کیف کااحساس ہوتا ہے اسے لفظوں کا پیکر عطانہیں کیا جا سکتا صرف محسوس کیا جا سکتا ہے ۔لیکن بیچارے سادہ دل میرے اہلِ خانہ کو اس سے کیا انہیں تو بس !میری جان کی فکرستاتی ہے ،وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ مجھ پہ کوئی آنچ نہ آئے ،زمانے کے ستم سے میں محفوظ رہوں۔
’’ایک روز پتہ نہیں کیوں ابّو کو کیا سوجھی انہوں نے مجھ سے کہا۔ بیٹا!رات گئے گھر سے دور نہ رہا کرو ،مجھے بہت ڈرلگتاہے ،خلافِ توقّع ابّو کی زبان سے یہ جملہ سن کر مجھے سخت حیرانی ہوئی ،کیونکہ میرے ابّو اتنے کمذور دل کے انسان نہیں ہیں کہ اتنی معمولی سی بات کو جذباتی انداز میں بیان کرتے،انہیں میں نے بچپن ہی سے حددرجہ مضبوط حوصلے کا مالک انسان پایا ہے،لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہنا ،مریض کی عیادت کرنا،عام تو عام خون سے لت پت لاشوں کوبھی کاندھا دینا،اس کی حفاظت کا سامان پیدا کرنا ،یہ سب ابّو کی وہ خصوصیات رہی ہیں جو انہیں آج بھی بھری بستی میں منفرد کرتی ہیں،دن کا اجالا ہو یا رات کی تاریکی،موسم سردہویاگرم،اگر کئی شخص ابّو کومدد کے لئے پکار لے تو گھر میں کسی کی کیا مجال کے ان کو جانے سے روک لے شاید رب تعالیٰ نے فطری طور پر ان کے قلوب میں انسانیت نوازی کا جذبہ پیوست کر کے رکھ دیا ہے ،میں دل ہی دل ان کے ان اقدام کوتحسین بھری نظروں سے دیکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں اللہ ان کا سایہ ہمارے سروں پر تا دیر باقی رکھّے۔ آمین۔
ابّو نے مذکورہ جملہ جتنا جذباتی ہوکر کہاتھا میں نے اس کو اپنے جواب سے اتنا ہی ہلکاکردیا ،میں نے کہاآپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ مجھے دس جگہ آئے دن پروگرام وغیرہ میں شرکت کی غرض سے جانا پڑتا ہے ،سواری کا کیا ٹھکانہ کب ملے نہ ملے،کسے شوق ہے دیر رات تک گھر سے دور رہنے کا؟مجبوری ہی کے سبب تاخیر ہوتی ہے میں جان بوجھ کر کبھی ایسا نہیں کرتا ’اگر ایسی بات ہے ڈرہی لگتا ہے تو گھر سے باہر بھی مت نکلنے دیجئے کیونکہ سڑکوں پہ گاڑیاں چلتی رہتی ہیں ،ممکن ہے وہ مجھے ٹھوکر ہی ماردے اور کوئی بڑا حادثہ رونما ہوجائے وغیرہ وغیرہ……انہیں شاید یہ میرا غیر متوقّع جواب گراں گزرا سی لئے ایک سمجھدار ،حالات کی نبض سے واقف متّجر گارجین کی طرح انہوں نے طویل خاموشی اختیار کر لی ،ایسی خاموشی جس میں بیچارگی ،بے بسی ،حالات کا کرب،زمانے کادرد،ایک حسّاس اور دردمند باپ کا اضطراب شامل ہوتا ہے، ا س کے بعد کچھ نہ بولے ۔میں اپنے جواب سے پوری طرح مطمئن تھا اوراندر ہی اندر یہ سوچ کر خوش تھا کے چلو ابّو کی ٹوک ٹاک سے ہمیشہ کے لئے نجات مل گئی۔لیکن بستر پہ دراز ہونے کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے ابّو کے جملے دل کی تہوں میں بیٹھ گئے ہوں ،رہ رہ کر ان کا اداس چہرہ،بے چارگی میں ملبوس ان کا جملہ،مجھے بری طرح بے چین کرنے لگا۔رات کا نصف حصّہ گزرچکا تھا،پرشور بستی میں ہر طرف سنّاٹا پھیلا ہوا تھا،نیند میری پلکوں سے کوسوں دور تھی،دل کسی انجانے خوف سے بری طرح کانپنے لگا ،کیونکہ مجھے اپنے ابّو کے جملوں میں ملک عزیز ہندوستان کے ان حالات کے مارے ،ابتلاء وآزمائش کے جہنّم میں جل رہے ،بوڑھے مظلوم مسلمان والدین کا کرب جھانکتا ہوا نظر آیا جنہوں نے اپنے بیٹوں کو اس خوش فہمی میں گھر سے رخصت کیا تھا کہ انکا لال ان کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل میں کوشاں رہے گا،ان کے حسین سپنوں کو حقیقت کا لباس پہنا کر دم لے گا، ان کے بوڑھاپے کی لاٹھی بن کر ہر قدم پر ان کے ساتھ رہے گا ، ان کے بچّے اپنے والدین کے خوابوں کو شرمندہء تعبیرکرنے کے لئے مضبوط حوصلے کے ساتھ گھر سے نکلے تو ضرور ، لیکن لوٹ کر واپس نہیںآئے اور آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں،اور صورتحال یہ ہے کہ کوئی ان کے حق میں دو لفظ بات کرنے کو تیّار نظر نہیں آتا،ان کے ساتھ کیا ہورہاہے ؟جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود کیوں جیل کی بند کوٹھریوں میں ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ؟ان کے والدین اپنی زندگی کے شب وروز کیسے بسر کر رہے ہیں؟ان کی رہائی کے لئے کونساراستہ ڈھونڈا جائے ؟اس طرح کے ان گنت سوالات ہیں جو ملک کے ہرذی شعور ،حسّاس ،زندہ دل،غیرت مند ،مسلمانوں کو دعوتِ فکر دیتے ہیں،ملک کے عام مسلمان گارجین کس حد تک سہمے ہوئے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ لوگ تعلیم یافتہ با لیاقت بچّوں کو بھی گھر سے رخصت کرنا نہیں چاہتے ،وہ خوف محسوس کرتے ہیں ،انہیں اس بات کا خدشہ ستاتا ہے کہ کہیں ان کے بچّے بھی اسلام دشمنوں کے ہتھّے نہ چڑھ جائیں،مسلم سماج میں دہشت کی جو یہ فضا برسوں سے چھائی ہوئی ہے یہ اسی وقت ختم ہوگی جب ہم اپنے عمومی مسائل کو بھی خصوصی سمجھیں گے،کسی بھی بڑے مسائل کو بھول جانے کی غلطی ہمیں مستقبل میں کتنی بڑی مصیبت سے دو چار کر سکتی ہے،اس کے تصوّر سے ہی جگر کانپ اٹھتا ہے ۔
جواب دیں