وزیر اعظم نریندر مودی اس مہم پر لگے ہیں کہ دنیا میں ان کی پوزیشن ایک بڑے لیڈر کی بن جائے اور ملک کی پارلیمنٹ میں سادھوی جو منھ میں آئے وہ کہے اور کوئی سنت ناتھو رام گوڈسے کی شان میں قصیدہ پڑھے۔ دھرم پریورتن کی بحث چلے اور گھر واپسی کی نوک جھونک میں چار دن خراب ہوجائیں تو ہونے دیئے جائیں۔ اب اس سے بھی بہت آگے کی بات ہورہی ہے کہ آر ایس ایس کی ناجائز اولاد وشوہندو پریشد کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر لگانے کی اجازت نہ دی جائے اور مہاراشٹر اسمبلی میں ایک بی جے پی کے ممبر نے جمعیۃ علماء کو دہشت گرد پارٹی قرار دے دیا۔ جس کی صفائی میں سنگھ کی گود کے پروردہ وزیر اعلیٰ نے صفائی دی کہ انہوں نے دہشت گرد نہیں کہا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ ان کے دہشت گردوں سے تعلقات ہیں۔
بات صرف اتنی ہے کہ ہر جگہ کی پولیس سنگھ پریوار کی غلام ہے جہاں کہیں فضاء خراب ہوتی ہے اور ہندو مسلمانوں پر حملہ کرنے چلتے ہیں تو ہندوؤں کی حفاظت میں رائفلیں لے کر پولیس بھی چلتی ہے مسلمانوں کے مسئلہ میں دونوں کا تعلق وہی ہے جو آج حکومت اور آر ایس ایس کا ہے۔ پولیس والوں نے ایک کام یہ بھی شروع کردیا ہے کہ پیسے لے کر مسلمان لڑکوں کو کسی دھماکہ میںیا اور کسی واردات میں پھانس کر جیل بھجوا دیتے ہیں۔ بے گناہوں کی گرفتاری اور عدالتوں کی جانبداری کی جب حد ہوگئی تو جمعیۃ علماء ہند نے اچھے وکیلوں کی خدمات حاصل کرکے ان بے گناہ مسلمانوں کا مقدمہ لڑنا شروع کیا اور کیونکہ وہ بے گناہ تھے اس لئے باعزت بری ہونا شروع ہوگئے۔ یہ بات آر ایس ایس کے لیڈروں اور پولیس والوں کو کہاں برداشت ہوسکتی تھی اسی لئے اپنی حکومت آتے ہی جمعیۃ علماء پر حملہ کردیا۔
جمعیۃ علماء بیشک آج ہندوؤں کے لئے کچھ نہیں ہے لیکن یہی جمعیۃ علماء ہند تھی جس کے لیڈروں کے آگے پیچھے پنڈت نہرو، شاستری جی، پنڈت پنت، سی بی گپتا، ہم وتی نندن بہوگنا جیسے درجنوں لیڈر پھرا کرتے تھے اور آزادی کی جنگ میں جمعیۃ علماء کے لیڈروں نے جتنی زندگی جیل میں گذاری ہے اس کی آدھی بھی ہندو لیڈروں نے نہیں گذاری نہ ہندو تعداد میں برابر تھے اور نہ مدت میں۔ ملک دنیا کے نزدیک 15 اگست 1947 ء کو آزاد ہوا تھا سنگھ پریوار کی اولادیں کہہ رہی ہیں کہ 26 مئی 2014 ء کو آزاد ہوا ہے اگر ان کے حساب سے دیکھا جائے تو ابھی وہ صوبے آزاد نہیں ہوئے ہیں جہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے جیسے اُترپردیش، بہار، بنگال، اُتراکھنڈ، آسام وغیرہ۔
اللہ کی شان ہے کہ آج جمعیۃ علماء ہند کو یہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ انگریزوں کی مخبری اور دلالی کرنے والے ہندو اسے دہشت گرد کہیں اور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اس ایم ایل اے کو پھٹکارنے کے بجائے کہیں کہ اس کی تحقیق کی جائے گی اور اس کی تحقیق کی جائے گی کہ جمعیۃ علماء کے بعض کارکنوں کے کیا چھوٹا شکیل سے تعلقات ہیں؟ یہ بات تو جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے لوگ ہی بہتر جان سکتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے لیکن انہوں نے جو کام اپنے ہاتھ میں لیا ہے وہ بہت بڑا ہے اور صرف پولیس والوں کو نہیں بلکہ بڑے بڑے ہندو لیڈروں کو بے گناہوں کی باعزت رہائی نے آئینہ دکھایا ہے کہ وہ اپنی گھناؤنی صورت دیکھ لیں۔ ہم مسلمانوں کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات کی ہے کہ جن پولیس والوں نے گرفتار کیا تھا اور جس عدالت نے انہیں پولیس کے الزامات کو سچ مان کر جیل بھیجا تھا ہائی کورٹ نے ان میں سے نہ کسی کو سزا دی اور نہ بازپرس کی اور اب بے گناہوں کی مدد کرنے کا انعام یہ مل رہا ہے کہ ان کو ہی دہشت گردوں میں شامل کیا جارہا ہے اور وزیر اعلیٰ اس کی تحقیقات کرانے کی بات کررہے ہیں۔
کشمیر، جھارکھنڈ اور دہلی کا الیکشن ہوجائے تو بہار پھر بنگال اس کے بعد اُترپردیش کے الیکشن کے اگر نتیجے ایسے ہی رہے جس کے لئے نریندر مودی سر سے زمین کھودے ڈال رہے ہیں تو پھر مودی بھی ہندو راشٹر کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ ہوجائیں گے وہ بس اس وقت تک الگ ہیں جب تک بڑے صوبوں میں مخالفوں کی حکومت ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی ان سیاسی لوگوں میں نہیں ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کام کیا ہو، پھر بھی ہم یہ نہیں مان سکتے کہ وہ جمعیۃ علماء کے کام اور اس کی قربانیوں سے واقف نہ ہوں۔ مہاراشٹر کے معاملہ میں انہیں دخل دینا چاہئے تھا۔ خاص طور پر اس لئے کہ اسے وہ بھی پسند نہیں کریں گے کہ ان کی حکومت پر ناانصافی کی سرپرستی کرنے کا الزام آئے۔ وہ ہر جگہ اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ ہر ریاست میں اب تک باپ بیٹوں، ماں بیٹے اور باپپ بیٹی نے لوٹا ہے۔ اب بی جے پی کی حکومت بن جائے تو ہر مستحق کو اس کا حق ملے گا کوئی کسی کا حق نہیں مار پائے گا۔ ناانصافی صرف پیسوں کی ہی نہیں ہوتی یہ تو سب سے بڑی ناانصافی ہے کہ فاروق احمد خاں انجینئر نے کچھ نہیں کیا ان پر دہلی میں دھماکہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگاکر جیل بھیج دیا اور 19 سال کے بعد عدالت نے یہ کہہ کر کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا انہیں باعزت بری کردیا۔ ایک انجینئر کے 19 سال برباد کرکے کیا باعزت کہنا انصاف ہے؟ انصاف تو یہ تھا کہ انہیں 19 سال کی تنخواہ معہ ترقی کے اور چھٹی کے دی جاتی اور حکومت ان سے معافی مانگتی۔
ایسا ہی الزام کشمیر کے عمران پر لگایا گیا کہ وہ خودکش حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے عمران بھی ایک پرائیویٹ کمپنی میں انجینئر تھے انہیں بھی پانچ سال کے بعد باعزت بری کیا گیا ہم حکومت جس کی بھی ہو اس سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ منصوبہ بندی کی خبر کیسے ہوجاتی ہے؟ اور جب ثابت ہوجاتا ہے کہ پولیس نے صرف مسلمان سمجھ کر یہ حرکت کی ہے تو عمران کو پانچ سال کی تنخواہ کیوں نہیں دی جاتی اور ان پولیس والوں پر مقدمہ کیوں نہیں چلایا جاتا؟ اگر جمعیۃ علماء ہند ان کی مدد نہ کرتی تو یہ آج بھی جیل میں ہوتے اور ان کی مدد کرنے کیلئے ان کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اگر کوئی ان پر الزام لگائے کہ ان کے دہشت گردوں سے تعلقات ہیں تو کیا اس سے بھی ساکشی مہاراج کی طرح چار بار معافی نہ منگوانا چاہے؟
جواب دیں