بیٹے کے نام پر سوز خط

وہ ایوان میں کھل کر ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں کی تنقید کرتے تھے ، جس کی بنا پر ان کے قتل کا الزام مخالفین بھٹو اور اس وقت صوبہ پنجاب کے گورنر غلام مصطفی کھر پرپر عائد کر تے رہے ۔ ان کو ۸جون۱۹۷۲ء کو سیاسی انتقام کی بنیاد پر قتل کیا گیا ۔ درج ذیل خط کی اصلاحی افادہ عامہ کے پیش نظر اسے ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے۔ 
*بنام:میاں محمد ابوبکر صدیق ڈیرہ غازی خان
پیارے بیٹے!تم پر اللہ تعالی کی طرف سے سلامتی ہو۔ اللہ تعالی تمہیں اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔
مجھے تم سے کئی باتیں کرنے کی فرصت نہ ملی اور نہ میں تمہاری تعلیم و تربیت پر کچھ توجہ دے سکا۔ میرے اس رویے سے تم یہ نہ سمجھنا کہ میں تمہارے حال سے بے پرواہ اور غافل ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ساری دنیا ایک باغ اور ایک گلشن ہے۔ اس میں اللہ نے اپنے مالی اور باغبان بھیج کر پودے لگائے اور انہیں کانٹ چھانٹ کر درست کرایا۔ انہیں اچھے پھلوں کے پیوند لگائے۔ ایک ایک کرکے اچھے سے اچھا مالی آتا رہا اور اپنا کام کرتا رہا۔ اس طرح اس باغ کو اجاڑنے ،اس سے گل چینی کرنے، پھل توڑنے، شاخیں مروڑنے اور اپنے پتے کاٹنے کے لئے بھی کچھ غارت گر لوگ موجود رہے۔ہر بناو اور سدھار کے ساتھ ایک بگاڑ اور ہر بگاڑ کے ساتھ ایک بناو اور سدھار کا سلسلہ جاری ہے، یہاں تک کہ آج ہمارا دور آگیا ہے۔ اب باغ کی رکھوالی اور گلشنِ حیات کی نگہبانی ہم جیسے کم کوش اور کوتاہ دست نااہل لوگوں پر آپڑی ہے۔ کام اتنا عظیم اور کرنے والے اتنے کمزورپھر اگر رات دن بغیر کسی توقف اور آرام و آسائش کی خواہش کے کام نہ کیا گیا تو بگاڑ اس درجہ بڑھ جائے گا کہ پھر معاملہ کسی کے بس کا نہیں رہے گا اور نہ معلوم پھر چمنستانِِ حیات کا مالک کیا فیصلہ کرے، ممکن ہے مالیوں اور باغبانوں کی کوتاہی اور بگاڑ کی زیادتی سے تنگ آکر وہ سرے سے اس باغ کو ہی ختم کر دینے کا فیصلہ کرلے تو پھر اسے اپنے فیصلے پر عمل کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ اس لئے میری مصروفیت کی یہ دو وجوہ ہیں۔
دوسرے لوگوں کے ساتھ مجھے بھی اس باغ کے مالک نے مالی اور نگران مقرر کردیا ہے۔ اب میرا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اس اعتماد اور بھروسے کے قابل ثابت کروں جو مجھ پر کیا گیا ہے کیونکہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے نتیجے میں مجھے صرف انعام ہی نہیں ملے گا بلکہ اگر میں فرائض میں کوتاہی کروں گا تو سزا بھی ملے گی!
جس باغ کا میں ذکر کررہا ہوں اس میں انسانی حیات کے پودے لگتے ہیں، ان پر کردار کے پھول کھلتے ہیں اور حسن و عمل کے پھول لگتے ہیں اور پھولوں کی کاشت، نرسری کانٹ چھانٹ ان کی جگہوں کی تبدیلی ان کیلئے موسم اور ماحول کی سازگاری وغیرہ کا ایک عظیم اور انتھک مسلسل کام ہے جس میں کوئی چھٹی اور غفلت مجرمانہ کوتاہی کے ہم معنی ہے! 
پیارے ابوبکر!تم بھی اس باغِ دنیا کے ننھے سے پودے ہو۔ صرف تمہاری کاشت اور تنصیب تو کوئی کام نہیں ہے۔ ایسے بے تکے اور بے سلیقہ کاشت کار ، آندھیاں اور جھکڑ روز آتے ہیں لیکن اس سے جنگل پیدا ہوتے ہیں، باغ نہیں لگائے جاتے۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہاری پرورش کے لئے اس باغ کا ماحول اور موسم سازگار کروں، ورنہ تم اور تم جیسے لاکھوں پودے اور پھول مرجھا جائیں گے اور اگر میں سارا کام کاج چھوڑ کر صرف تمہارے نگرانی میں لگ جاوں اور عام باغ کی افزائش اور نگرانی سے کوتاہی کروں تو اول تو فرائض میں کوتاہی کا مجرم سمجھا جاوں گا، دوسرے یہ بات نتیجے کے لحاظ سے تمہارے لئے مفید ہونے کی بجائے الٹا نقصان دہ ہوگی کیونکہ جب باغ میں تباہی کے عام آثار پیدا ہوں گے، پودوں کی زمین اپنی نمی اور زرخیزی کھو بیٹھے گی، پانی کے بہم رسانی کا نظام درہم برہم ہوجائے گا، کانٹ چھانٹ نہ ہونے کے وجہ سے باغ ایک جنگل کے صورت اختیار کرجائے گا اور بڑے درخت چھوٹے پودوں کو پھلنے پھولنے نہ دیں گے۔بادِ سموم کے ایسے جھکڑ باغ میں داخل ہوجائیں گے جس سے ایک طرف سارے نرم و نازک پودے مرجھاکر سوکھ جائیں گے تو دوسری طرف تیز آندھیوں کے عمل دخل سے بڑے درخت بھے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے کیونکہ حفاظتی تدابیر ختم ہوچکے ہوں گی۔ ان حالات کا نتیجہ سارے باغ کی تباہی ہے۔ جب باغِ حیات کا نظام یوں بگڑ جائے گا تو تم کہاں پرورش پاوگے؟
پیارے صدیق !اگر میں تمہارے لئے ایسا گھر بنا ڈالوں جہاں زندگی کی ساری سہولتیں اور نیکی و بھلائی کی عام فضا موجود ہو، ہر طرف تقوی ، عبادت کے خوشبو مہک رہے ہوں تو ہمسایہ کے گھر بجنے والے ریڈیو اس پر گائے جانے والے فحش گانے کو کیسے بند کروں گا؟جب تم صبح و شام باہر محلے کے گلی کوچے میں نکلو گے تو بھی وہاں تمہارے ہم عمر لڑکوں کو گالی گلوچ ،بدزبانی مار دھاڑ ،چوری چکاری اور بداخلاقی کے مظاہروں سے کیسے روکوں گا؟ کبھی بازار میں تمہیں سودا سلف لانے جانا پڑے تو دکاندار کی بے ایمانی اور بددیانتی او ر ہیرا پھیری تمہیں متاثر کرے گیسڑک کے ہر چوک گلی کی ہر نکر پر نیم برہنہ فلمی تصاویر آویزاں ہیں، چھوٹے چھوٹے تمہارے عمر کے بچے سینما کے بورڈ اٹھائے ہوئے فحش فلمی گانے گاتے پھرتے ہیں! اسکول میں جا وگے تم اگر لائق ہوئے تو استاد کہے گا کہ فلاں نالائق لڑکے کا سوال حل کرکے معائنہ کے دن دکھادینافلاں لڑکے کو نقل کرادینا اور اگر نالائق ہوئے تو استاد تمہیں دوسروں کے حوالے کردے گا۔ اسکول میں تم چوری لڑائی جھگڑا، بدزبانی، استادوں کی بے عزتی بے احترامی اور نہ جانے کیا کیا سیکھو گیاور پھر کالج میں اسکول سے کئی گنا زیادہ خطرناک ماحول ملے گا،مخلوط تعلیمخدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فراموش کردینے والی تعلیمدین ، آخرت، قرآنغرض یہ کہ دین کی ایک بنیاد وہاں ڈھے جائے گی۔ کالج کی تعلیم کے بعد کیا کرو گے؟ ملازمت میں رشوت بددیانتیکام چوری ،بے ضمیری، بے جا خوشامداور ایک غلط کار نظام کی چاکری، تجارت میں بے اصولیزیادہ کمانے کے خواہش، اشیا میں ملاوٹ حساب کتاب میں گھپلا گاہکوں سے جھوٹ موٹ کی قسمیں، بلیک مارکیٹنگ اسمگلنگ وغیرہ۔
زمینداری اور کاشتکاری کرو گے تو زمیندار کاشتکار کے مال و جان اور عزت و آبرو کا دشمن ملے گا اور کاشت کار زمین کیلئے چور ملے گا صنعت و کارخانہ داروں اور مزدوروں کے طرف بڑھو گے تو کارخانہ دار اور سرمایہ دار کو ظالم و جابر اور مزدور کا خون چوسنے والا اور فنی ہیرا پھیری سے قوم کی جیب کاٹنے والاپاو گے اور مزدور کو جوڑ توڑ ہنگامہ ہڑتال اور جلتے جلاتا ہوا پاو گے!پیارے بیٹے! اب کہو کہ تم کہاں رہو گے اور کیا کرو گے؟یا گھٹ گھٹ کے مرجاو گے یا پھر مرغ بادنما کی طرح ہوا کے رخ پر چلنے لگو گے، نتیجہمجھے کیا ملا تمہارا باپ بن کر اور تمہیں کیا ملا میرا بیٹان بن کر؟!قوم کے لاکھوں بچوں میں سے تم ایک ہو،میں لاکھوں کو چھوڑ کر ایک کا کیسے ہورہوں۔ یہ تو اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ ہمارے اوپر ایک خالص اسلامی حکومت موجود ہو، اسلامی معاشرہ تعمیر ہوچکا ہو تو پھر ایک بہترین طاقتور اجتماعی مرکزی ادارے کی موجودگی میں ہم اپنے انفرادی تعمیر میں حصہ لے سکتے ہیں بلکہ اس وقت تو کرنے کا کام بھی یہی رہ جاتا ہے کہ ہر آدمی اپنے اپنے کام لگ جائے۔ چونکہ سب کے کاموں کا نتیجہ ایک جیسا نکلتا ہے اس لئے سب کا کام ایک ہی کھاتے میں جمع ہوجاتا ہے۔میرے لخت جگر!میں تمہارے لیے وہ صبح بہار لارہا ہوں جس میں کونپلیں پھوٹتی ہیں، شگوفے کھلتے ہیں، کلیاں پھول بنتی ہیں اور پھرپھولوں میں پھل لگتے ہیں تم کئی دفعہ مجھے جیل میں آکر مل کر گئے ہو، جب تک اسلام آزاد نہیں ہوتا میری جگہ یہی جیل خانہ ہے۔ یا اسلام کو آزاد کرا کے چھوڑوں گا یا پھر خود بھی اسلام کے ساتھ قید و بند قبول کئے رکھوں گا!میں نے تمہیں اپنی منزل اور اپنی راہ دکھادی ہے۔ اگر میرے جانشین بننا چاہو تو یہی راستہ ہے، ابھی سے تیاری کرنا شرو ع کروہر فرعون کے لئے ایک موسی ہے اور ہر موسی کے لئے ایک فرعون ہے اور موسی کامیاب رہا ہے اپنے رب کے فضل و کرم سے اور فرعون ڈوب مرا اپنے رب کی نافرمانی سے۔پنی والدہ کی خدمت کرو، بہن بھائیوں سے لڑائی جھگڑا نہ کیا کرو۔ تعلیم میں محنت کرو، اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کرنے کے کوشش کرو !تبرک اور تعلیم کے لئے میں تمہیں وہی نصیحت کرتا ہوں جو حضرت لقمان نے اپنے لڑکے کو کی تھی اور وہ نصیحت خدا کو اتنے پسند آئی کہ اس نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اسے وحی کیا۔ اچھی طرح سنو اور اس پر عمل کی بنیاد بناو اس نصیحت اور ہدایات کوخوب اس اچھی طرح اپنے ذہن نشین کرلوکہ یہ تمہاری زندگی کااوڑھنابچھونابن جائے!
۔خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرواس کی ذات صفات حقوق و اختیار میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔خدا کا شکر ادا کرو ۔ اپنے والدین کے احسان فراموشی نہ کرو کہ انہوں نے تمہیں جنا، پالا پوسا اور تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا۔ خدا کے بعد والدین کا حق سب سے بڑا حق ہیلیکن اگر والدین کے حقوق خداکے حقوق سے ٹکرا جائیں تو پھر اللہ کا حق باقی رہ جانے والا ہے۔ اس کے سامنے سب کے حقوق ہیچ ہیں۔جو لوگ اللہ کی طرف جانے والے راستہ پر چلیں ان کا ساتھی بنناکہ یہی کامیابی کے راہ اور منزل مراد ہے۔
۔چھپے ہوئے اور ظاہر ہر حال میں خدا سے ڈرتے رہو کیونکہ ہر چھوٹا بڑا کام اس کے نگاہ میں ہے اور قیامت کے روز ان کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دے گا۔۔نماز کی پابندی رکھنا کیونکہ نماز برے کاموں سے روکتی ہے اور اس کے ذریعے بندے کے نفس کی صفائی ہوتی ہے اور اپنے رب کے حضور اظہار بندگی کا موقع ملتا ہے۔خدا کے بندوں کو نیکی کی تلقین کرنا اور برے کاموں سے روکنا، یہ بہت بڑی بات ہے۔ ہر وہ کام نیکی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنے کا حکم دیا ہے ہر وہ برائی اور منکر ہے جس کے کرنے سے خدا اور اس کے رسولؓ نے منع کیا ہے ۔اس پر تم خدائی فوجدار بن کر کھڑے ہوجانا۔ اپنی زبان دل اور ہاتھوں سے جیسا موقع پاو جیسے حالات ہوں کام لو۔
۔راہ حق میں مشکلات اور مصائب پر صبر کرو۔ اس لئے کہ بے صبری ایک مومن کے عزم و ہمت اور مقام سے فروتر ہے بلکہ صبر نہ کرنا سخت ناشکری ہے اور بعض اوقات اس کے شدت کفر تک پہنچادیتی ہے ۔لوگوں سے محبت اور شفقت سے پیش آنا،ہر وقت غرور یا تفوق سے منہ بسورے نہ پھرنا اور گال پھلائے نہ رہنا۔زمین پر ایک مسلم مومن کی چال چلنا یعنی ایک بندے کی طرح عجز و انکساری فروتنی اور خاکساری کی چال چلنا، وقار سے قدم جما کر چلنا، زمین پر پاں مار مار کر اکڑ کر چلنا غرور و تکبر کے چال ہے جو خدا کے مطیع و فرمانبدار بندوں کے چال نہیں اور اللہ اسے پسند نہیں کرتا۔کسی کے ساتھ کلام کرتے وقت خوش خلقی متانت آہستگی اور نرم زبانی کا رویہ اختیار کرنا، زور سے آواز نکالنا چیخ چیخ کر رعب ڈال کر باتیں کرنا اللہ کو پسند نہیں ہے ،اس لئے کہ اونچے آواز گدھوں اور بے عقلوں کی آواز ہے جوخلق اور خدا کی ناپسندیدہ زبان اور آواز ہے۔فی الحال اسی پر قناعت کرو اور اس پر عمل کرو ! میں چاہتا ہوں کہ تم دین اور دنیا دونوں شعبوں میں اعلی تعلیم پاو۔ اسلام کے اعلی اقدار و روایات کے مطابق تمہاری تربیت ہوتمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہارا نام کس ذات مبارک کے نام پر رکھا ہے۔ اس لئے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و فرمان کے بعد ہمیشہ حضرت ابوبکر صدیق کی سیرت کو سامنے رکھنا ،وہ تمہارے لئے آئینہ ہے۔
والسلام
ڈاکٹر نذیر احمد 
ڈسرکٹ جیل ڈیرہ غازی خان
بروزہفتہ صفرالحرام ھ جون 
مقدور ہوں تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج پائے گراں مایہ کیا کئے
آئیے اس نوازش نامے کے آئینے میں خو دکو دیکھیں ،کیاہم بھی اپنی اولادکیلئے یہی چاہتے ہیں؟

«
»

ایک تھا بادشاہ

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے