نتیجے کے طورپر پورے ملک میں اقلیتوں میں ایک خاص قسم کی بے چینی پائی جارہی ہے،انھیں محسوس ہورہاہے کہ اس ملک کے سیکولر آئین نے انھیں اپنے مذہب پر عمل کرنے،اپنے ادارے قائم کرنے،اپنی پسند کی تعلیم حاصل کرنے کی جو آزادی دی ہے،اسے سلب کرنے کی دانستہ کوششیں شروع ہوچکی ہیں اور انھیں آئین نے جو حقوق دیے ہیں،ان پر قدغن لگانے کی سازش کی جارہی ہے اور انھیں دوسرے درجے کا شہری بناکر غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کی خطرناک حکمتِ عملی پر کارروائی کا آغازہوچکاہے۔زیادہ پیچھے نہ جاکر صرف چند مہینوں میں اس ملک میں جو ماحول بنانے کی کوشش ہوئی ہے،اس نے صرف مسلمانوں اور اقلیتوں کوہی مضطرب نہیں کیا ہے بلکہ دیگر اقوام اور ملکوں نے بھی اس کا نوٹس لیاہے جس سے اس ملک کی امیج بگڑنے کا خطرہ بھی لاحق ہوگیا ہے،آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ زعفرانی ٹولے کے ان بیانات اور حرکات کا مقصد کیا ہے؟
گذشتہ ہفتہ کے کالم میں مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کے اس بیان پر گفتگو ہوئی تھی جس میں انھوں نے دہلی کی ایک انتخابی ریلی میں رام زادوں (ہندووں)کوچھوڑکرملک کے بقیہ تمام لوگوں کو حرام زادہ قرار دیاتھا۔قارئین جانتے ہیں کہ کم ازکم ہمارے ملک میں یہ لفظ کسی مہذب گفتگو کا حصہ نہیں بن سکتا چنانچہ ملک میں اس بیان نے ایک طوفان مچادیا اور پارلیمنٹ سیشن کے پانچ قیمتی ایام اس کی نذر ہوگئے لیکن غیر مہذب گفتگو کرنے والی ان مرکزی وزیر کی رسمی معافی کے علاوہ اورکچھ بھی نہ بگاڑا جاسکا۔ابھی یہ طوفان چل ہی رہاتھا کہ اسی بھگوا ٹولے کے دل میں ایک نئی تمنا نے انگڑائی لی اور وہ کسی بھی قیمت پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے احاطے میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کا یوم پیدایش منانے پر بضدہوگئے،جنھوں نے بقول اس جماعت کے یونیورسٹی کو بطور عطیہ یا لیز کے طورپرکوئی قطعۂ اراضی فراہم کرایاتھا۔یہ مسلم دانش گاہ ان کی نظروں میں پہلے سے ہی کھٹکتی رہی ہے،ایک نیابہانہ تلاش کرکے نئے سرے سے اس پر ضرب لگانے کی کوشش کی گئی۔پھر میڈیا کا سہارا لے کر یونیورسٹی انتظامیہ پر یہ الزام عائد کیاگیا کہ یونیورسٹی کی لائبریری میں طالبات کو مطالعہ کی اجازت نہیں ہے۔مقصدصرف یہ تھا کہ یونیورسٹی کو بدنام کرکے کمزور کیاجائے،وہ انتظامیہ اور خاص طورسے وائس چانسلر جنرل ضمیرالدین شاہ کی فہم و فراست کی وجہ سے حالات بگاڑنے کی سازش ناکام ہوگئی ورنہ معاملہ طول پکڑتا تو اس کے نتیجے میں ممکن تھا کہ جان و مال کا نقصان ہوتا یا تعلیمی سیشن بھی ضائع ہوسکتا تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی آڑمیں ملک بھر کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑتوڑنے کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک آگرہ سے ایک ایسی خبر آئی جس سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے جسم و روح میں خوف کی ایک تیزلہرسرایت کرگئی۔واقعہ یہ تھا کہ آگرہ کے نواح میں واقع ایک جھونپڑپٹی میں آباد بالکل ہی ناخواندہ کم و بیش ۶۰؍خاندانوں پر مشتمل۳۰۰؍مسلما نوں کو ان کا مذہب تبدیل کرواکرہندوبنانے کا دعویٰ کیاگیا۔خبروں میں دکھایاگیا کہ ٹوپی پہنے چند مسلمان ہون کی ایک تقریب میں عملی طورپر شریک تھے اور ان کے ماتھوں پر ٹیکے لگائے جارہے تھے۔ہندوتنظیموں نے یہ دعویٰ کیاکہ یہ مسلمان اپنی مرضی سے ہندو دھرم میں داخل ہوتے ہیں لیکن بعد میں اخبارات اور ٹیلی ویژن کی رپورٹوں اور خود تبدیلیِ مذہب کی اس سازش کا شکار ہونے والے مسلمانوں نے بتایا کہ انھیں راشن کارڈ،پلاٹ وغیرہ کا لالچ دے کر وہاں بلایاگیا تھا،انھیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ان کے خلاف سازش کی جارہی تھی۔وہ محض یہ سمجھتے رہے کہ کسی بڑے لیڈرکی آمدکی تقریب میں وہ شرکت کر رہے ہیں جو انھیں راشن کارڈوغیرہ فراہم کرادے گا۔بعد میں انھیں ٹیلی ویژن چینلوں سے پتہ چلاکہ وہ ہندو بنادیے گئے ہیں۔دھوکہ اور فریب سے مذہب تبدیل کرانے کی قلعی کھلنے کے بعد وہ سارے مسلمان جنھیں ہندو بنانے کا دعویٰ کیاگیا تھا،یہ کہتے نظرآئے کہ انھیں بے وقوف بنایا گیاہے،ان کے باپ دادابھی مسلمان تھے اور وہ اب بھی مسلمان ہیں۔بھگوا تنظیموں کی اس منظم کارروائی سے بظاہرانھیں کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن وہ ملک بھر کی اقلیتوں کو جوپیغام پہنچانا چاہتی تھیں،وہ بخوبی پہنچ چکاہے۔یہ تنظیمیں اپنی حرکتوں کے لیے چہارجانب سے مذمتوں کے باوجود نہ شرمسار ہیں اور نہ ان کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔اس دوران ان کا یہ اعلان بھی سامنے آچکاہے کہ۲۵؍دسمبریعنی عین کرسمس کے دن علی گڑھ میں پانچ ہزار عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہندوبنایا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ پہلے ہندوہی تھے لہذا ان کا مذہب تبدیل نہیں کرایا جارہاہے بلکہ ان کی گھر واپسی ہورہی ہے۔یہ تنظیمیں مقامی انتظامیہ کے سخت رویہ کے باوجود پوری بے خوفی سے اپنے خوف ناک پروگرام پر عمل کرنے پر آمادہ نظرآرہی ہیں۔اسی دوران آگرہ میں تبدیلیِ مذہب کے واقعے کے بعد اتر پردیش کے ہی ضلع بستر میں۳۳عیسائی کنبوں کا مذہب تبدیل کرادیاگیاہے۔
اس ملک کا آئین سب کو اپنے اپنے مذہب پرعمل کرنے کی آزادی دے رہاہے۔دھوکہ،فریب،لالچ یا ڈرادھمکاکرکسی کا مذہب تبدیل کروانا اخلاقی اعتبار سے بھی ایک لائقِ مذمت کارروائی ہے اور قانوناً جرم بھی ہے لیکن جن لوگوں کو یہ احساس نہ ہو کہ اس وقت ملک میں جمہوری نہیں بلکہ ہندووں کی حکومت ہے اور حکومت ہندوتوکے فروغ کے لیے غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکتوں کوبھی نظرانداز کرے گی تو ظاہر ہے کہ ان کے حوصلے تو بلند ہی ہوں گے۔
ہندوتنظیموں کے یہ فتنے یہیں نہیں ختم ہوجاتے۔خود بی جے پی کے اترپردیش کے سربراہ لکشمی کانت باجپئی کو یہ بیہودہ دعویٰ کرنے میں ذرابھی تامل نہیں کہ تاج محل کسی قدیم مندر کی زمین پرتعمیر کیاگیاتھا۔کوئی بھی باشعور شخص اس دعویٰ کو ایک بھونڈے مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں دے سکتا لیکن جو لوگ ہندوتوا نظریہ پرمبنی ان تنظیموں کے شرسے واقف ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ رام جنم بھومی ہونے کے فرضی دعوے کی بنیاد پر بابری مسجد کو شہید کردینے والوں کی نظر میں اب تاج محل بھی کھٹک رہاہے۔ایسے ہی ایشوزنے بی جے پی کو آج مرکزمیں اقتدار کے مسند پر بٹھایاہے تو ظاہر ہے کہ مزید توانائی اور استحکام کے لیے ان کو ایسے ہی ایشوزکی مسلسل ضرورت رہے گی۔اور اس ملک میں ان کی کمی بھی نہیں ہے۔ چنانچہ اب انھیں مسجدوں سے اذان کی آوازیں بھی صوتی آلودگی پھیلانے کا سبب معلوم ہورہی ہیں اور دہشت گردوں سے تعلق کے الزام میں جمعیۃ علمائے ہند جیسی مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم پر پابندی کے بھی مطالبے کیے جارہے ہیں۔اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان سب حرکتوں کے پیچھے مقصدہندوووٹوں کا پولرائزیشن ہے اور یہ سب کچھ کم ازکم پانچ سال تک تو کسی روک ٹوک کے بغیر چلتا ہی رہے گا۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم ان فتنہ انگیزیوں کو نظرانداز نہ کریں اور خود کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ان فتنہ انگیزیوں کو اگر ہم سردست اپنے لیے خطرہ نہ مانیں تو بھی یہ کم ازکم یہ خطرہ کا الارم ضرور ہیں اور باتدبیر قومیں ہمیشہ شرسے بھی خیر کے پہلو نکال کر اپنا مستقبل سنوارتی ہیں اور اپنی آیندہ نسلو ں کابھی۔یہ قابلِ فخر بات ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کثیرآبادی ہے لیکن زیادہ اچھا یہ ہوتا کہ ہم میں مسلمانوں والی خوبیاں بھی ہوتیں،ہم محنت و مشقت کے بجائے آرام اور سہل پسندی سے کام لینے لگے ہیں،مغربی ملکوں میں مسلمان کم تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے مذہب پر زیادہ سختی سے عمل کر رہے ہیں،وہاں مسلم والدین میں اپنے بچوں کو دین کے راستے پر چلانے کی فکر ہمہ وقت دامن گیر ہوتی ہے کیوں کہ وہاں معاشرہ مختلف ہے اور معمولی لاپرواہی بچوں کو غلط راستے پر ڈال سکتی ہے چنانچہ وہاں کی مساجد اور اسلامی مراکزمیں ہفتہ،اتواراور تمام تعطیلات کے دنوں میں بچوں سے لے کرہر عمرکے لوگوں میں تعلیم و تربیت کے لیے لگاتار کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ایسی ہی کوشش اب یہاں بھی زیادہ شدت سے شروع ہونی چاہیے۔آگرہ کے واقعے میں ہم نے دیکھا کہ ہندو تنظیموں کی سازش کا شکار بننے والے سادہ لوح مسلمان بے انتہا غریب ہونے کے ساتھ ساتھ بالکل ناخواندہ بھی تھے،اپنے آس پاس نظر دوڑائیں، ایسے ہی ناخواندہ اور نام نہاد مسلمانوں کی خاصی تعدادہر جگہ ملے گی۔اگر ہم نے اُن پر اب بھی محنت نہ کی،اُنھیں لازمی تعلیم اور اسلام کے بنیادی ارکان سے واقف نہ کرایا تو ظاہر ہے کہ ہندوتوا تنظیموں کا اگلانشانہ ایسے ہی مزید مسلمان ہوں گے۔
جواب دیں