بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں

شری راج ناتھ اپنی خوشی سے وزیر داخلہ نہیں بنے تھے اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ مودی سرکار کا کوئی بھی وزیر وہ نہیں کرسکتا جسے تاریخ میں یاد کیا جائے۔ اسی لئے اُن کی خواہش تھی کہ وہ پارٹی کے صدر بنے رہیں اور مودی کی ماتحتی کے بجائے موہن بھاگوت کے ماتحت بنے رہیں۔ لیکن مودی نے اپنی طاقت استعمال کرکے انہیں اپنا ماتحت بنا لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ مودی کی ہی بولی بولنے پر مجبور ہیں۔ شری راج ناتھ جس زمانہ میں اُترپردیش بی جے پی کے صدر تھے اس وقت ہماری ایک ملاقات بہت تفصیلی ہوئی تھی اور ہم نے محسوس کیا تھا کہ وہ بہت غنیمت ہیں اور اسی گفتگو کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ مودی صاحب کے ماتحت نہیں بننا چاہتے تھے تو ان کا فیصلہ صحیح تھا۔ یہ مودی کی ماتحتی ہی کا نتیجہ ہے کہ کل انہوں نے لکھنؤ میں کہا کہ ’بھاجپا فرقہ پرستی کی سیاست نہیں کرتی۔‘‘
شری راج ناتھ سنگھ نے یہ بھی کہا کہ کچھ لیڈر دادری معاملہ سے سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں۔ راج ناتھ کو خوب معلوم ہے کہ ایک تعلیم یافتہ خوشحال مسلم گھرانہ جس میں ایک تعلیم یافتہ باپ ایک ایئرفورس کا انجینئر بیٹا اور ایک آئی اے ایس کی تیاری کرنے والا بیٹا رہتا ہو اس گھر کے متعلق مندر کا پجاری اعلان کردے کہ اس نے گائے کاٹی ہے اور گاؤں کے ہندوؤں سے کہے کہ ’’یلغار ہو‘‘ اور ایک ہزار سے زیادہ ہندو جاکر یہ نہ کہیں کہ اخلاق صاحب سنا ہے آپ نے گائے کاٹی ہے یا آپ کے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہے؟ اور اس کا انتظار نہ کریں کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں اور ان کے دروازہ کھول کر باہر آنے کا بھی انتظار نہ کریں اور دروازہ کی مضبوط چوکھٹ ہی اکھاڑکر اندر گھس جائیں اور اخلاق صاحب کو گھسیٹتے ہوئے باہر لائیں اور پیٹ پیٹ کر جان سے ماردیں۔
بات اگر یہیں ختم ہوجاتی تو شاید اس کے دوسرے معنیٰ بھی نکالے جاسکتے تھے لیکن پھر پورا مجمع اوپر چڑھے جس کی آہٹ پر اس کا بیٹا دانش اندر سے دروازہ بند کرلے۔ اس کا دروازہ پوری طرح توڑکر اس کے پٹرے الگ الگ گراکر اُسے بھی اتنا ماریں کہ جان کا خطرہ ہوجائے اور گھر کی بوڑھی، جوان عورتوں کو بھی گھونسے لات سے مارکر دکھائیں کہ بی جے پی کی فوج کتنی بہادر ہے اور اس کے ایک ہفتہ کے بعد وزیر اعلیٰ کے پڑوسی قصبہ مین پوری میں ایک بیمار گائے کے مرنے کے بعد دو مسلمان لڑکوں کے اسے چھو لینے پر سیکڑوں ہندو ان پر لاٹھی ڈنڈے برسائیں کہ گائے کاٹ دی۔ مسلمانوں کی دکانیں اور گھر جلا دیں اور میڈیا کے کہنے کے مطابق پولیس کو قابو پانے میں دانتوں کے پسینے آجائیں اور جب پولیس ہوائی فائرنگ کرے تو بہادر ہندو فوج جواب میں فائرنگ کرے اور پولیس کی گاڑیاں بھی پھونک دے تو کیا وہ بھی فرقہ واریت نہیں ہے؟ اور ہم تو یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے کہنے کے مطابق ممبروں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی کے پروگرام میں سوائے فرقہ واریت مسلم دشمنی اور دلت دشمنی کے علاوہ کیا اور بھی کوئی پروگرام ہے؟
راج ناتھ سنگھ نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم اس لئے خاموش ہیں کہ انہوں نے مجھے ذمہ داری سونپی ہے ان کے اس انکشاف کے بعد ہم ان کے بارے میں کیا کہیں؟ وہ بیچارے یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ آپ نے جتنے جھوٹے وعدے کرلئے ہیں ان کا سامنا آپ تو کرنہیں سکتے اس لئے مجھے بلی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ شری مودی بے تکلف جھوٹ بول دیتے ہیں اور اب راج ناتھ سنگھ کو اس لئے شرمندہ ہونا پڑے گا کہ ایسے فرقہ وارانہ معاملہ کو جسے اندھا بھی ٹٹول کر کہہ دے کہ یہ صرف اور صرف فرقہ وارانہ ہے اسے راج ناتھ صرف اس لئے اتفاق اور حادثہ کہیں کہ مودی صاحب نے جھوٹ بولنے کا محکمہ بھی ان کو دے دیا ہے۔
شری راج ناتھ سنگھ نے شمال مشرقی ریاستوں کے متعلق بھی تیور دکھائے ہیں واضح رہے کہ یہ وہی ریاستیں ہیں جہاں صرف گائے کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے اس مسئلے پر ایک لفظ بھی کہنے کی ہمت نہیں کی ہے۔ اس طرح انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ آج بھی تین لاکھ گائیں بنگلہ دیش کو اسمگل کردی جاتی ہیں۔ البتہ یہ کہنے کی انہوں نے ہمت نہیں کی کہ اسمگلر زیادہ تر ہندو ہیں اور بنگال میں آج تک گائے کے گوشت پر پابندی لگانے کی ہمت نہ اٹل جی نے کی نہ کسی کانگریسی نے کی اور نہ راج ناتھ سنگھ یا مودی کی ہمت ہے کہ وہ پابندی لگادے اور اس لئے وہاں سے بنگلہ دیش گائیں اسمگل کردی جاتی ہیں جہاں ہر سائز ہر رنگ اور ہر وزن کی گائیں گوشت کی دکانوں پر اس طرح بندھی کھڑی رہتی ہیں جس طرح دو چار سال پہلے لکھنؤ میں ہر بڑے قصائی کی دکان کے قریب کئی کئی بکرے کھڑے رہتے تھے اور کسی تقریب کے لئے زیادہ گوشت خریدنے والے اگر فرمائش کرتے تھے کہ اس سفید یا اس کالے بکرے کا پانچ کلو گوشت دے دو تو منٹوں میں قصائی اپنی دکان کے پیچھے اسے کاٹ کر فرمائش پوری کردیتا تھا۔
وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ سے ہماری گذارش ہے کہ دادری اور مین پوری کے شرمناک واقعات کو وہ صرف ہندوؤں کے مسلمانوں پر حملے کی نظر سے دیکھیں اپنے وزیر اعظم کی طرح انہیں ہندو مسلمانوں کی لڑائی کہہ کر پوری دنیا کے سامنے کم از کم اپنے کو گھٹیا اور جھوٹا ثابت نہ کریں۔ رہی یہ بات کہ بی جے پی کیا ہے؟ اور کیوں بنی ہے؟ اس کی صفائی امت شاہ پر چھوڑ دیں ورنہ آئندہ ہم جیسے بھی انہیں وہیں کھڑا کرنے پر مجبور ہوں گے جہاں ایسے لیڈروں کو کھڑا کیا جاتا ہے۔
راج ناتھ سنگھ بھلے ہی مودی کی طرح آئے دن دیس بدیس کا دورہ نہ کرتے ہوں لیکن وہ جانتے ہیں کہ وہ اگر معلوم کرنا چاہیں کہ پاکستان کے کس شہر میں کیا ہورہا ہے یا پاکستان کے وزیر داخلہ معلوم کرنا چاہیں کہ دادری اور مین پوری کے واقعہ کی اصلیت کیا تھی؟ تو انہیں ایک گھنٹہ کے اندر پوری تفصیل معلوم ہوجائے گی۔ پھر جب وہ ہندوستان کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے بیان پڑھیں گے یا سنیں گے تو کیسے نہ سوچیں گے کہ اتنی ذمہ داری کی کہ کرسیوں پر بیٹھنے والے بھی ہندوستان میں اتنا سفید جھوٹ بولتے ہیں۔
شری راج ناتھ سنگھ نے بی جے پی کی صفائی دی ہے۔ وہ دس سال پہلے اس بارے میں کوئی بات کہتے تو لوگ دو چار دن اس کی تردید کرتے لیکن اب تو موہن بھاگوت نے پردہ کی چادر ہٹادی ہے اور مودی سرکار کے وزیروں کو گھٹنوں کے بل چل کر اپنی کارگذاری سنانے کے لئے ان کے دربار میں جانا پڑا اور خود مودی کو بھی ان کے سر ٹیفکیٹ کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ اس پر خوش ہیں۔ موہن بھاگوت نے کہہ دیا ہے کہ ریزرویشن پر اب نئے سرے سے غور کرنا چاہئے بہار میں یہ مسئلہ پوری طرح موضوع بن گیا ہے لیکن مودی نے یہ ہمت نہیں دکھائی کہ کہہ دیتے کہ یہ بی جے پی کا فیصلہ نہیں ہے اور ان کے حاشیہ بردار مانجھی کو بھی یہ کہنا پڑا کہ ریزرویشن دو نسلوں کے بعد اگر ضرورت نہ ہو تو ختم کردینا ٹھیک ہے بلکہ وہ مہادلت ہیں اور صرف ریزرویشن کی بدولت ہی اس پوزیشن میں ہیں کہ جب چاہیں وزیر اعظم کے دفتر میں گھس جاتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جو نتیش کمار ہر جگہ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کی کیا اوقات ہے؟ جو بھاگوت جی کے حکم پر مرغوں کی بولی نہ بولے۔

«
»

ایک اوردادری!

سیکولرزم کا راگ اور مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے