بے وطن لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں

خاص طور پر گزشتہ چند برسوں میں کئی ممالک جنگ کی تباہ کاریوں سے شدید طور پر متاثر رہے ،ان ممالک میں خوف و دہشت کے ساتھ ساتھ ملک کی اقتصادی حالت بے حد خراب ہونے کی وجہ سے بھی ان ممالک کے شہری ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ UNHCR (United nation high commissioner for refugee ) نے ایسے ساٹھ ممالک کا سروے کرنے کے بعد جو رپورٹ پیش کی ہے ۔ وہ بہت ہی تشویشناک ہے ۔اس رپورٹ کے مطابق 2014 ء تک جنگ اور ظلم و تشدّد اور قتل و خون کی وجہ کر تین کروڑ اسّی لاکھ افراد کو اپنے وطن سے ہجرت کرنا پڑا ہے ۔ 2014 ء سے ہر روز تقریباََ تیس ہزار لوگ اپنا ملک چھوڑکر مختلف ممالک کی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔ ایسے ممالک میں سیریا کے 76 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں ۔ افریقی ممالک میں اس سے بھی زیادہ بُری حالت ہے ۔ سوڈان سے تقریباََ 13 لاکھ ، کانگو اور نائیجیریا میں قریب 20 لاکھ ، میانمار کے 10 لاکھ لوگوں کے ساتھ ساتھ ملائشیا،لیبیا،افغانستان، یونان ،ٹیونیشیا، لیٹویا، آئیوری کوسٹ، تھائی لینڈ،ڈومینیکن جمہوریہ ، بھوٹان، فلسطین، لیبیا وغیرہ سے بھی جنگی جبر و ظلم اور تشدّد یا خانہ جنگی سے تنگ آکر اپنے وطن کو چھوڑنے پر لوگ مجبور ہوئے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزیں ایجنسی کے مطابق اٹلی میں بھی اس سال اب تک 46500پناہ گزیں پہنچ چکے ہیں ، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے بارہ فیصد زیادہ ہیں ۔سرحدی ادارے فرنیکس کے مطابق رواں برس میں کم از کم 153000 تارکین وطن نے یورپ میں داخلے کی کوشش کی ہے اور یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباََ 150 فیصد زیادہ ہے ۔ اسی طرح 2014 ء کے دوران ہنگری میں تقریباََ 43000 تارکین وطن کو آباد کیا گیا تھا ،جبکہ 2012 ء میں ایسے پناہ گزینوں کی تعداد صرف دو ہزار تھی ۔ بوڈا پیسٹ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال میں ہنگری میں ساٹھ ہزار تارکین وطن داخل ہوئے تھے ، جن میں زیادہ تعداد سربیا سے آنے والوں کی تھی ۔ چند دن قبل برسلز میں تارکین وطن سے متعلق رات گئے تک جاری رہنے والے اہم اجلاس میں یہ فیصلہ لیا گیا ہے کہ ساٹھ ہزار تارکین وطن کو یورپ کے مختلف ممالک اپنا یئنگے ۔ اجلاس کی صدارت کرنے والے یورپی کانسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے اس موقع پر بتایا ہے کہ اٹلی اور یونان میں موجود تارکین وطن میں سے چالیس ہزار کو آئندہ دو برس کے دوران دیگر یورپی ریاستوں میں بسایا جائے گا اس کے علاوہ اس عرصے میں بیس ہزار ایسے تارکین وطن کی بازآبادکاری کی جائے گی ،جن کے آبائی ممالک خانہ جنگی سے متاثر ہیں ۔ 
جس طرح دنیا کے بیشتر ممالک پر جنگ کے بادل منڈرا رہے تھے اور کچھ ممالک جنگ سے نبرد آزما تھے ۔ان حالات میں بڑے پیمانہ پر لوگ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہونگے ۔ ایسے دشوار گزار، نامساعد اور ناگفتہ بہہ حالات کے پیدا ہونے کی دھمک کو 2014ء سے قبل ہی اقوام متحدہ نے بہت شدّت سے محسوس کر لیا تھا اوراپنے ایک فیصلہ کے بعد4 ؍دسمبر2000ء کو یہ اعلان کیا تھا کہ ہر سال 20 جون کو عالمی سطح پر’ یوم مہاجرین‘ منایا جائیگا ۔ جسے 20 جون 2001 سے نافذ کرتے ہوئے یہ عزم کیا گیا کہ مہاجرین کے مسائل کے تدارک کے لئے سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کر مثبت لائحہ عمل تیار کر ایسے مہاجرین کی بازآبادکاری کے لئے کوششیں کی جائینگی ۔ ساتھ ہی ساتھ جن ممالک میں مہاجرین پناہ گزیں ہیں ، ان ممالک کی حکومتوں کو اس بات کا احساس کرایا جائے کہ ہجرت پر مجبور مہاجرین بھی انسان ہیں ، ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا غیر انسانی عمل نہیں ہونا چاہیے ۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انتونیو گوٹیرس نے استنبول میں سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے ان تمام ممالک سے جہاں مہاجرین پناہ گزیں ہیں یا پناہ لینا چاہتے ہیں ،سے گزارش کی ہے کہ ان تمام ممالک پر یہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مہاجرین کو نہ صرف پناہ دیں ، بلکہ ان کی حفاظت بھی کریں ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ خلیجی ممالک کی طرح اور دنیا کے دیگر حصوں کی طرح یوروپی یونین بھی اپنی سرحدیں مہاجرین کے لئے کھول دیں ۔ انتونیو گوٹیرس نے شامی مہاجرین کو ترکی کی جانب سے پناہ دئے جانے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دیگر ممالک کو بھی ایسی مثال پیش کرنا چاہئے ۔ لیکن افسوس کہ اقوام متحدہ کے اس ادارہ UNCHR کی ان کوششوں کا کوئی خاص اثر دیکھنے کو ملا ، نہ ہی ’عالمی یوم مہاجرین ‘ کے موقع پر ہی ایسا کچھ دیکھنے کو ملا ، جس سے کہ بے پناہ اور بے بس مہاجرین کچھ تقویت ہوتی۔ بلکہ سابق فرانسیسی صدر سرکوزی نے غیر قانونی طور پر یورپ آنے والے ہزاروں تارکین وطن کے بارے میں ایک ایسا غیر انسانی بیان دیا کہ وہ خود اپنے اس بیان کی وجہ کر شدید تنقید کے نشانہ بن گئے۔ بیان میں سرکوزی نے ایسے تارکین وطن کو پھٹے پائپ سے ابلنے

والا پانی قرار دیاہے، جو گزشتہ چند برسوں کے دوران بڑی تعداد میں یورپ کی جانب رخ کرنے اور بحریہ روم کے راستے اٹلی ، یونان اور مالٹا پہنچے پر مجبور ہوئے تھے ۔ ایسے تارکین وطن کا تعلق اکثر شمالی افریقہ یا مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہوتا ہے ۔ سرکوزی کے اس بیان پر گرچہ سوشلسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ فرانسیسی صدر فرانسوا والس نے یہ کہہ کر اپنی ناراضگی جتا ئی ہے کہ سیاست دانوں کو عوامی سطح پر بحث میں احتیاط پسندی سے کام لیتے ہوئے سخت نوعیت کے بیانات سے اجتناب کرنا چاہئے۔ سرکوزی ہی کی طرح ، لیکن مہذب اور خوبصورت الفاظ میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انتونیو گوٹریس سے ، اپنے ملک پاکستان میں گزشتہ 35 برسوں سے تقریباََ 16 لاکھ سے زائد اندراج شدہ پناہ لئے افغانستان کے مہاجرین اور اتنی ہی تعداد میں غیر قانونی طور پر پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہنے والے افغانیوں کے سلسلے میں کہی ہے کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کی میزبانی ایک مقدس فریضہ سمجھ کر کی ہے اور ان کی باعزت وطن واپسی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور ان لوگوں کی وطن واپسی کے سلسلے میں جامع حکمت عملی بنائی جا رہی ہے ۔ نواز شریف نے انتونیو گوٹریس سے یہ بات اس وقت کہی جب انتونیو گوٹریس پاکستان اپنے سہ روزہ دورہ پر پاکستان میں موجود افغانی مہاجرین سے اظہار یکجہتی کے لئے گئے ہوئے تھے ۔ کاش کہ نواز شریف 1971 سے بنگلہ دیش میں(مشرقی)پاکستان کے د دو لاکھ سے بھی زیادہ مہاجروں کے سلسلے میں بھی ایسی ہمدردانہ اور انسانی جذبے کا اظہار کرتے ۔ جو بنگلہ دیش کے مختلف دیہی علاقوں میں لگا ئے گئے ایک سو سے بھی زائد کیمپوں میں جانوروں سے بھی بد تر زندگی اس امید پر گزار رہے ہیں کہ جلد ہی ان کا ملک پاکستان انھیں اپنی پناہ میں لے کر انھیں ساری سہولیات دے گا، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا ۔ اس معاملے میں بھارت کی مودی حکومت نے ایک مثالی کام ابھی حال ہی میں یہ کیا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے ایسے ہندو مہاجرین ، جو اپنے قدیم ملک ہندوستان واپس آنا چاہتے تھے ، انھیں سینکڑوں کی تعداد میں 1965 کے بعد واپس بھارت لے آئی ہے ۔ واپس آنے والے یہ لوگ اس تختی کے ساتھ واپس بھارت آئے کہ ’ ہم نے ملک بدلا ہے ، ہندو دھرم نہیں بدلا ہے ‘ ۔ ایسے لوگوں کا ملک میں خیر مقدم بھی کیا گیا ہے ۔ اس عمل سے حکومت پاکستان کو سبق لینا چاہئے اور بلا تاخیر وہ بنگلہ دیش میں کئی دہائیوں سے بڑی کسمپرسی کے عالم میں اور جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار نے والے ،ساتھ ہی ساتھ حکومت بنگلہ دیش کی نفرت اور عدم توجہی کے شکار ، اپنے شہریوں کو اپنے ملک واپس بلا لے۔ بنگلہ دیش میں میانمار کے لاکھوں کی تعداد میں کئی دہا ئیوں سے پناہ لئے روہنگیا مہاجرین کے بارے میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت نے بڑی سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان مہاجرین کو اپنے ملک میانمار واپس جانا ہی ہوگا ،اب مذید انھیں پناہ نہیں دی جا سکتی ہے۔ ادھر میانمار کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ سارے روہنگیائی مسلمان دراصل بنگلہ دیش کے ہی کے شہری ہیں ، ان کے لئے میانمار میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اس طرح یہ مہاجرین شٹل کارک کی طرح ادھر سے ادھر ہو رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ ایسے غیر انسانی روئے سے نہ صرف انسا نیت پامال ہوتی ہے ، بلکہ آپسی اتحاد و اتفاق بھی مجروح ہوتا ہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایسے ممالک کے درمیان آپسی رنجش وخلش بھی بڑھتی جاتی ہے ، جس کا انجام بہرحال اچھا نہیں ہوتا ہے ۔ جنگ تک نوبت آتی ہے، اور ایسی جنگوں سے جو صورت حال پیدا ہوتی ہے ، اس کا بخوبی اندازہ 2014 ء کے آس پاس ہونے والی جنگوں اور ان سے ہونے والی تباہیوں و بربادیوں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے ۔ حال کی ان جنگوں میں یہ بات بھی بہت شدت سے محسوس کی گئی ہے کہ جنگ کا نشانہ بننے والے ممالک کے ساتھ ساتھ جنگ پر آمادہ ملک بھی فائدہ میں کم اور خسارہ میں زیادہ رہتا ہے ۔

«
»

اسامہ بن لادن کے قید و بند کا ڈرامہ

ہم چراغوں کوڈراتے ہو،یہ کیا کرتے ہو؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے