بھارت، انڈیا، ہندوستان

اس زمانے میں اگرچہ مسلمان حکمران تھے مگر ہندو اپنے مذہب پر عمل میں مکمل طور پر آزاد تھے۔ وہ کامل آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی قوانین پر عمل کررہے تھے۔ وہ آزادی کے ساتھ اپنے تہوار مناتے، مقدس مقامات کی یاترا کرتے۔ میلوں ٹھیلوں کا انعقاد کرتے۔ ہندوؤں کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں۔ ایک ہزار سال کے اس عرصے میں ریاست نے کسی سازش کی بنیاد پر ہندوؤں کے خلاف طاقت استعمال کی ہوتو کی ہو مگر اس طویل عرصے میں کبھی ایک بار بھی ہندو مسلم فساد نہیں ہوا۔ کسی خطے پر کسی نظریے یا قوم کے غلبے کا کیا مفہوم ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سوویت یونین کے طول وعرض میں کمیونسٹوں کو غلبہ حاصل ہوا اور انہوں نے صرف 70 سال میں عیسائیت اور اسلام کو اپنے تئیں ختم کر ڈالا۔ یہی صورت حال سابق یوگوسلاویہ پر رونما ہوئی۔ جدید یورپ میں مسلمانوں کو آباد ہوئے ابھی پچاس ساٹھ سال ہوئے ہیں مگر یورپ مساجد کی تعمیر بند کررہا ہے۔ پردے پر پابندی لگا رہا ہے۔ اسکارف کو غیر قانونی قرار دے رہا ہے۔ حلال گوشت پر چراغ پا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کرنے کے باوجود ہندو ازم کو پوری طرح آزاد رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت میں مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دور اختتام کو پہنچا تو بھارت میں مسلمانوں کی نہیں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ مسلمانوں نے طاقت استعمال کی ہوتی تو ایک ہزار سال کی حکومت کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی یا سارا ہندوستان مسلمان ہوچکا ہوتا۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال کے دوران جس کشادہ دلی کا ثبوت دیا وہ ان کے کوئی ذاتی خوبی نہیں ہے۔ یہ ان کے دین کی خوبی ہے جو کہتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ اگرچہ مسلمان ایک ہزار سال تک بھارت کے حکمران رہے اور حکمران عوام کے رنگ ڈھنگ اختیار نہیں کرتے مگر مسلمانوں کی رواداری اتنی بڑھی کہ اکبر کے یہاں وہ انحراف بن گئی۔ چناں چہ اکبر نے جودھا بائی سے شادی کی۔ دارا شکوہ نے اسلام اور ہندو ازم کے امتزاج کا تصور پیش کیا۔ اردو کے سب سے بڑی عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے ہندوؤں کے تہواروں پر خوبصورت نظمیں لکھیں اور میر جیسے شاعر نے کہا? 
میر کے دین و مذہب کو تم پوچھتے کیا ہو ان نے تو 
قشقہ کھینچی، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا 
بعض لوگ اس شعر کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ میر نے اسلام ترک کر کے ہندو ازم اختیار کرلیا۔ لیکن میر کے اس شعر کا مفہوم صرف یہ ہے کہ مسلمان اب ہندوستان میں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ ان کا عربی مزاج اور تشخص ہوا ہوگیا ہے اور وہ ’’مقامی مسلمان‘‘ بن گئے ہیں۔ 
مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کے بعد انگریزوں کا زمانہ شروع ہوا۔ اب بھارت، بھارت نہ رہا انڈیا بن گیا۔ انگریزوں نے صرف ڈیڑھ سو برس میں مذہبی بھارت کو سیکولر انڈیا بنا دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہندوؤں کی پوری قیادت نے سیکولر انڈیا کو سینے سے لگالیا۔ انڈیا کے سیکولر ہونے پر گاندھی اور ہندو تو کیا سردار پٹیل کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوا۔ انگریزوں نے ہندوؤں کے پرنسل لا میں مداخلت کرتے ہوئے ستی کی رسم پر پابندی لگائی۔ انہوں نے ہندوؤں کے علم، لباس، تراش خراش، وضع قطع کو بدل ڈالا۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور نے ہندوؤں کو گوشت خور نہیں بنایا مگر انگریزوں کے ڈیڑھ سو سال کے اقتدار کے اثرات نے ہندوستان میں کروڑوں گوشت خور پیدا کردیے۔ لیکن بھارت 15 اگست 1947 کو آزاد ہوگیا۔ 
آزادی کو بھارت کی قوت بننا چاہیے تھا مگر آزادی نے بھارت کو ہندوستان بنادیا۔ ایسا ملک جس میں مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ چناں چہ گزشتہ 67 سال میں بھارت میں چار ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی معاشی اور سماجی حالت شو دروں سے بدتر ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ہولناک چیز وہ تناظر ہے جس کے دائرے میں عبادت گاہوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ ہندو رہنما کہتے ہیں کہ اورنگ زیب نے مندروں کو منہدم کیا اور وہ غلط کہتے ہیں لیکن بالفرض اورنگ زیب نے ایسا کیا بھی تو رات کی تاریکی میں کیا۔ تاریخ کے ایک ایسے دور میں کیا جب ایک قلعے کی خبر دوسرے قلعہ تک بھی ہفتوں اور مہینوں میں پہنچتی تھی۔ لیکن ہندوؤں نے بابری مسجد کو 20 ویں صدی میں شہید کیا۔ اور ساری دنیا کے سامنے شہید کیا۔ اس کا سبب وہ تناظر ہے جس کا ذکر ہم نے ابھی کیا ہے۔ 
اسی تناظر کی ہولناکی کا اندازہ بابری مسجد کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک حالیہ خبر سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ ایک ویب سائٹ کو برا پوسٹ کے مطابق بابری مسجد کی شہادت عام جنونی ہندوؤں کی کارروائی کا نتیجہ نہیں تھی۔ بلکہ یہ ایک ایسے خفیہ منصوبے کا حاصل تھی جس میں بھارت کے 23 ریٹائرڈ فوجی ملوث تھے۔ کو برا پوسٹ کے ایسوسی ایسٹ ایڈیٹر کے اشیش کی تحقیقات کے مطابق مذکورہ منصوبے کا خفیہ نام ’’آپریشن جنم بھومی‘‘ تھا اور اس منصوبے سے بھارتیہ جتنا پارٹی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی ہی نہیں اس وقت کے کانگریس کے وزیراعظمنرسہماراؤ اور یوپی کے اس وقت کے وزیراعلیٰ پوری طرح آگاہ تھے۔ کے اشیش نے اس خفیہ منصوبے میں شریک 23 ریٹائرڈ فوجیوں سے نہ صرف یہ کہ انٹرویو کیے ہیں بلکہ یہ انٹرویوز کی ریکارڈنگ بھی ان کے پاس موجود ہے۔ کے اشیش کی رپورٹ کے مطابق بابری مسجد شہید کرنے کے لیے ریٹائرڈ فوجیوں کو کئی ماہ تک خصوصی تربیت دی گئی۔ ان کو آمدروفت کی سہولت مہیا کی گئی۔ ان فوجیوں کی مجموعی تعداد 8 سو تھی اور انہیں جون 1992 میں گجرات میں تربیت دی گئی۔ کے اشیش کے مطابق ان میں سے بعض افراد کا نام سی بی آئی کی رپورٹ میں بھی موجود ہے تاہم ان افراد نے کسی خوف کے بغیر کے اشیش کو انٹرویوز دیے۔ کے اشیش کی رپورٹ کے مطابق بجرنگ دل اور ویشوا ہندو بریشد کے کارکنوں کے پاس ایک ’’پلان بی‘‘ بھی موجود تھا۔ جس کے تحت اگر بابری مسجد کو عام طریقے سے شہید کرنا ممکن نہ ہو پاتا تو اسے ڈائنا مائٹس سے اڑا دیا جاتا۔ 
عام خیال یہ ہے کہ بھارت میں ہندوؤں کی انتہا پسندی بھارتیہ جنتا پارٹی، بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد وجیسی تنظیموں کا ورثہ ہے۔ مگر کے اشیش کی تحقیقاتی رپورٹ سے ظاہر ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں کانگریس بھی برابر کی شریک ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بابری مسجد شہید ہوئی تھی تو بھارت اور یوپی میں گانگریس کی حکومت تھی اور عام رائے یہ تھی کہ کانگریس کی حکومت نے بابری مسجد کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ تاہم کے اشیش کی رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ کانگریس ایک جماعت کی حیثیت سے بابری مسجد کی شہادت میں شریک تھی۔ مذکورہ رپورٹ کا ایک پہلو یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں یوپی کے ضلع سہارنپور میں کانگریس کے ایک مقامی مسلم رہنما راشد مسعود نے بی جے پی کے رہنماؤں کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے مسلمانوں کو میلی آنکھ سے دیکھا تو ان کے ٹکڑے کردیے جائیں گے۔ راشد مسعود کے اس بیان پر ہنگامہ برپا ہوگیا۔ انہیں نقص امن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور راہْل گاندھی نے بہ نفسِ نفیس راشد مسعود کے بیان کی مذمت کی۔ لیکن بابری مسجد شہید کرنے والے 38 میں سے 23 افراد کے اعترافات عام ہوچکے ہیں اور ان کے اعترافات کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے مگر یہ لوگ گرفتار تو کیا ہوتے اب تک کسی جماعت کی جانب سے ان کی گرفتاری کا مطالبہ بھی سامنے نہیں آسکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بھارت میں مسلم دشمنی بالائی ذات کے ہندوؤں کا ہتھیار ہے لیکن مظفر نگر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں جو مسلم کش فسادات ہوئے ان میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی جماعتیں سماج وادی پارٹی اور بہو جن سماج کے رہنما اور کارکنان بھی شریک تھے۔۔ عام خیال ہے کہ بی جے پی کے نربندر مودی بھارت کے نئے وزیراعظم ہوں گے۔ اس کے بعد کون ہوگا جو کہہ سکے گا کہ ہندوستان رام کے بجائے راون کا ہندوستان نہیں ہے؟

«
»

حماس اور فتح میں مفاہمت

آر ٹی آئی ایکٹ عوام کو بہلانے کا ذریعہ ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے