نعمان کے اہل خانہ اور سرمور میں واقع نعمان کی رہا ئش گاہ کے آ س پا س رہنے وا لے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ نعمان پالتو جانورو ں کی ڈھلائی کرتا تھا اور دوھ سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو جانور فرا ہم کر نے و ا لے بیو پا ریوں کے ٹرک چلا تا تھا ۔بہر حال واقعہ کوئی بھی ہو مگر جانورو ں کی ڈھلا ئی کرنا ملک کے کس قانون میں جرم ہے اس کی وضا حت ہماچل پولیس ،ریا ستی سر کار اور مرکزی حکو مت کو دینا چا ہئے۔یہ بات جدا گانہ ہے کہ گؤ کشی ملک کی درجنوں ریا ستوں میں بین ہے ، لہذ ا اگر کوئی گائے ذبح کر تا ہے تو اس کو آئین کے مطا بق مجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔مگر یہ کام بھی عوام کا نہیں بلکہ اس کے عدا لتی چارہ جوئی کا طریقہ ملک متعا رف ہے،جس پر کسی بھی قسم کی کار ر و ا ئی کا اختیار صرف پولیس انتظامیہ کو ہے ۔ملک کے کسی بھی طبقہ اس معاملے میں قانون کو ہا تھ میں لینے کی اجا ز ت نہیں ہے ۔لیکن حالیہ دنوں میں ہجومی دہشت گر دی نے جس طر ح ملک جمہو ری قانو ن کو ہا تھ میں لیکر پولیس اور حکومتو ں کو ٹھینگا دکھانا شر و ع کر د یا ہے اس سے تو یہی اندا زہ ہو تا ہے کہ بے گنا ہ مسلما نوں کی خونر یز ی کا یہ معا ملہ منصو بہ بند ہے ۔جبکہ حکو مت کی مشتبہ کا ر کرد گی اور دہشت گر دو ں کے خلاف کاروا ئی سے گر یز کئی قسم کی تشو یش ظا ہر کر تا ہے۔د ا نشو رو ں اور تجز یہ نگا رو ں کے دعویٰ میں سچائی نظر آرہی ہے ،ابھی گزشتہ مہینہ ہی دہلی میں آ ر ایس ایس کے منعقدہ ا جلا س میں مرکزی وزرا کی شر کت اور سنگھ کے ذریعہ مودی سر کار کو 100نمبر دئے جا نے پر کئی سمت سے یہ پوچھے گئے تھے کہ مودی کا ریموٹ کنٹرول کس کے ہا تھ میں ہے۔اور کس کے اشارے پر وزیر اعظم نے خاموشی کی قسم کھا رکھی ہے ۔آ ج نعمان اور اخلاق کے قتل پر پولس اور حکومت کی سرد مہری سے جو پیغا م دنیا میں جا رہا ہے وہ ملک کیلئے انتہائی شر مناک ہے ،اور ان مجر ما نہ معاملات میں سنگھ شک کے دا ئرے میں آ رہا ہے۔
بہرحال عالمی بر ا د ر ی کے دباؤ پر دادری میں ایک بے گناہ کے قتل کے 16 دن بعد وزیراعظم نریندر مودی نے افسوس کا اظہار کیا، جبکہ ان 16 دنوں میں دیگر مسائل پر انہوں نے 21 ٹوئیٹ کئے تھے۔ مودی نے دادری واقعہ پر صرف افسوس کا اظہار کیا ،جبکہ انہیں واقعہ کی مذمت اور خاطیوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ مودی نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے افسوس جتایا حالانکہ وہ بہار کی انتخابی مہم میں مختلف جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ لہذا انہیں عوام کے روبرو اس واقعہ پر ندامت اور مذمت کا اظہار کرنا چاہئے تھا۔مگران کی نقل و حرکت بتا رہی ہے کہ وہ انصاف کے معا ملے میں واقعا ت کو صرف ایک آ نکھ سے دیکھنے کی صلا حیت رکھتے ہیں ، چونکہ نریندر مودی صرف ضابطہ کی تکمیل کیلئے افسوس کا اظہار کر رہے ہیں لہذا پارٹی میں موجود کٹر پسند قائدین اپنی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ نریندر مودی اس مسئلے پراپنے لیڈروں کو آ زاد چھو ڑ رکھا ہے ۔اس لگام کسنے میں ناکام ہوگئے۔ مودی کی نصیحت ابھی تازہ تھی کہ ہریانہ کے چیف منسٹر منوہر لال کھٹر نے بیف کے حوالے سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنا ہے تو بیف کھانا ترک کرنا ہوگا۔ یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ کھٹر نے بیف کھانے کے معاملے میں صرف مسلمانوں کودھمکی دی ہے۔جبکہ دیگرطبقات مثلاًقبائلی برادری ،عیسائی اقلیتوں اوردیگر دلت ہندوؤں کو جوباضابطہ بیف کھاتے ہیں ان کیخلاف ایک لفظ بھی استعمال نہیں کرسکے۔
اگرچہ چیف منسٹر ہریانہ نے فوری اپنے بیان کی وضاحت کردی لیکن یہ سنگھ پریوار قائدین کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔ وہ پہلے تو زہر اگلتے ہیں اور پھر بعد میں اپنا موقف تبدیل کرلیتے ہیں ۔ اس وقت تک سماج میں نفرت کا زہر پھیل چکا ہوتا ہے۔ نریندر مودی نے دادری قتل اور ممبئی میں پاکستانی فنکار غلام علی کے پروگرام کو روکنے سے بی جے پی کی لاتعلقی کا اظہار کیا۔ کیا مہاراشٹرا میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے؟ کیا دادری قتل سانحہ میں بی جے پی کے کارکن ملوث نہیں؟ ظاہر ہے ان سوالات کا وزیراعظم کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔ اب جبکہ ہریانہ کے بی جے پی چیف منسٹر منوہر لال کھٹر نے مسلمانوں کے خلاف بکواس کی ۔ کیا وزیراعظم ان کا تعلق بی جے پی سے تسلیم نہیں کریں گے؟ اگر نریندر مودی اپنے دعوے میں سچے ہوں تو انہیں ہریانہ کے چیف منسٹر کو فوری برطرف کرنا چاہئے ۔ منوہر لال کھٹر گزشتہ 40 سال سے آر ایس ایس سے وابستہ رہ چکے ہیں اور ان کی کٹر پسند سیاست سے ہریانہ کا ہر شخص واقف ہے۔ انہوں نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر مسلمانوں کو ویجیٹرین غذاؤں کے ساتھ عید منانے کا مشورہ دیا تھا ۔ ان کے ایک وزیر نے میٹ پر پابندی اور بکروں کو ذبح کرنے کی مخالفت میں کھل کر بیان دیا تھا ۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان کے ہر گوشہ میں نفرت کے ایجنڈے کے ساتھ نفرت کے پرچارک آگے بڑھ ہیں ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو جان لینا چاہئے کہ ہندوستان میں مسلمان کسی کی مہربانی یا عنایت کے سبب موجود نہیں ہے بلکہ وہ ملک میں برابر کے شہری ہیں ۔ اس ملک پر ایک ہزار برس تک مسلمانوں نے حکمرانی کی اور اس کے چپہ چپہ پر اسلاف کی نشانیاں آج بھی ہندوستان کی عظمت کو دنیا بھر میں بلند کئے ہوئے ہیں ۔ انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والے مسلمان تھے اور جس وقت جدوجہد آزادی جاری تھی، مسلمان انگریزوں کے خلاف برسر پیکار تھے لیکن منوہر لال کھٹر کی آر ایس ایس ، انگریزوں کیلئے مجاہدین آزادی کی جاسوسی کر رہی تھی۔ ملک میں رواداری کا خاتمہ اور دوسرے کو برداشت کرنے کے جذبہ میں کمی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ملک کے 26 سے زائد مصنفین نے آواز اٹھائی ہے اور انہوں نے اپنے ایوارڈس واپس کردےئے ۔ مصنفین ، شاعروں اور دانشوروں کا یہ اقدام تاریکی میں امید کی کرن ہے اور دستور کے تحفظ کیلئے ان کی بے چینی کا اظہار ہوتا ہے ۔ ملک میں نہ صرف مذہبی عدم رواداری عروج پر ہے بلکہ دستور میں دےئے گئے اظہار خیال حتیٰ کہ سوچ اور غذا پر بھی سنگھ پریوار کنٹرول کرنا چاہتا ہے ۔ ادیب ، شاعر اور فنکاروں نے جس طرح حمیت اور غیرت کا مظاہرہ کیا کاش سیاستداں بھی اسی شدت کے ساتھ مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوتے۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ مسلم شعراء و ادیب بھی اس طرح کی حمیت کامظاہرہ کرتے۔ ابھی تک ایک بھی مسلم شاعر و ادیب نے اعزاز واپس نہیں کیا ۔ کئی ایسے لسانی شعراء و ادیب اور مصنفین ہیں جو عہدوں سے چمٹے بیٹھے ہیں۔ نفرت کے ایجنڈے کے تحت ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اس بارے میں مرکز سے جواب طلبی کے فوری بعد جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں متحرک ہوگئیں۔ سپریم کورٹ نے مختلف مذاہب کیلئے علیحدہ پرسنل لا کے بجائے دستور کی دفعہ 44 کے تحت کامن سیول کوڈ کے نفاذ کے بارے میں حکومت کو جواب داخل کرنے 3 ہفتے کا وقت دیا ہے۔ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ، کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی تنسیخ اور ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر جیسے متنازعہ مسائل آر ایس ایس کا ایجنڈہ ہیں اور 2014 ء کے عام انتخابات میں انہیں بی جے پی کے انتخابی منشور میں شامل کیا گیا۔ نریندر مودی حکومت میں نفرت کے سوداگر اور ملک کے اتحاد و یکجہتی کے دشمن چونکہ آزاد ہیں لہذا بی جے پی حکومت سے بھلائی کی امید کرنا عبث ہے۔ رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ پر سیاست کی گنجائش اس لئے کم ہے کیونکہ بابری مسجد انہدام کا معاملہ عدالت میں زیر دوران ہے۔ رام مندر کی تعمیر سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ بابری مسجد شہادت کے خاطیوں کو سزا دے۔ جہاں تک دفعہ 370 کی تنسیخ کا معاملہ ہے، جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے واضح کردیا کہ یہ دستور کا مستقل حصہ ہے اور اس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاسکتی۔ کشمیر کے خصوصی موقف کی مخالفت کرنے والے شائد اس بات سے واقف نہیں کہ 1947ء میں اصولی طور پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کا حصہ ہوں گے لیکن اکثریت کے باوجود کشمیر کے مسلمانوں نے ہندوستان سے وابستہ رہنے کو ترجیح دی۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر ہندوستان کی ناک ہے اور ہندوستان کا اٹوٹ حصہ برقرار رکھنا مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہے۔
جواب دیں