برسوں لگی رہے ہیں جب مہر و مہ کی آنکھیں ** تب کوئی ہم سا صاحب صاحب نظر بنے ہے

تحریر : مفاز شریف ندوی

کہتے ہیں آج سے ستر برس پہلے بھٹکل کی سرزمین بدعات اور من گھڑت رسومات کی وجہ سے بے نور ہوگئی تھی، سورج ہر دن طلوع ہوتا اور ضیا پاشی کرتا، اس کی کرنیں ہر گھر میں داخل ہوتیں، رات میں موم کی بتیاں یا تیل کی مدد سے جلنے والی چمنیاں اندھیروں سے برسر پیکار رہتیں، صبح کی خنک ہوائیں راہ گیروں کو، گھر کے باہر مختلف مشاغل میں مصروف مرد عورتوں کو ٹھنڈک پہنچاتیں، غربت اور افلاس کی گرد اگرچہ اکثر چہروں پر اٹی رہتی مگر اطمینان اور تشکر کی صفت دلوں میں پائی جاتی تھی، بارش کے موسم میں جب موسلا دھار بارش ہوتی، زمین سبزے کا ستر پہن لیتی اور ہر جگہ رنگ برنگے پھول کھلتے اور آنکھوں کو فرحت بخشتے تھے، ناریل کے درختوں پر کثرت سے ناریل کی پیداوار ہوتی، اور دسیوں قسم کے پکوان اس کے ذریعے تیار ہوتے تھے، اتنے قسم کے ناشتے بنائے جاتے دوسرے شہر والوں نے چشم تصور سے بھی نہ دیکھا ہوگا، عصری علوم کا ایک ادارہ انجمن حامی مسلمین قائم تھا جو روشنی بکھیر رہا تھا، کئی دلوں میں امید کے دیے جلا رہا تھا، جس کا بانی دین کی محبت اور رسول کی عقیدت سے سرشار تھا، قوم کی خدمت کے جذبے سے شرابور تھا، عوام کی نگاہوں سے دین کا شفاف اور منور چہرہ اب تک مخفی تھا، آبادی بھی کچھ زیادہ نہ تھی، یہاں وہاں منتشر گھر آباد تھے جن سے سادگی اور فقر مترشح تھا، دولت کی گنگا ایک دو گھر کے آنگن میں بہتی ہو تو ہو ورنہ کھانے کے لیے روٹی اور پہننے کے لیے کپڑا میسر تھا، مدرسے کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں دین داری نہ تھی، دین سے محبت تو تھی مگر ان بدعات اور رسومات کو بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے، تیار نہ تھے ؟ وہ تو اسے دین کا حصہ سمجھتے تھے، اہل بدعت کے یہاں اب جو باتیں رائج ہیں ان کو تصور میں لائیے، میں کن کن کا تذکرہ کروں، بیچارے مجبور بھی تھے، صحیح روشنی ملتی کہاں سے؟ کوئی مدرسہ نہیں! حافظ نہیں! مولوی نہیں! کچھ افراد تھے جن کو تھوڑی بہت دین کی معلومات حاصل تھیں، وہ دینی قیادت سنبھالے ہوئے تھے، کچھ افراد میں فکرمندی اور حمیت دینی جوشاں اور خروشاں تھی، اس مسئلہ کے حل کے لیے مسلسل کد و کاوش کر رہے تھے، آخر ایک دن ایک مکان پر جامعہ کے نام سے مدرسہ کی بنا رکھی گئی، پڑھنے کے لیے طلبا دو تین! ان میں ایک لڑکا وہ تھا جو محی الدین منیری کے بیان سے متاثر ہوکر یہاں آیا تھا، اپنے خاندان والوں سے لڑ کر آیا تھا، بہت ہوشیار تھا، ذہن چالاک اور جذبۂ بیباک سے مخمور تھا، اسکول کے اساتذہ اس کی استعداد کے معترف تھے، خاندان والے کہہ رہے تھے: کیوں اپنے مستقبل کو تاریک کر رہے ہو؟ مدرسے میں پڑھ کر کیا ملنے والا ہے؟ مگر اس کے دل میں اطمینان اور ذہن میں سکون برقرار تھا، ندوے کی طرف سے مولانا عبد الحمید ندوی بھی بھیجے گئے تھے، سال گزرتے گئے اور وہ لڑکا اپنے ترقی کے مدارج طے کرتا رہا، اسکے بعد اعلی تعلیم کے لیے ندوے بھی گیا اور کچھ سال پڑھ کر آیا، کہتے ہیں: علی گڑھ میں ادیب کامل کی سند بھی حاصل کی، جو اس زمانے میں انتہائی قابل ذکر بات تھی، چہرے پر داڑھی اور علم کا نور، دل میں اپنے وطن کی قسمت کو چمکانے کا عزم مصمم!
لوگ اس نوجوان کو مولوی اقبال کہنے لگے، ان کی لیاقت کی بنا پر جامعہ میں استاد مقرر کیے گئے، مختلف فنون میں مہارت کے ساتھ فقہ شافعی میں زبردست درک حاصل تھا، آٹھ نو سال جامعہ میں اپنے علم کو تقسیم کرتے رہے، کہتے ہیں: یہ دور جامعہ کا زریں ترین دور ہے، مولوی اقبال کے پاس پڑھنے والے شاگرد اب بھی ان کی قابلیت کا ذکر کرتے ہیں، کل ہی ایک شاگرد سے ملاقات ہوئی، ان کے درس کا انداز بیان کرتے ہوئے رو پڑے، کہتے ہیں: وہ فن پڑھانے کے قائل اور اس پر عامل تھے، حافظہ بھی بلا کا پایا تھا، اخیر عمر میں بھی حافظہ کی قوت پر رشک ہوتا تھا، دس سال کے بعد جامعہ سے بعض اسباب کی بنا پر الگ ہوگئے، کہتے ہیں: خلیجی ممالک کے لیے ویزہ آیا ہوا تھا، اچھی نوکری مل رہی تھی، مگر منیری صاحب کی درخواست پر لڑکیوں کے ادارے جامعۃ الصالحات میں تدریس کو ترجیح دی، میری والدہ کو بھی ان سے تلمذ کا شرف حاصل ہے، اب تک ان کے انداز تدریس کو یاد کرتی ہیں، عورتوں کی ایک ایسی ٹیم تیار ہوئی جو صحیح عقائد کی حامل تھی اور اپنے خاندان میں اس کی اشاعت کر رہی تھی، مولوی اقبال بھی اپنے دوست مولوی صادق اور بعض احباب کے ساتھ عوام میں اصلاح کا کام رہے تھے، آہستہ آہستہ بدعتوں کو کھرچ رہے تھے، مخالفتوں کو انگیز کر رہے تھے، جس کا پھل یہ ظاہر ہوا؛ اب ساری بدعتیں غائب تھیں، ہر جگہ مسجد کی تعمیر ہورہی تھی، مدرسوں میں طلبہ کی تعداد ہر سال بڑھتی جارہی تھی، مولانا اقبال صاحب کو قاضی بنایا گیا، ڈاکٹر علی ملپا کے انتقال کے بعد جامعہ کے صدر منتخب ہوئے، اب وہ جامعہ میں ایک مضمون پڑھاتے تھے، باب الجنائز جس سے انہیں خاص شغف تھا، مجھے بھی ان سے عملی طور پر یہ باب پڑھنے کا موقع ملا، وہ تخصص فی الفقہ الشافعی میں بھی درس دیتے تھے، اوقات الصلات کی تخریج کا فن سکھاتے تھے، اپنے علم فلکیات اور خدا داد ذہانت سے ایک سسٹم ایجاد کیا جس کے ذریعے سے ہر علاقے کے نماز اور روزے کا وقت دریافت کر سکتے ہیں، بھٹکل والوں کو اس پر فخر کرنا چاہیے، اب وہ کچھ دنوں سے علیل تھے، کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ آخرت کی تیاری میں مصروف ہیں، آخر ہم کو سوگوار کر کے چلے گئے!
پچاس سال قوم و دین کی خدمت کی، بے لوث خدمت!
ایک مختصر مکان بنا پائے جس سے سادگی اور مسکنت کا ظہور ہوتا ہے، اب جو وہاں سے گزر ہوتا ہے دل پر عجب کیفیت طاری ہوتی ہے، آنکھ پر آنسو کے گرم قطرے، دل میں غم کی لہر!

«
»

عشرہ ذی الحجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغفرت کا عشرہ

شہرِ بھٹکل سے "مجلۃ الروضۃ”” منظرِ عام پر”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے