کب تک قتل ہوتے رہیں گے آزادخیال لوگ؟ کیا اس ملک میں دانشوروں کو اپنے خیالات پیش کرنے کا حق نہیں ہے؟ کیا اس ملک میں تمام حقوق صرف اور صرف ہندتوادیوں کے پاس ہیں؟ یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ حال ہی میں ہمپی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ایم ایم کَل بُرگی کو کرناٹک کے دھارواڑ میں گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ آزادخیال تھے اور اندھ وشواس کے آگے سرجھکانے کو تیار نہ تھے۔وہ بت پرستی اور مذہب کے نام پر پھیلی ہوئی ضعیف الاعتقادی کو پسند نہیں کرتے تھے اور اس کے خلاف زندگی بھر آواز اٹھاتے رہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو بھی جاہلیت کے خلاف زبان کھولتا ہے اس کا قتل ہو جاتا ہے۔ پہلے نریندر دابھولکر،پھر گووند پانسرے اور اب ایم ایم کلبرگی شدت پسندوں کے نشانے پر آئے اور اپنی جان گنوائی مگر اب تک کسی کے قاتل کو گرفتار نہ کیا جاسکا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ قاتلوں کے سامنے ہمار اقانون کس قدر لاچارہے؟اسے تین افراد کا قتل نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ آزادی فکرونظریہ کا قتل ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ اشخاص کے قتل سے کسی نظریے کو دبانا ممکن نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک انصاف پسند لوگ مارے جاتے رہیں گے اور جاہلوں ، اندھ وشواسیوں کو نئی زندگی ملتی رہے گی؟ اب تک کسی بھی دانشور کے قاتل کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے،اس سے قاتلوں کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔کرناٹک حکومت نے سی بی آئی انکوائری کی سفارش کرکے اپنی بلا مرکز کے سر ڈالنے کی کوشش کی ہے مگر آگے کیا ہوگا؟ اب بھگواوادیوں کے نشانے پر کون آئے گا؟ ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔ابھی کلبرگی کی خون کی سرخی ماند بھی نہیں پڑی تھی کہ ایک دوسرے آزاد خیال دانشور پروفیسر بھگوان کو بجرنگ دل کی طرف سے قتل کی دھمکی دی گئی، اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ تخریب کاروں اور دہشت گردوں کو قانون کا کوئی ڈر نہیں رہ گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں آزادخیال بلاگرس کے قتل کی بھارت میں مذمت ہوتی ہے اور پڑوسی ملک میں بڑھتی شدت پسندی پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے مگر خود ہمارے ملک میں اس سلسلے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کم
تشویشناک نہیں ہے۔
آزادخیالی کا قتل
کرناٹک کی ہمپی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ایم ایم کلبرگی کو چند دن قبل ۳۰اگست کی صبح کو ان کی رہائش گاہ پر کچھ نامعلوم مسلح افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا۔قاتلوں نے پہلے دروازہ کھٹکھٹایا اور جیسے ہی انھوں نے دروازہ کھولا،ا نھیں گولی ماردی۔ دھارواڑ کے پولیس کمشنر رویندر پرساد نے کہا، ڈاکٹر کلبرگی کو گولی مار کر قتل کیا گیا۔ وہ 77 سال کے تھے اور انھوں نے جیسے ہی گھر کا دروازہ کھولا ، حملہ آوروں نے ان کے سر میں گولی مار دی۔ان کو ایک قریبی اسپتال لے جایا گیا، جہاں انہیں مردہ قرار دے دیا گیا۔پرساد نے کہاکہ ،ہم نے قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے اورحملہ آور کی تلاش کے لئے خصوصی ٹیم بنائی گئی ہے۔ایک عینی شاہد نے بتایا کہ دو شخص موٹر سائیکل پر آئے اور واردات کو انجام دے کر بھاگ گئے۔کرناٹک کے وزیر اعلی سدارمیا نے کلبرگی کے قتل پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ وہ ہیلی کاپٹر سے بنگلور سے دھارواڑ پہنچے اور انہوں نے کنڑ ادیب کو خراج عقیدت پیش کیا۔
کون تھے کلبرگی؟
شمالی کرناٹک کے یاراگل گاؤں میں 1938 میں پیدا ہوئے کلبرگی کرناٹک کی ہمپی کنڑیونیورسٹی میں وائس چانسلررہ چکے تھے۔ وہ ایک مشہور مفکر اور محقق تھے جو مذہبی، سماجی اور دیگر مسائل پرتبصرے کے لئے کئی بار تنازعات میں گھر چکے تھے۔ انہیں مرکزی اور ریاستی ادبی اکیڈمیوں کی طرف سے کئی ایوارڈ بھی مل چکے تھے۔کلبرگی عام طور پر بھگواطاقتوں کے نشانے پر رہے تھے اور وہ ان کی جان کی دشمن بنی ہوئی تھیں۔انھوں نے لنگایت طبقے کو ہندو ماننے سے بھی انکار کیا تھا اور اس کے لئے ان کے پاس کچھ دلیلیں تھیں۔ ایم ایم کلبرگی 150 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ سینکڑوں کی تعداد میں ان کے تحقیقی کام ہیں۔ بہت سے اعزازات سے انھیں نوازا جا چکاتھا۔مرکزی اور ریاستی ادبی اکیڈمیوں کے کئی ایوارڈس انھیں مل چکے تھے۔ ان کی تحقیق اور آزادانہ وترقی پسندانہ خیالات کو ہندتووادی طاقتیں پسند نہیں کرتی تھیں اور وہ مسلسل ان کے نشانے پر رہتے تھے۔ ہندو شدت پسند مسلسل انہیں دھمکیاں دیتے رہتے تھے، انہوں نے ان پر مقدمہ بھی ٹھوک رکھا تھا، ان کے پتلے پھونکے گئے تھے، ان کے گھر پر پتھروں اور بوتلوں سے حملہ بھی کیا گیا تھا اور آج ان کا قتل کر یہی لوگ کھلے عام جشن منا رہے ہیں۔کلبرگی تاعمر مذہبی نفاق اور اندوشواس کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ ان کے انہی خیالات کی وجہ سے ان کا قتل کیا گیا ہے۔ حالانکہ جانچ کو غلط راستے پر ڈالنے کے لئے یہ بھی کہا جارہاہے کہ زمین کے تنازعہ میں ان کا قتل ہوا ہوگا، جب کہ ایسے کسی تنازعے سے ان کا تعلق نہیں تھا۔
ہندتو وادیوں کے حوصلے بلند
کلبرگی کو گولی مار کر قتل کئے جانے کے بعد ایک اور کنڑ مصنف اور آزاد خیال دانشورپروفیسر بھگوان کو جان سے مارنے کی
دھمکی ملی ہے۔ کرناٹک پولس نے انھیں دھمکی دینے والے کو گرفتار کر لیا ہے۔ بنگلور سے پولیس نے بھاویش شیٹی نام کے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔ الزام ہے کہ بھاویش نے ٹوئٹر پر دھمکی دی تھی۔پروفیسر بھگوان کو دھمکی دینے والے نے کہا تھا کہ وہ ہندوتو کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کی موت بھی اسی طرح ہوگی جس طرح سے کلبرگی کی ہوئی ہے۔کلبرگی کی موت اور پروفیسر بھگوان کو ملی دھمکی کے بعد سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر بنیاد پرست تنظیموں کے لوگ آزاد خیالات رکھنے والوں کو کب تک قتل کرتے رہیں گے اور قانون کی دسترس سے دور رہیں گے؟پروفیسر بھگوان کو دھمکی دینے والے نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ ہندوتو کا مذاق اڑانے والے کتے کی موت مریں گے اور پروفیسر بھگوان اگلا نمبر تمہارا ہے۔پروفسیر بھگوان کو دھمکی دینے کے الزام میں گرفتار شخص کا تعلق بجرنگ دل سے ہے۔ حالانکہ گرفتار شدہ بھاویش شیٹی نے کہا ہے کہ ، میں نے فوری طور پر اپنے غصے کو باہر نکال دیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے یا میری تنظیم کے لوگوں نے کلبرگی کو مارا ہے۔ جہاں تک بھگوان کی بات ہے تو انہیں سمجھنا چاہئے کہ اپنے ہندو مخالف بیانات کے لئے نشانے پر آ سکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں یا میرے تنظیم کے لوگ انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ کرناٹک پولیس کے ذرائع نے بتایا، کہ شیٹی کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے اور 506 کے تحت مقدمہ درج کیاگیا ہے۔ متنازعہ ٹویٹس کے بعد شیٹی کا ٹویٹر اکاؤنٹ بند ہو گیا ہے۔تاہم اس کے ٹویٹس سوشل میڈیا پر پھیل چکے ہیں۔واضح ہوکہ کلبرگی کی طرح، میسور یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر بھگوان بھی ہندو تنظیموں پر حملے کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک نیا تنازعہ چھڑ گیا تھاجب انہوں نے ایک وی ایچ پی لیڈر کو ہندو مذہبی کتابوں پر بحث کرنے کا چیلنج دیا تھا۔
قانون سے بالاتر بھگواوادی
دانشوروں کے قتل میں شک کی سوئی دائیں بازو کی تنظیموں کی طرف ہے لیکن اس سے پہلے قتل کئے گئے نریندر دابھولکر کے قاتل نہیں پکڑے جا سکے ہیں۔ اب کلبرگی کے قتل کے بعد کرناٹک پولیس کے سامنے چیلنج ہے کہ وہ ان لوگوں کو قانون کے دائرے میں کیسے لاتی ہے؟ بایاں محاذ اور ترقی پسند تنظیموں نے کرناٹک بھر میں کلبرگی کے قتل کے خلاف مظاہرہ کیا۔ تنظیموں نے شیٹی کی ٹویٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ کلبرگی کے قتل کے پیچھے بھگوا تنظیمیں ہی ہیں۔ دوسری طرف کرناٹک سرکار نے ایم ایم کلبرگی کے قتل کی تحقیقات سی بی آئی سے کرانے کا فیصلہ لیا ہے۔ وزیر اعلی سدارمیا نے بتایا کہ سی بی آئی سے جانچ کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ کئی رہنماؤں نے سی بی آئی جانچ کی مانگ کی تھی۔ مانا جا رہا ہے کہ جب تک ریاستی حکومت مرکز کو سی بی آئی کی جانچ کے بارے میں لکھتی ہے اور رسمی طور پر سی بی آئی جانچ شروع ہوتی ہے، تب تک سی آئی ڈی اس معاملے میں انکوائری جاری رکھے گی۔اسی کے ساتھ سی آئی ڈی نے دو مشتبہ افراد کے اسکیچ جاری کئے ہیں اور عوام سے ان کے بارے میں جانکاری مانگی ہے۔
ہمارا ملک کدھر جارہاہے؟
بھارت میں بھگوا قوتوں کی طرف سے روشن خیال اور ترقی پسند لوگوں کے خلاف حملے پوری قوم کے لئے تشویش کی بات
ہیں اور اشارہ کرتے ہیں کہ ہمارا ملک کس طرف جا رہا ہے ۔ ان دنوں جس طرح سے تعلیمی سسٹم اور تاریخ کے بھگوا کرن کی کوششیں چل رہی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ مرکز اور کئی ریاستوں میں بھگوا قوتوں کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نہ صرف ملک پر فرقہ پرستوں کا تسلط بڑھا ہے بلکہ سماجی و عدالتی سسٹم اور انتظامی امور میں بھی دائیں بازو کی قوتوں کی دخل اندازی نے جمہوری روایات کو کمزور کیا ہے۔ ہندوستان ایک بار پھر عہد وسطیٰ کے تاریک دور کی طرف جاتا نظر آتا ہے اور ایسا لگ رہاہے کہ جہاں دنیا آگے کی طرف بڑھ رہی ہے ہمارا ملک پیچھے کی طرف جارہاہے۔ اس کی مثال گوندپانسرے، نریندر دابھولکر اور اب ایم ایم کلبرگی کے قتل کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔
جواب دیں