھانے پینے کی چیزیں سیروں کی مقدار میں کھا جاتے تھے اور کچھ نہ ملے تو ہفتوں بھوکے رہ جاتے تھے۔ ان سے بیدلؔ پہلی بار اڑیسہ میں ملے تھے پھرکئی بار دہلی اور ایک بار متھرا میں ملے۔ یہ بیدلؔ کے سامنے تصوف کے نکات بیان کیا کرتے تھے اور ان سے بھی بیدلؔ کو وقفے وقفے سے کئی بار استفادے کا موقع ملا۔ یہ جس طرح اچانک کہیں بھی نمودار ہوجاتے اور پھر جیسے آتے اسی طرح غائب بھی ہوجاتے ، یہ حیرت انگیز بات تھی،جسے ان کی کرامت سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔
زندگی اِک سفر
بیدلؔ کی زندگی کسی ایک جگہ نہیں گزری وہ پہلے بہار کے عظیم آباد اور ترہٹ میں رہے۔ انھیں تین سال تک اپنے کاروبار کے سلسلے میں اڑیسہ میں رہنا پڑااور پھر اس کے بعد دہلی میں کچھ دن گذار کر متھرا اور ورنداون چلے گئے۔ وہ اکبر آباد بھی آتے رہے اورلاہور و پشاورمیں بھی وقت گذارا مگر پھر مستقل سکونت دہلی میں ہی اختیار کی۔
بیدلؔ نے اگرچہ شروع میں اپنے ماموں کے ساتھ مل کر تجارت کی مگر پھر اپنے آباء کے پیشے کی طرف مائل ہوگئے۔ ان کا آبائی پیشہ سپہ گری تھا اور انھوں نے بھی اسی کو اپنا لیا۔ یہ پیشہ انھوں نے اس وقت اپنایا جب اکبرآباد میں رہتے ہوئے انھیں تنگ دستی کا شکار ہونا پڑا اور نوبت فاقہ تک پہنچ گئی۔
باغِ بیدلؔ
بیدلؔ کا دہلی میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ قیام جمنا کے کنارے ایک پرسکون مقام پر تھا۔ ان کے لئے اس حویلی کا انتظام نواب شکر اللہ خاں نے کیا تھا،جو ان کے دہلی میں قیام کے خواہاں تھے۔ ان کا اسی مکان میں ۳،صفر۱۱۳۳ھ بمطابق۲۳،نومبر ۱۷۲۰ء کو انتقال ہوااور صحن میں دفن کئے گئے۔ یہ مغل حکمراں محمدشاہ کا زمانہ تھا۔ ان کی قبر کا مقام اب باغِ بیدل کے نام سے مشہور ہے اور متھرا روڈ پر درگاہ حضرت ابوبکرطوسی رحمۃ اللہ علیہ (مٹکاشاہ) کے سامنے واقع ہے۔ابتدا میں یہاں بیدلؔ کا عرس بھی ہوا کرتا تھا اور شہر کے سخن داں یہاں جمع ہوکر ان کی کلیات پڑھتے نیزاپنا تازہ کلام بھی پیش کیا کرتے تھے مگر بعد میں ایک مدت تک یہ مقام گمنام رہا اور ان کی قبر کا لوگوں کوعلم نہ رہا۔
علمی مقام
بیدلؔ نے ایک طویل عمر پائی اور کئی بادشاہوں کے دور دیکھے۔ انھیں ہندوستان سے لے کر ایران تک پزیرائی حاصل ہوئی اور ہر دور کے اہلِ علم احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ تصوف پر ایمان رکھنے والوں کے لئے ایک وحدۃ الوجودی صوفی ہیں تواہل علم کے لئے ان کی شاعری طلسم کا ایک حیرت کدہ ہے۔ ان کے مدّاحوں میں غالبؔ سے لے کر اقبالؔ تک شامل ہیں۔ غالبؔ نے تو ان کی خوشہ چینی کا اعتراف بھی کیا ہے۔وہ انھیں’ بحرِ بیکراں‘ اور’ محیطِ بے ساحل‘کہتے ہیں توعلامہ اقبالؔ انھیں ’مرشدِ کامل‘ اور’ مفکر شاعر‘قرار دیتے ہیں۔ غالبؔ نے ان کی تتبع کی اور اس کا برملا اظہار بھی کیا:
طرزِ بیدلؔ میں ریختہ کہنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
مکتوبات نیازحصہ دوم کے مطابق اقبال نے بیدلؔ کو اپنی طرز کا موجد اور خاتم کہا ہے۔علامہ نے پروفیسر سلیم چشتی سے ایک ملاقات کے دوران فرمایا کہ’’دنیا میں چار آدمی ایسے ہیں کہ، جو شخص ان میں سے کسی کے طلسم میں گرفتار ہوجاتا ہے، مشکل ہی سے رہائی پاتا ہے اور وہ ہیں،ابن عربی، شنکر آچاریہ، بیدلؔ اور ہیگل۔‘‘
بیدلؔ نے بہت لکھا اور بہت خوب لکھا۔انھوں نے مثنوی، قصائد، رباعیات اور غزلیں کہیں۔ ان کے اشعار کی تعداد لاکھوں تک بتائی جاتی ہے۔ ان کی مقبولیت کا رازان کا اندازِ بیان، پروازِ تخیل اورتنوعِ تعبیرات میں پنہاں ہے۔ان کے ایک ایک شعر کی تشریح میں ایک ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔اسی کے ساتھ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کی نثری کتابوں میں رقعات، نکات اور چہارعنصر شہرت کی حامل ہیں۔
(اس مضمون کی جانکاریاں درج ذیل کتابوں سے ماخوذ ہیں: چہار عنصر، از بیدلؔ ،دیباچہ کلیاتِ بیدلؔ (مطبوعہ دہلی کالج)،حیات بیدلؔ از ڈاکٹر امانت،تذکرہ ماہ وسال از مالک رام، شعرالعجم،از شبلی نعمانی،تاریخ ادبیات ایران اور مکتوبات نیاز۔)
(بیدلؔ )
پیش چشمے کہ نورِ عرفان نیست
گر بود آسمان نمایان نیست
عمرہا شد دمیدہ است آفاق
بی لباسی ہنوز عریان نیست
باید از نقد اعتبار گذشت
جنسِ بازار عبرت ارزان نیست
بر فلک ہم خمیست دوشِ ہلال
ناتوانی کشیدن آسان نیست
بیدلؔ امروز در مسلمانان
ہمہ چیز است لیکن ایمان نیست
(ترجمہ)
جسکی آنکھوں میں نورِ عرفاں نہیں
آسماں ہوکے بھی نمایاں نہیں
اِک زمانے سے ہے گگن پھیلا
بے لباسی ہنوز عریاں نہیں
چاہئے نقدِ اعتبار ہو پاس
جنسِ بازارِ عبرت ارزاں نہیں
آسماں پر بھی خم ہے دوشِ ہلال
ناتوانی کا جانا آساں نہیں
آج بیدلؔ یہاں مسلماں میں
سب ہے لیکن بس ایک ایماں نہیں
جواب دیں