بیش بہا خوبیوں کے پیکرمولوی سیّد نقیب یس کے

 

از: عبدالغفور ہسونڈی 

۔۔ الحمد للّٰہ کفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی امابعد !
قال عزوجل :۔ کُلُّ نَفْسٍۢ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ ٱلنَّارِ وَأُدْخِلَ ٱلْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا ٱلْحَيَوٰةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا مَتَٰعُ ٱلْغُرُورِ 

 دنیا میں مذہب کا نبیوں کا خدا کی وحدانیت کا حتی کہ خدا کی ذات کا انکار کرنے والے بھی آئے لیکن آج تک کسی نے موت کی حقیقت سے روگردانی اختیار نہ کی موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں انسان جہاں کہیں بھی رہے جب اس کا وقتِ مقررہ پورا ہو جاتا ہے تو موت اسے وہیں دبوچ لیتی ہے چاہے وہ پہاڑ کی چوٹی پر ہی کیوں نہ ہو أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ ٱلْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِى بُرُوجٍۢ مُّشَيَّدَةٍۢ 
 ایسا ہی ایک موت کا حادثہ ہمارے  چہیتے ساتھی مولوی سید نقیب کے ساتھ پیش آیا۔
 مرحوم کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے سب کا پریشانی سے حال بے حال تھا ہی لیکن جب خبر موصول ہوئی کہ مرحوم دار فانی سے کوچ کر گیا " إنا لله وإنا إليه راجعون "
( يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ))
اس حادثے نے سب کے ہوش اڑا دیے سب کے دلوں کو مغموم کر دیا میں تو غم کی تاب نہ لا سکا غم کے مارے کندھا ڈھونڈتا رہ گیا جس پر سر رکھ کے اپنا غم ہلکا کروں۔ 
 
۔۔ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں ۔۔
 ۔۔ مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں ۔۔

 جب قلب حزیں کو قرار آیا اور ضبط غم تھوڑا سا ہلکا ہوا تو ذہن میں مرحوم کی خوبیاں ہی خوبیاں گردش کرنے لگی جن خوبیوں کا مفصل ذکر کل ٢٠ربیع الاول ١٤٤٤ھ بروز پیر کے تعزیتی اجلاس میں ہوا جو کہ مرحوم اور مرحوم کے اعزّاء و اقارب کے تعزیت میں منعقد کیا گیا تھا۔ تعزیتی اجلاس میں محبین دوست احباب کے علاوہ اساتذہ اورعلماء کرام بھی شریک رہے علمائے کرام اور اساتذہ نے اکلوتے فرزند کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے پر مرحوم کے والدین کی محنتوں اور کاوشوں کو سراہا اور جنت میں ان کو اعلی سے اعلی مقام اور آخرت میں عزت و شرف کی خوشخبری سنائی متعلقین و محبّین نے اپنے تاثرات میں مرحوم کے بیش بہا اعلی صفات کا تذکرہ کیا جن میں بعض صفات لوگوں میں عیاں تھے مثلاً: ہر ایک سے خوش دلی و  خندہ پیشانی سے ملاقات کرنا خاص کر اپنے ساتھیوں سے ہنسی مذاق و دل لگی کرنا ہر وقت سب کو ہنساتے رہنا، ضرورت پڑنے پر ہر ایک کے کام آنا  اور بعض صفات اخلاص اور للّٰہیت کےحامل تھے مثلاً: مخفی طور پر غریبوں میں صدقہ و خیرات کرنا اسی طرح دیگر دینی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور اپنے مال کا مصرف فی سبیل اللّٰہ کو بنانا۔
 اپنے ساتھیوں سے ملاقات کرکے ان کی خیریت کے علاوہ ان کی مالی حالت کو پوچھنا  اگر کوئی محتاج ہو تو حتی المقدور اس کی مدد کرنا ہمہ وقت دن ہو یا آدھی رات اپنے والد کے کام میں ہاتھ بٹانا۔
 مرحوم بچپن ہی سے نمازوں کی پابندی کا اہتمام کرتے تھے نماز کے بعد بارگاہِ خداوندی میں ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا و مناجات میں مشغول رہتے تھے مرحوم ایک عالم دین تھے ہی ساتھ ہی ساتھ اپنے استاد کے مشورے سے حفظ قرآن میں بھی مشغول تھے دورانِ تعلیم جب کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تو صبر و ضبط سے کام لیتے تھے جب تعلیم کا وقت ہوتا تو دل جوئ اور یکسوئی کے ساتھ تعلیم میں مشغول رہتے تھے اہل اللہ کی قدر و منزلت کو پہچان کر ان کی قدر احترام اکرام کرتے تھے ان سے تعلق بنانے اور ان سے مربوط رہنے کو پسند کرتے تھے ہر ایک سے اچھی باتیں سننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی حتی الامکان کوشش کرتے تھے ۔ 

 السَّعِيدُ مَنْ وُعِظَ بغَيْرِهِ.(نیک بخت وہ ہے جو دوسروں سے عبرت حاصل کرے) 

مجبین نے تو مرحوم کےاعلی صفات کا تذکرہ کیا لیکن مرحوم جاتے جاتے پیغام دے گئے کہ کسی کے ظاہر کو دیکھ کر اس کے تقوی کا معیار نہ جانچنا کبھی اپنے دل میں کسی کے تعلق سے حسد بغض کینہ نہ رکھنا  ہر ایک سے خوش دلی سے ملاقات کرناجب تک دنیا میں رہو مخلص بن کر رہنا ہر ایک کے کام آنا اور ہمیشہ آخرت کے لیے زادِ راہ ساتھ لینے  کی فکر کرتے رہنا۔۔ 

 اللّٰہ تعالی سے دعا ہے کہ اللّٰہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا کرے۔۔ آمین

«
»

اللّٰہ کے نزدیک ناپسندیدہ لوگ

مقصد کے تعین کے بغیر اجتماعیت اور اجتماعیت کے بغیر کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے