بانجھ سرکار بیٹیوں کے گنہگاروں کو بیچ چوراہے پہ پھانسی دے…….
احساس نایاب (شیموگہ،کرناٹک)
بیٹی تو صرف بیٹی ہے!
وہ نہ تو ہندو ہےنہ مسلمان ہے اور نہ ہی سکھ یا عیسائی ہے،
بیٹی کو مذہب میں نہ بانٹو،
اس کو تعصب سے نہ دیکھو
یہ جنت سے اتری ہوئی شہزادی ہے،
اس کی آمد سے کائنات مسکراتی ہے،
بیٹی تو صرف بیٹی ہے
یہ نازک سی کلی، شبنم میں دھلی ہے
گندی نگاہوں سے اسے میلا نہ کرو
معصوم کو اپنی ہوس کے لئے قربان نہ کرو
ڈولی کی جگہ اس کا جنازہ نہ اٹھواؤ
بدنصیب کی نعش پہ سیاست کرکےزمانے بھر میں اس کا تماشہ نہ بناؤ
بیشک بیٹی تو بیٹی ہے، چاہے وہ کٹھوا کی 8 سالہ آصفہ ہو، دہلی کی نربھیا، اناؤ کی 17 سالہ معصوم جس کے ساتھ زیادتی کی گئی اور انصاف مانگنے پر بھاجپا کے وزیر نے پولس کسٹڈی میں ہی اُس کے والد کا قتل کروادیا اور کئی بار اس مظلوم پہ جان لیوا حملہ کروایا گیا، یا مہاراشٹر کی وہ آٹھ گونگی، بہری بچیاں جن کا عرصے سے جنسی استحصال ہورہا تھا لیکن افسوس وہ اپنا درد تک بیان نہ کرسکیں اور وقت کے ساتھ زمانہ نے بھی انہیں بھلا دیا، یا اترپردیش علی گڑھ کی ڈھائی سالہ ننھی سی ٹوینکل شرما، مدھیہ پردیش میں اپنے والد کے پہلو میں سورہی پانچ سالہ گڑیا اور محض 20 دن کی وہ ننھی سی پری جس کے سر پہ ڈنڈا مار کر قتل کردیا گیا تھا لیکن افسوس ہزاروں بیٹیوں کو کھونے کے باوجود آج تک یہ سلسلہ تھما نہیں …… نہ ہی کسی ریپسٹ درندے کو سزائے موت سنائی گئی ……..
ایسے میں جس ملک کا کا قانون ہی اندھا ہو وہاں اس طرح کے گھناؤنے جرائم پر روک لگے گی بھی تو کیسے ؟؟؟
اب تو دن بہ دن ان وحشیوں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں….. پرسوں ہی کا واقعہ لے لیں کس طرح حیدرآباد میں ایک خاتون ویٹنری ڈاکٹر کے ساتھ ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کھیلا گیا، پاشا، نوین، کیشب اور شیوا نامی ان چار حیوانوں نے اُس 26 سالہ لڑکی سے پہلے تو جبرا گینگ ریپ کیا اور اس کے بعد انتہائی بے رحمی اور سفاکی سے اُس معصوم کو زندہ جلاکر قتل کردیا گیا………. ہندوستانی عوام ابھی اس خوفناک واقعہ سے ابھری بھی نہ تھی کہ پرسوں راجستھان میں محض 6 سالہ بچی کا ریپ کرکے قتل کردیا گیا، اس کے علاوہ چھتیس گڑھ میں بھی ایک خاتون کی جلی ہوئی لاش ملی ہے اور یہ سلسلہ ہر ریاست کے ہر شہر اور قصبے میں دھڑلے سے جاری ہے ……..
اب تو سمجھ نہیں آتا کہ آخر کس کے درد پہ آنسو بہائیں، کس کے نام پہ ماتم کریں، اللہ جانے آخر یہ سلسلہ کہاں جاکر ختم ہوگا ؟
جدھر دیکھو ہوس، لوٹ مار، قتل و غارت گری عروج پر ہے، خواتین اپنے گھروں میں بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کررہی ہیں، معصوم بچیاں کبھی غیروں کے ہاتھوں تو کبھی خود اپنوں کے سفاک ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہورہی ہیں ……..
اور جب اس طرح کے واقعات سنتے ہیں تو روح کانپ جاتی ہے، پورے وجود پہ لرزہ طاری ہوجاتا ہے، نظروں کے آگے اپنی معصوم ہنستی کھیلتی بچیوں کے چہرے آجاتے ہیں جو زمانے کی گندی ذہنیت سے انجان اپنی محدود دنیا میں بےفکر مستقبل کو لے کر کئی خواب سجارہی ہیں، آخر اس معاشرے اور ایسے ماحول میں ہم اپنی بہن بیٹیوں کو کیسے ان درندوں سے بچائیں، کیسے ان کلیوں کے محافظ نگہبان بنیں، کیسے ان کے مستقبل کو سنواریں جبکہ چاروں جانب ہوس بھری نگاہوں نے ڈیرہ جمایا ہوا ہے، گھروں سے لے کر اسکول، کالجز، ہسپتال، پولس اسٹیشن یہاں تک کہ مندر، آشرم جیسی عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں ہیں اور نہ ہی پولس، پچاری و اقتدار پہ بیٹھے، اور اعلیٰ عہدوں پر بر اجمان اثر و رسوخ کے گھمنڈ میں مبتلا سیاستدانوں میں شرافت، ہمدردی و انسانیت باقی ہے ………….
ایسے میں دن بہ دن بڑھتے جنسی استحصال کے واقعات نے ہر اُس شخص کی نیند اُڑا دی ہے جو صاحب اولاد ہیں، جن کے گھر بہنوں سے آباد ہیں ……. کیونکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والی کسی بھی نام، عمر، رنگ وروپ، قد کاٹھ، شہر، خاندان یا کسی بھی مذہب سے کیوں نہ تعلق رکھتی ہوں، ہیں تو سبھی بنت حوااور جب ان بیٹیوں میں سے کوئی بھی ظلم و زیادتی کا شکار ہوتی ہیں تو ہر انسان کا دل کانپ اٹھتا ہے، خاص کر ایک ماں کا دل رکھنے والی خاتون کے لئے تو یہ درد ناقابل برداشت ہوجاتا ہے اور جب اُس کے آس پاس کسی معصوم کو ہوس کا شکار بناکر ساری دنیا کے آگے اُن کے ساتھ کی گئی ظلم و بربریت کی داستان چیخ چیخ کر سنائی جاتی ہے تو اُس پل کسی بھی صنف نازک کے لئے ایسی کوئی زمین میسر نہیں ہوتی جہاں پہ وہ شرم سے گڑ جائے، کیونکہ عصمت دری ایسا گھناؤنا فعل ہے جس کے تصور سے ہی جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، بھلے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی کے ساتھ ہی کیوں نہ کی گئی ہو …….
ایسے میں جس معصوم کے ساتھ اس طرح کا حادثہ رونما ہوتا ہے اُس کا درد اُس کی اذیت کو زبانی بیان کرپانا ناممکن ہے ……..
مگر ستم ظریفی تو دیکھئیے! انصاف کی آڑ میں اُن معصوموں کا بار بار استحصال کیا جاتا ہے، کبھی پولس تھانے میں، کبھی عدالت میں تو کبھی میڈیا کے ذریعہ ہر گلی چوراہوں میں اس بدنصیب کی بربادی کی داستان کو فرنٹ پیج پر مسالہ دار نیوز بناکر لوگ اس کے چٹخارے لیتے نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ ہسپتال میں بھی ان کے اہل خانہ کی عزت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور اتنی ساری رسوائی برداشت کرنے کے بعد بدلے میں ملتا کیا ہے ٹھینگا ……….
دراصل مردوں کی اس دنیا میں آج عورت کا وجود محض کھلونا بن کر رہ گیا ہے، ہر غلطی ہر گناہ کی قیمت بےگناہ صنف نازک کو چکانی پڑتی ہے، کبھی اپنی عصمت لٹاکر تو کبھی اپنی جان دے کر..
ایک سروے کے مطابق دن میں کم سے کم 5 خواتین کی عصمت تار تار کی جاتی ہے ……..
وہیں مظلوم ہوتے ہوئے بھی اُسی عورت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، کبھی ان کے لباس کو لے کر تو کبھی ان کی شخصیت کو لے کر ان پہ کمنٹ پاس کئے جاتے ہیں جیسے بھاجپا کے ہی کئی وزراء نے اپنے بےتکے بیانات میں کہا ہے جن میں سے بھاجپا کے ایک وزیر نے تو یہاں تک کہا تھا کہ لڑکیاں چھوٹے لباس پہن کر لڑکوں کے جذبات بھڑکاتی ہیں …….. یہاں پہ ہمارا ایسی بیمار سوچ والوں سے ہے …….. بیشک عورت پہ پردہ لازم ہے اور وہ پردہ اُس کا محافظ ہے جو زمانے کی بُری نظروں سے اس کو محفوظ رکھتا ہے لیکن 2 سال، 3 سال، 5 سال اور 6 ماہ کی بچیوں کو کونسا لباس پہنائیں ؟؟؟؟
افسوس جس ملک کے سیاستدانوں کی ذہنیت اور اُن کی سوچ اتنی گھٹیا ہے کہ 8 سالہ بچی کا ریپ کرنے والے درندوں کے دفاع میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جہاں قانون ساز خود ریپسٹ ہیں، اُس ملک کو ریپسٹ انڈیا کا لقب ملنا کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے …… کیونکہ آج کشمیر سے لے کر کنیا کماری، بنگال سے گجرات تک ہر جگہ خواتین کی عصمت پامال کر اُن کا قتل کیا جارہا ہے …… مگر موجودہ بھاجپا سرکار اس پہ روک لگانے، اس کے خلاف سخت قانون نافذ کرنے سے قاصر ہے دراصل انہیں اس بات کا خوف ہے کہ اگر انہوں نے ریپ کے لئے سزائے موت کا قانون بنادیا تو پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے تمام بھاجپائیوں کو جیل میں چکیاں پیسنی پڑینگی اور پھانسی کے پھندوں پہ انکی گردنیں ہونگی ………..
اس لئے یہ جاہل سرکار اپنی کرتوتوں اور ناکامیوں کو چھپانے کی خاطر ملزم کو سزا دلوانے کے بجائے طلاق بل پاس کرواکر خود کو تیس مار خان ثابت کرنے پہ تلی ہے جبکہ یہ جن ہتھکنڈوں کو اپنی جیت سمجھ رہی ہے دراصل وہی ان کی سب سے بڑی ناکامی ہے ……. کیونکہ آج یہ جاہل 4 نکاح جیسے عظیم احکام کو ختم کرنے، جائز رشتے کو ناجائز اور ناجائز رشتوں کو جائز قرار دینے کی جو غلطی کررہے ہیں آج وہی ملک میں بڑھتے جنسی استحصال کی سب سے بڑی وجہ ہیں
یہاں پہ ہمیں کسی کی کہی بات یاد آرہی ہے
” جس معاشرے میں ہوس پانچ سال کی بچی کو بھی نہ بخشے وہاں پہ طوائف کا وجود ایک نعمت ہے ”
اگر اس خیال کو صحیح طریقے سے سوچیں تو جہاں بےراہ روی حد سے بڑھ جائے، جہاں انسان جنسی تسکین کے لئے حیوانیت پہ اتر جائے تو ایسے ماحول کو پاکیزہ رکھنے کے لئے لیوان ریلیشن شپ، ہم جنسیت کو ختم کرکے ہر بالغ لڑکے کا جلد از جلد نکاح کروا دینا چاہئیے اور ہر صاحب استطاعت مرد کو چار نکاح کرنے کی اجازت دینی چاہئیے تاکہ وہ اپنی خواہشات جائز طریقے سے اپنے گھر میں پورے کرے نہ کہ جانور کی طرح باہر منہ مارتا پھرے ……. لیکن افسوس جس ملک کے حکمراں رنڈوے، بےاولاد ہوں،وہ نہ اولاد کا درد سمجھ سکتے ہیں نہ ہی ازدواجی زندگی کے اصول سمجھ سکتے ہیں اور جس نے کبھی اپنا گھریلو نظام نہیں سنبھالا، اُس کے ہاتھوں ملک کی باگ ڈور دے دی جائے تو اُس ملک کا بیڑاغرق ہوتے دیر نہیں لگتی ……..
لیکن جس کی آنکھوں پہ مذہبی تعصب و اسلام نفرت کا چشمہ لگا ہووہ اسلامی احکامات کی گہرائی کو کیسے دیکھ پائے گا بلکہ یہ گنوار ہر مدعے کو مسلمانوں سے جوڑ کر مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کرنے میں لگ جائینگے …… جیسے ڈاکٹر ریپ اور قتل معاملے میں 4 ملزمان میں بدنصیبی سے ایک پاشا نکل گیا جو ہماری نظر میں ہرگز ہرگز مسلمان نہیں ہوسکتا، لیکن اس کو بھی مسلمانوں سے جوڑا جارہا ہے اور بقیہ تین ہندو لڑکوں پہ اس ایک کو فوقیت دی جارہی ہے ………
جبکہ انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئیے کہ نربھیا سے لے کر آج تک جتنے بھی ریپ کیس سامنے آئے ہیں اُن سبھی میں 90 فیصد خود بھاجپائی اور سنگھی شامل ہیں لیکن آج ان کی حرکتیں ایسی ہیں جیسے اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ……..
مگر ان کم بختوں کو تو خیر منانی چاہئیے کیونکہ ہندوستان میں ہمیشہ سے مسلمانوں کا وجود زندہ جاوید ہے جس کی وجہ سے ہندوستانی خواتین کل بھی محفوظ تھیں آج بھی محفوظ ہیں اور ان شاءاللہ تاقیامت محفوظ رہینگی …… صدیوں سے ان کی پکار پہ ان کے مددگار محافظ بن کر کبھی محمد بن قاسم تو کبھی صلاح الدین ایوبی جیسے اسلام کے شیر سمندر وادیاں پار کرکے آئے اور ہوس کے پجاری سنگھیوں کے جنم داتا برہمنوں کے ظلم و ستم سے خود ان کی عورتوں کو نجات دلوائی، ان شاءاللہ مستقبل میں بھی ہمارے ہی مسلم بھائی اپنی ہندوستانی بہنوں کے محافظ نگہبان بن کر ان کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کردینگے مگر اپنی بہنوں پہ آنچ تک آنے نہیں دینگے اور اگر کبھی کوئی اس طرح کی حیوانیت کرتا بھی ہے تو وہ ہرگز مسلمان نہیں ہے بلکہ بیشک وہ بھی سنگھیوں کی ہی پیدائش ہے جس کو مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے مہرے کی طرح استعمال کیا گیا ہے ………..
بہرحال
ہر صنف نازک کے گنہگاروں، انہیں روند کر مسلنے والے وحشی درندوں کو عبرت ناک سزا ملنی چاہئیے جسے دیکھ کر شیطان بھی پناہ مانگے، چاہے وہ کوئی شیوا ہو یا پاشا، ہر درندہ کو بر سرعام چوراہے پہ ٹانگ کر بھوکے گدھوں کو ان پہ چھوڑ دینا چاہئے ……
کیونکہ کسی نام سے کسی کا گناہ کم نہیں ہوجاتا، گنہگار ہر حال میں گنہگار ہی ہے جس کا کوئی مذہب دھرم نہیں ہوتا یہ شیطان کی پرستش کرنے والے شیطان کے پیروکار ہوتے ہیں جو ہرگز انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں اور ایسوں کو انسان کہنا بھی انسانیت کو بدنام کرنا ہے ………….
اس لئے ہم اپنی بات کو دوہراتے ہوئے کہیں گے کہ ایسے درندوں کے لئے بس ایک ہی سزا ہونی چاہئے، انہیں برہنہ کر سرعام چوراہے پہ لٹکا کر ان کے اوپر گِدھوں کا جھنڈ چھوڑدیں تاکہ وہ ان کے جسموں کو نوچ نوچ کر کھائیں اور یہ خوفناک منظر رہتی دنیا تک عبرت کا مقام بن جائے جسے دیکھنے کے بعد اور کوئی بھاجپائی کلدیپ سنگھ، چنمیانند، بابا رام رحیم، آسارام، پاشا اور شیوا جیسا ریپسٹ کسی بیٹی کی طرف نظر اٹھانے کی بھی جراءت نہ کرے اور اس طرح کی گھناؤنی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے ……..!
جواب دیں