بے خبری یا مصلحت؟

وزیر اعظم نے بار بار اُن کو شہید کہا ہے اور یہ ان کی بات ہی نہیں بلکہ سب کی جہالت ہے کہ جو وردی میں کسی کی بھی گولی سے مار دیا جائے وہ شہید کہلایا جاتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ کشمیر یا جموں کی سرحد سے جب خبر آتی ہے اور ٹی وی کے نیوز ریڈر خبر سناتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پاکستان سے آئے ہوئے دہشت گردوں کی گولیوں سے ہمارے تین جوان شہید ہوگئے اور چار مقامی شہری مارے گئے۔ یعنی فوجی اس لئے شہید کہے جائیں گے کہ وہ وردی پہنے ہوئے تھے اور شہری سادہ لباس میں تھے اس لئے مار دیئے گئے۔
کسی کو برا نہ لگنا چاہئے یہ حقیقت ہے کہ مودی جی علمی آدمی نہیں ہیں اور شاید وہ سنی سنائی کی بنیاد پر پولیس کے جوانوں کے مرنے کو شہید کہہ رہے ہیں پولیس کا جوان ہندو ہو، سکھ ہو، یا مسلمان ہو کوئی بھی ہو، اس کی موت اگر ڈاکو کی گولی سے ہو تو موت ہے، دہشت گرد کی گولی سے ہو تو موت ہے نکسلی اور ماؤوادی کی گولی سے ہو تو موت ہے۔ شہادت تو صرف انہیں نصیب ہوتی ہے جو اللہ کے دین کا کام کرتے ہوئے یا اللہ کے دین کے لئے جہاد کرتے ہوئے مارے جائیں۔ مسلمان کے علاوہ کوئی بھی ہو کسی بھی مذہب کا دھرم گرو ہو پوپ ہو یا اپنے مذہب کا کتنا ہی بڑا بزرگ ہو، اُسے کسی طرح بھی مارا جائے وہ شہید نہیں ہوسکتا۔ مودی صاحب کسی مسلمان عالم سے چاہیں تو معلوم کرلیں کہ اسلام کے عروج کے زمانہ میں ایک مسلم فوج کے جنرل خالد ابن ولید نے اپنی زندگی میں ہونے والے ہر جہاد میں حصہ لیا تھا۔ انتقال سے چند دن پہلے انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ میرے جسم پر شاید دو اِنچ کی جگہ بھی ایسی نہ ہو جہاں تلوار کا نشان نہ ہو اور یہ میری کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ مجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی میں اپنے خیمے میں بیمار اونٹ کی طرح موت کو گلے لگانے جارہا ہوں۔ خلیفہ دوم حضرت عمر ابن خطاب جب دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتے تھے تو یہی دعا کرتے تھے کہ شہادت نصیب ہو اور مولا کی نگری (مدینہ منورہ) میں ہو۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ مدینہ میں شہادت کیسے ہوگی؟ کہ وہاں نہ جہاد ہے نہ بغاوت لیکن پروردگار نے دعا قبول کی اور مدینہ میں ہی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم میں زہر میں بجھی تلوار سے حملہ کردیا گیا جو شہادت کا باعث بنا۔
وزیر اعظم نے پولیس کی محبت میں ڈوب کر تقریر کی ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہر وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور ہر صوبہ کا وزیر اعلیٰ اسی مرض میں مبتلا ہے اور اس محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ پولیس بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ وزیر اعظم بارہ برس ایک صوبہ کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اس سے پہلے وہ آر ایس ایس کے اہم رکن تھے اس لئے انہیں پولیس کو جاننے کا موقع نہیں ملا آج صورت حال یہ ہے کہ کوئی سرکاری محکمہ اتنا گندہ اور ناپاک نہیں ہے جتنا پولیس کا محکمہ ہے۔ وزیر اعظم باتیں تو ضرور چھوٹی چھوٹی کررہے ہیں لیکن چھوٹے محکموں کا گھونگھٹ ہٹاکر نہیں دیکھ رہے کہ وہ پورے ملک کو لوٹ کر کھائے جارہے ہیں۔ وہ اپنے کو ہرفن منولا سمجھتے ہیں ہر وقت بھرشٹاچار کے ختم کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ تھانے لاکھوں میں نیلام ہوتے ہیں اور کوتوال کا تبادلہ لاکھوں میں ہوتا ہے اور لاکھوں میں رکھتا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں لوگ 90 فیصدی کو غلط اور دس فیصدی کو اچھا مانتے ہیں لیکن وزیر اعظم کہتے ہیں لوگ 90 فیصدی اچھے ہیں اور 10 فیصدی غلط ہوسکتے ہیں۔
ہم دہلی میں نہیں ہیں اس لئے وہاں کا بھاؤ نہیں بتاسکتے؟ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ لکھنؤ کی تفصیل ہم سے معلوم کرلیں تو ہم بتادیں کہ لکھنؤ میں کس تھانہ کی کتنی آمدنی روز ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے کہیں کہ وہ ذرا معلوم کرکے بتادیں کہ امین آباد کی کون سی سڑک سے تھانے کو کتنے ہزار روپئے روز ملتے ہیں تو وہ بہت آسانی سے بتا دیں گے۔
رشوت کی بات تو الگ رہی محترم ہمیں یہ بتادیں کہ کتنے مسلمانوں کو عدالت نے باعزت بری کیا ہے شاید ان کی تعداد ہزار سے زیادہ ہوگی اور انہیں گرفتار کرنے والے اور ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ قائم کرنے والے کئی ہزار پولیس والے ہوں گے۔ کیا وہ اس قابل ہیں پولیس جیسے محکمہ میں رہنے دیا جائے یا ان کے ہاتھ میں جھاڑو پکڑاکر ایک محلہ ان کے سپرد کردیا جائے؟ شری مودی جب وزیر اعلیٰ تھے تو اس زمانہ کے کتنے بے گناہ باعزت بری ہوئے اور ہر مقدمہ میں عدالت نے کہا کہ پولیس کوئی الزام ثابت نہیں کرسکی اس کے بعد بھی وہ اپنی جگہ ہیں اور انہیں کوئی مار دے تو سب اسے شہید کہنے پر تیار ہیں چاہے جانتے بھی نہ ہوں کہ شہید کے معنی کیا ہیں؟
سردار پٹیل نے پولیس میں مسلمانوں کی بھرتی بند کردی تھی وہ آج تک بند ہے اگر اتفاق سے کوئی مسلمان آجاتا ہے تو اس کی زندگی حرام کردی جاتی ہے اس لئے کہ پوری پولیس آر ایس ایس کے کنٹرول میں ہے اور مسلمانوں کی پوری طرح دشمن ہے وزیر اعظم اس پولیس والے کو تو اعزاز دینے کی بات کرتے ہیں جسے کوئی مار دے لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ کتنے بے گناہوں کو خاص کر مسلمان لڑکوں کو اسی پولیس نے مارا ہے اگر ہمارے اختیار میں ہوتا تو ہم سہراب الدین اور عشرت جہاں وغیرہ وغیرہ کو شہید کا درجہ دیتے لیکن یہ کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔
حکومت جسے فساد کہتی ہے لیکن جو صرف مسلمانوں پر حملہ ہوتا ہے کیا شری مودی کو نہیں معلوم کہ پولیس ہندو کے برابر کھڑے ہوکر مسلمان پر گولی چلاتی ہے یہی اس نے بھاگل پور میں کیا یہی جمشید پور میں کیا یہی گجرات میں کیا یہی راوڑ کیلا میں کیا اور یہی 1993 ء میں ممبئی میں کیا وہ تو اگر بم دھماکے سے جواب نہ دیا جاتا تو ممبئی میں ڈھونڈے سے یوپی کا مسلمان نہ ملتا۔ اس کے باوجود کسی پولیس والے کو آج تک نہ سزا ہوئی نہ اس کی نوکری ختم ہوئی یہی وجہ ہے کہ پولیس کے ہاتھوں کوئی بے گناہ مارا جاتا ہے تو عام آدمی کے آنسو نکل آتے ہین اور کوئی پولیس والا مارا جاتا ہے تو عام آدمی خوش ہوتا ہے۔ وزیر اعظم ان کے اعزاز کی بات نہ کریں ان کی اصلاح کی بات کریں اس لئے کہ سب سے بڑا بھرشٹاچار تھانوں میں ہوتا ہے اور صرف پانچ فیصدی تھانیدار ایماندار ہوتے ہیں باقی سب بے ایمان اور مہا بے ایمان ہوتے ہیں۔ ان کا بھرشٹاچار دیکھنا ہے تو اونچی کرسی سے نظر نہیں آئے گا اس کے لئے نیچے اُترنا پڑے گا اور مودی اب نیچے اُتریں گے نہیں بس اوپر سے ہی شہید بنا دیں گے اعزاز دے دیں گے اور بگڑوں کو اور زیادہ بگاڑ دیں گے۔ اس لئے کہ پوری پولیس آر ایس ایس کی غلام اور مسلمانوں کی دشمن ہے۔

«
»

کیا ہندوستان فاشزم کے راستے پر جارہا ہے؟

مسلمان صحابۂ کرام کو نمونۂ عمل بنائیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے