بھگوا لہر ٹی وی چینلوں تک محدود کھسک رہی ہے مودی کے پیروں تلے کی زمین؟

غوث سیوانی، نئی دہلی

کیسے بچائیں گے نریندرمودی اپنی حکومت؟ کہاں سے لائیں گے پونے تین سو لوک سبھا سیٹیں؟ کس صوبے میں ہوگی بھاجپا کی جیت؟ ان سبھی سوالوں کا حتمی جواب تو آئندہ 23مئی کو مل جائے گا مگر فی الحال بھگوا لہر ٹی وی چینلوں تک ہی دکھائی دے رہی ہے اور’ مودی بھکت‘ نیوز چینل والے یہ جتانے کی کوشش میں ہیں کہ ایک بار پھر نریندر مودی اقتدار میں لوٹنے والے ہیں جب کہ زمینی سطح پر بھاجپا کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ کسی بھاجپائی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد کا مقابلہ کیسے کریگی بھاجپا؟ کوئی یہ نہیں بتا پارہا ہے کہ بہار کے مہاگٹھبندھن کو کیسے شکست دینگے نریندر مودی؟ کرناٹک میں کانگریس اور جنتادل (سیکولر) نیز مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی اتحاد کو کس سدرشن چکر سے مات دیں گے بھگواوادی؟ مغربی بنگال اور اڈیشا میں ممتابنرجی اور نوین پٹنائک کے مضبوط قلعوں کو کیسے منہدم کریں گے مودی اور شاہ نیزجنوبی ہند میں بھاجپا کی سیٹوں میں کیسے اضافہ ہوگا؟ سوال یہ بھی ہے کہ حال ہی میں جن تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھاجپا کو شکست ہوئی ہے، وہاں چند مہینوں کے اندر دوبارہ اسے سبقت دلانے کا فارمولہ کیا ہے؟سچائی تو یہ ہے کہ اس وقت نریندر مودی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں اور خود کو تیس مارخان سمجھنے والے کو احساس ہوچلا ہے کہ اقتدار میں ان کے دن گنے چنے ہی بچے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ رواں انتخابات میں صرف اترپردیش اور بہار میں انھیں لگ بھگ سو سیٹوں کا نقصان ہوگا۔جھارکھنڈ، مہاراشٹر،راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، آسام، کرناٹک ، گجرات،ہریانہ اور دہلی میں بھی ان کی سیٹیں کم ہونگی۔ 
گجرات میں حالت پتلی
وزیراعظم نریندر مودی اور بھاجپا صدر امت شاہ کی جنم بھومی اور کرم بھومی گجرات ہے مگر یہاں ان کی پارٹی کی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ اس ریاست کی زمین بھاجپا کے لئے سمٹ رہی ہے اور گزشتہ عام انتخابات میں انھوں نے یہاں سے جس قدر سیٹیں پائی تھیں،ان میں کمی واقع ہوگی۔2017کے اسمبلی الیکشن میں بھی پارٹی کی سیٹوں میں کمی آئی ہے اور آج بھاجپا بھکت نیوزچینلوں کے سروے بھی کہہ رہے ہیں کہ اس بار تمام کی تمام 26لوک سبھا سیٹوں پر وہ نہیں جیت پائے گی، کچھ سیٹیں کانگریس کو بھی جائینگی۔ شاید پارٹی نے خود بھی محسوس کرلیا ہے کہ گجرات کے عوام اب جملہ بازیوں سے اوب چکے ہیں ، کسان پریشان ہیں، کاروباری الجھن کا شکار ہیں اور قبائلی حکومت سے مایوس ہیں۔ اسی لئے اب انھیں ’مودی جال‘ کے بجائے امت شاہی جال میں پھنسانے کی کوشش ہورہی ہے۔ فی الحال پارٹی ،امت شاہ کو گجرات کے لیڈر کے طور پر پروموٹ کرنے میں مصروف ہے۔ اسی لئے جب پارٹی کے تمام امیدوار سادگی سے پرچہ نامزدگی داخل کر رہے ہیں تو امت شاہ نے پورے تام جھام سے پرچہ بھرا۔ اس موقع پر وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ،وزیرخزانہ ارون جیٹلی، وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری، شیوسینا چیف ادھو ٹھاکرے، لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام بلاس پاسوان وغیرہ موجود تھے۔ 
بھاجپا کے مشکل وقت
1995 کے اسمبلی انتخابات کے بعد سے ہی گجرات کا اقتدار بی جے پی کے ہاتھوں میں رہا ہے لیکن 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے 22 سال پرانے اقتدار کو چیلنج کرنے والی کانگریس پارٹی بھلے ہی حکومت نہ بنا پائی ہو لیکن نہ صرف اس نے بی جے پی کو 100 کے اعداد و شمار چھونے سے روکا بلکہ اپنی سیٹوں میں اضافہ کر 78 سیٹیں جیتیں۔ گجرات کے سینئر صحافی اجے اومٹ کہتے ہیں، 2014 لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کا اسٹرائک ریٹ 100 فیصد تھا لیکن اس کے بعد پارٹی کو 2017 میں بڑا دھکا لگا۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں، اگر بی جے پی اپنی کارکردگی کو دوہراپاتی تو اسے165 نشستیں ملتیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسے 182 میں سے صرف 99 سیٹیں ملیں اور یہ اس کے لئے بہت بڑا دھکا تھا کہ اس وقت مودی نے گجرات میں 15 دن میں 38 ریلیاں کی تھیں اور امت شاہ کو احمد آباد میں 12۔15 دن رکنا پڑا تھا۔ پارٹی کو ڈر تھا کہ گجرات، اس کے ہاتھوں سے جا رہاہے۔اجے اومٹ کے مطابق کانگریس 10 سیٹوں پر کافی محنت کر رہی ہے اور بی جے پی کے لئے کہ یہ نشستیں مشکل ہو سکتی ہیں۔
اترپردیش ہار رہی ہے بھاجپا
سوال یہ ہے کہ جو بھاجپا اپنے گڑھ گجرات میں پچھڑ رہی ہے ،وہ اترپردیش میں کیا تیر مارلے گی جہاں وہ اپنی روایتی گورکھ پور سیٹ کو ضمنی الیکشن میں ہارچکی ہے۔سچ پوچھوتو2019 کی اصل لڑائی اترپردیش میں ہی لڑی جارہی ہے۔اکھلیش اور مایا کا گٹھبندھن ہر حال میں یہاں جیت چاہتا ہے۔وہ اپنے تمام اختلافات بھلاکر اپنے ووٹ ایک دوسرے کو منتقل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں اور اب تک جن حلقوں میں انتخابات ہوئے ہیں وہاں سے آنی والی رپورٹیں بھاجپا کے لئے زیادہ خوش کن نہیں ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں اتحاد کے بعد، ایس پی اور بی ایس پی اب ووٹرز کو راغب کرنے اور انھیں متحد رکھنے کے لئے ساتھ ساتھ ریلیاں بھی کرہے ہیں۔اس اتحاد میں آرایل ڈی بھی شامل ہے جس کے سبب جاٹ ووٹ بھی اتحاد کے ساتھ آگیا ہے۔ ایسے میں اترپردیش میں بی جے پی کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی نظر آرہی ہے۔ بوا اور ببواکے اس گٹھ جوڑ نے بی جے پی کے حامیوں کی نیندیں اڑا دی ہیں کیونکہ تمام سروے بتاتے ہیں کہ اگر بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے کوئی روک سکتا ہے تو وہ ہے سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا اتحاد۔اگر 2014 کے نتائج کوپیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو چالیس نشستیں ایسی ہیں جہاں دونوں جماعتوں کا مشترکہ ووٹ بی جے پی سے زیادہ ہے حالانکہ آج حالات بدلے ہوئے ہیں۔ مودی لہر کا خاتمہ ہوچکا ہے اور بی جے پی اپنے سب سے مضبوط گڑھ گورکھ پور میں وزیراعلیٰ یوگی کی سیٹ ہار چکی ہے۔ وہ پھول پور اور کیرانہ کی اپنی جیتی ہوئی سیٹیں بھی ہار چکی ہے ،ایسے میں اس کے لئے اترپردیش کی ڈگر بہت کٹھن ہے۔
علاقائی پارٹیوں کے سرتاج؟
2014میں بھاجپا اپنے انتہائی اسکور پر پہنچ گئی تھی۔اب اس سے آگے جانے کا امکان نہیں ہے۔ اسی طرح کانگریس بھی اپنے کم ازکم اسکور پر آگئی تھی اور اب اس کے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ دیانتدارنہ تجزیہ کرنے والے سیاسی ماہرین کو لگتا ہے کہ اگر 2014 کے مقابلے بی جے پی کا ووٹ پانچ فیصد بھی کم ہوا تو وہ لگ بھگ 125لوک سبھا سیٹیں ہار جائے گی۔کانگریس کی سیٹیں یقیناًبڑھینگی مگرشاید وہ ڈیڑھ سو سیٹوں تک بھی نہ پہنچ سکے۔ علاقائی پارٹیاں سب سے زیادہ فائدہ میں نظر آرہی ہیں مثلاً سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی،ٹی آرایس،آر جے ڈی، ترنمول کانگریس، بیجوجنتادل، ڈی ایم کے اور این سی پی وغیرہ۔ظاہر کہ ایسے میں کنگ میکر کے رول میں علاقائی پارٹیاں ہی ہونگی۔ ایم آئی ایم صدر اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ اگلی حکومت علاقائی پارٹیوں کی ہوگی‘۔ ان کایہ بھی دعویٰ ہے کہ علاقائی پارٹیو ں میں مودی اور راہل سے زیادہ باصلاحیت لیڈرہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت مودی لہر نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس وقت ملک میں کوئی لہر نہیں ہے۔ یہ لوک سبھا انتخابات کھلے ہونگے، ہر انتخابی حلقے کے لئے الگ جنگ ہوگی۔ اویسی نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 543 لوک سبھا سیٹوں میں سے 100 سیٹوں پر بی جے پی اور کانگریس کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے، لیکن، 320 سے زیادہ سیٹوں پر بی جے پی، کانگریس اور علاقائی پارٹیوں کے درمیان سہ رخی جنگ ہے۔ انہوں نے کہا، علاقائی پارٹیاں قومی سیاست میں اہم کردار ادا کریں گی۔ 2014 میں ہم نے 280 سے زائد نشستیں این ڈی اے کو دیں، اس سے پہلے یو پی اے حکومت کو 210 نشستیں دیں۔ اس سے کیا ہوا؟ نتائج کا انتظار کریں، کرناٹک میں کچھ سیٹوں کو چھوڑ کر، پانچ جنوبی ریاستوں میں بھاجپا کو زیادہ فائدہ نہیں ہو گا، جن میں 130 لوک سبھا حلقے شامل ہیں۔
بہت کٹھن ہے ڈگراقتدار کی
’’کانگریس مکت بھارت ‘‘اورپچاس سال تک اقتدار میں رہنے کا خواب دیکھنے والوں کے لئے موجودہ سیاسی حالات بہت مشکل ہیں۔ عوام میں کاناپھسی چل رہی تھی کہ ووٹنگ مشینوں میں گڑبڑی کر بھاجپا ایک بار پھر اقتدار میں آجائے گی مگر وی وی پیٹ کے استعمال کے بعد یہ بھی آسان نہیں لگ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے بعض فیصلوں پر انگلی ضرور اٹھائی گئی ہے اور اس پر بھاجپا کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگاہے مگر باجود اس کے بی جے پی کو جس قدر نقصان پہنچ رہا ہے، اس کی بھرپائی ، معمولی انتخابی گڑبڑی سے کسی بھی طرح ممکن نظر نہیںآتی۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

22اپریل2019(فکروخبر)

«
»

رمضان کے مہینے کا استقبال کیسے کریں؟

بابری مسجد کا انہدام۔ پرگیہ ٹھاکر کے فخریہ کلمات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے