ان ۸ سالوں میں نہ جانے کتنے مقدمات فیصل ہوئے ،نہ جانے کتنے بے قصوروں کی رہائی ہوئی ، مگر یہ قسمت کے مارے ہنوز سلاخوں کے پیچھے اپنی بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ رمضان المبارک قریب الختم ہے ، ان گرفتارشدگان کے اہلِ خانہ پر ان ۸ سالوں میں کیا کیا قیامت گزری ،ان کے بیوی بچے کس حالت میں ہیں؟ شاید اس کا اندازہ ہم میں سے بہتوں کو نہیں ہوگا۔
جس وقت یہ دہشت گردانہ واردات ہوئی تھی ، اس وقت میں ممبئی میں ہی اور ایک روزنامہ سے منسلک تھا۔ ۱۱؍جولائی ۲۰۰۶ کوجیسے ہی یہ واردات ہوئی ، اس کے عواقب پر نظر رکھنا شروع کردیا۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مسلمان اس بری طرح مدافعانہ پوزیشن میں تھے، گویا اس واردات میں راست طور پر وہی ملوث ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایجنسیوں کی جانب سے دھماکوں کے فوری بعد سے ہی لشکر اور سیمی کا کے حوالے سے غیرمحسوس طریقے سے مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جانے لگا تھا۔ اس واردات کے الزام میں مہاراشٹر اے ٹی ایس نے جس کی سربراہی اس وقت کے پی رگھونشی کررہے تھے، ممبئی ودیگر مقامات سے ۱۳؍مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرلیا تھا۔ ان مسلم نوجوانوں پرمہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (مکوکا) کے تحت معاملہ درج کیا گیا جس میں انہیں مذکورہ دہشت گردانہ وادات کا نہ صرف ملزم بتاگیا بلکہ ان پر ملک سے غداری کا بھی الزام عائد کیا گیا۔
آج اس واردات کے ۸سال بعد جب میں گلزار اعظمی صاحب سے ملا تو انہوں نے نہ صرف لوکل ٹرین بم دھماکوں کے مقدمات کے مراحل سے آگاہ کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ کہ کس طرح اے ٹی ایس نے اس معاملے میں کھلی عصبیت اور دھاندھلی کا مظاہرہ کیاتھا۔ انہوں نے بتایا کہ ۲۰۰۶ میں تین دہشت گردانہ وارداتیں ہوئیں تھیں جن میں مجموعی طور پر کل ۴۳ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ دہشت گردانہ واردتیں تھیں اورنگ آباد اسلحہ ضبطی (۱۶؍مئی ۲۰۰۶)، ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکے (۱۱؍جولائی ۲۰۰۶) اور مالیگاؤ ں بم دھماکے(۲۸ستمبر۲۰۰۶) ۔ اورنگ آباد اسلحہ ضبطی معاملے میں ۲۱، لوکل ٹرین بم دھماکے میں ۱۳؍ اور مالیگاؤں بم دھماکے میں ۹ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان سب پر مکوکا کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔
گلزار اعظمی نے اس ملاقات کے دوران بے قصوروں کی قانونی پیروی کے معاملے میں جمعیۃ علماء کے کارگرزاریوں کا بھی اجمالی تذکرہ کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ لوکل ٹرین بم دھماکوں میں ایجنسیوں کی جانبداری کی وجہ سے جمعیۃ علماء نے دہشت گردانہ معاملات میں ماخوذ بے قصوروں کی قانونی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا ۔گلزار اعظمی کے مطابق اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ ایڈووکٹ شاہد اعظمی مرحوم کے پاس لوکل ٹرین بم دھماکوں کے کچھ مقدمات آئے، لیکن جن لوگوں کے مقدمات شاہد اعظمی کے پاس آئے وہ اس قدر غریب تھے کہ مقدمہ کی پیروی کرنے کی فیس تو کجا ، ضروری کاغذات کی تیاری میں صرف ہونے والی رقم کا بھی انتظام کرنے سے قاصر تھے۔ شاہد اعظمی نے اس بابت مجھ سے بات کی ۔ شاہداعظمی نے مجھ سے کہا کہ ان ملزمین کی قانونی پیروی کرنے والا کوئی نہیں ہے، اگر جمعیۃ علماء اس معاملے میں پہل کرے تو بہت سے بے قصوروں کی رہائی ہوسکتی ہے۔جب یہ تجویزجمعیۃ علماء کے سربراہ مولانا ارشد مدنی کے سامنے پیش کی گئی تو انہوں نے نہ صرف اس معاملے میں جمعیۃ کی جانب سے بھرپور مدد کی بلکہ مجھ سے کہا کہ ’آپ اللہ کا نام لے کر بے قصوروں کی قانونی پیروی شروع کیجئے، ممبئی جو پورے ملک کے مدارس کی کفالت کرتا ہے، آپ کی بھی بھرپور مدد کرے گا‘۔ تو گویا اس طرح جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے دہشت گردی کے الزام میں ماخوذ کئے گئے بے قصور مسلمانوں کی پیروی کا سلسلہ شروع کردیا ۔
لوکل ٹرین بم دھماکوں میں ماخوذ مسلم نوجوانوں کے مقدمات کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے گلزار اعظمی نے بتایا کہ جب ان ملزمین پر مکوکا کے تحت معاملہ درج کیا گیا تو ایڈووکیٹ شاہد اعظمی کے مشورے کے مطابق ہم نے اس کے خلاف اگست ۲۰۰۷ء میں سپریم کورٹ عرضداشت داخل کردی۔جمعیۃ کا موقف یہ تھا کہ کسی ریاست کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ دہشت گردی سے متعلق ریاستی قانون بناتے ہوئے اس میں ایسی شق شامل کرے جو ملک سے غداری کے متعلق ہو۔یہ کام مرکزی حکومت کا ہے ۔ جب ریاست اس بات کی مجاز نہیں ہے تو پھر ان ملزمین پر اس قانون کے تحت معاملہ کیسے درج کیا جاسکتا ہے جس میں ان پر ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔
سپریم کورٹ میں یہ معاملہ تقریباً پانچ سال جاری رہا،ان پانچ سالوں میں جمعیۃ علماء کی جانب سے ایڈووکیٹ شانتی بھوشن، ایڈووکیٹ سوشیل کمار جین اور ایڈووکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون وغیرہ جیسے سینئر وکلاء پیروی کرتے رہے۔ ۲۰۱۱ء میں سپریم کورٹ کا اس معاملے میں فیصلہ آیا جو نہ ہمارے حق میں تھا اور نہ ہی ہمارے مخالف۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہاں جو معاملات اٹھائے گئے ہیں، وہ نچلی عدالت میں معاملے کی سماعت کے دوران پیش کئے جائیں۔ اس کے بعد پھر یہ معاملہ معلق ہوا، جس کے خلاف جمعیۃ علماء نے ایک بار پھر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ، اور پھر ۲۰۱۲ء سے ممبئی کے مکوکا کورٹ میں معاملے کی سماعت کا آغاز ہوا۔
یہ دریافت کرنے پر کہ لوکل ٹرین بم دھماکوں کے ملزمین کا مقدمہ کس مرحلے میں ہے؟ گلزار اعظمی بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۲ء سے جاری اس مقدمے کی سماعت اب اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ اس میں جو ۱۳؍ ملزمین ماخوذ ہیں، ان کی رہائی کے قوی امکان ہیں، مگر یہ معاملہ عدالتِ بالا تک جائے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتوں کا رویہ ہمارے ساتھ نہایت معاندانہ ہے۔ نچلی عدالت سے ملزمین کے بری ہونے یا ضمانت پر رہا ہونے کو حکومتیں اونچی عدالتوں میں چیلنج کرتی ہیں۔ مکوکا عدالت میں جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر ایڈووکیٹ یوگ موہت چودھری، ایڈووکیٹ عبدالوہاب خان، ایڈووکٹ پرکاش شیٹھی ، ایڈووکٹ شریف شیخ، ایڈووکیٹ شاہد ندیم انصاری اور ایڈووکیٹ انصار تنبولی مقدمے کی پیروی کررہے ہیں۔ سرکاری وکیل کی بحث مکمل ہوچکی ہے، اب دفاعی وکلاء بحث کررہے ہیں۔ ملزمین کو پھنسانے میں ایجنسیوں نے اس قدر دھاندھلی کا مظاہرہ کیا تھا کہ خود ان کے تیار کئے ہوئے مقدمے میں ہی وہ بے قصور ثابت ہوتے ہیں، مگر اس کے لئے قانونی عمل ضروری ہے، جو جاری ہے۔
گلزار اعظمی کے مطابق ایجنسیوں نے ملزمین کے جائے واردات پر موجود ہونے کا دعویٰ کیا تھا ، اس کے لئے موبائیل کمپنیوں کے کال ڈاٹا ریکارڈ(سی ڈی آر) حاصل کیا گیا، جس میں ایجنسیوں کا دعویٰ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتا ہے۔ اس سے ملزمین کا جائے واردات پرموجود ہونا تو دور اس واردات کی اطلاع انہیں کافی دیر بعد ہوئی تھی۔ سی ڈی آر کے لئے ہمیں کافی مشقت کرنی پڑی ، کیونکہ موبائیل کمپنیوں نے ایک بار سی ڈی آر تفتیشی ایجنسیوں کو فراہم کردی تھی ، جسے ایجنسیوں نے غائب کردیا تھا۔ دوبارہ وہ سی ڈی آر دینے کے لئے آمادہ نہیں تھیں اور اس کے لئے کافی خطیر رقم طلب کررہی تھیں، جس کی ادائیگی نہ جمعیۃ اور نہ ہی ملزمین کے بس بات تھی۔ہم نے اس کے لئے عدالتِ عالیہ کا دروازہ کھٹکھایا،جس کے بعد موبائیل کمپنیوں سے ہم نے سی ڈی آر حاصل کی ، جس میں ملزمین صاف طور پر بے قصورنظرآتے ہیں۔
ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکوں میں ماخوذ تمام ملزمین کو مختلف آزادانہ تفتیش میں بے قصور بتایا گیا ہے۔ ’تہلکہ‘ کے رپورٹر آشیش کھیتان نے تو باقاعدہ اس معاملے میں اسٹنگ آپریشن کرکے ان تمام کو نہ صرف بے قصور بتایا ہے، بلکہ اے ٹی ایس کی جانبداری کو اپنی ویب سائٹ www.gulail.com پر واضح کیا ہے۔ اسی طرح کا ہی کچھ معاملہ مالیگاؤں ۲۰۰۶ کے بم دھماکوں کا بھی ہے ، جس میں ایجنسیوں نے ۹ مسلم نوجوانوں کو قصوروار بتایا تھا ۔ بعد میں جب اس معاملے کی تفتیش این آئی اے کے سپرد ہوئی تو اس نے انہیں بے قصور بتاتے ہوئے کلین چیٹ دیدی۔ سی بی آئی کی جانب سے بھی ان ملزمین کو کلین چیٹ مل چکی ہے، مگر اے ٹی ایس ابھی تک اپنی’ تحقیق‘پر اڑی ہوئی ہے، یعنی کہ وہ اس معاملے میں گرفتار کئے گئے مسلم نوجوانوں کو ہنوز قصور وار گردانتی ہے۔ اورنگ آباد اسلحہ ضبطی معاملے کی سماعت آرتھر روڈ جیل میں قائم مکوکا عدالت میں جاری ہے۔ ۱۷؍جولائی۲۰۱۴ کو دفاع کی جانب سے ان ملزمین کو ضمانت پر رہا کئے جانے کی درخواست داخل کی گئی ہے ، جس پر بہت ممکن ہے کہ انہیں ضمانت حاصل ہوجائے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ جمعیۃ علماء کی قانونی پیروی کی بناء پر درجنوں بے قصوروں کی نہ صرف رہائی عمل میں آچکی ہے بلکہ بہتوں کے مقدمات فیصل ہونے کے قریب ہیں۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ دہشت گردی کے الزام میں بے قصور مسلمانوں کے مقدمات کی پیروی کے معاملے میں جمعیۃ علماء کا کردار کسی مسیحا سے کم نہیں ہے۔ اس ملک میں سیکڑوں ایسے ادارے میں جو قوم وملت کی خدمت کے دعویدار ہیں، مگر جو خدمت جمعیۃ علماء بے قصوروں کی رہائی کی ضمن میں کررہی ہے ، اس کی مثال دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اگر جمعیۃ علماء اپنی تمام تر عوامی وسماجی خدمات کا دائرہ صرف بے قصوروں کے مقدمات کی پیروی تک ہی محدود کرلے تو بھی اس کی یہ خدمت ان سیکڑوں ملی وقومی تنظیموں کی اس پوری کارکردگی پر حاوی ہوگی، جس کی وہ دعویدار ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ گزشتہ ۸ سالوں سے مذکورہ بالادہشت گردانہ واردات میں ملوث کئے گئے ملزمین سلاخوں کے پیچھے اپنی ناکردہ گناہی یا یوں کہیں کہ مسلمان ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ بے قصور ہیں تو انہیں برسہابرس تک سلاخوں کے پیچھے قید رکھنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔کیا انہیں فرضی معاملات میں پھنسانے والے پولیس وتفتیشی ایجنسیوں کے اہلکاروں کی عدالت کی جانب سے سرزنش ان کی اس قیمتی زندگی کو واپس کردے گی جو انہوں نے سلاخوں کے پیچھے گزرا ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ دہشت گردانہ معاملات کی قانونی پیروی کرنے والے افراد و ادارے ان متعصب اور جانبدار پولیس اہلکاروں کو سزا دلانے کے بارے میں پیش قدمی کریں جن پر بے قصوروں کی زندگیوں کو برباد کرنے کی ذمہ داری عدالتوں نے عائد کی ہے۔
جواب دیں