بیگم سالک کی وفات ، طوفان بلا خیز

محمد نعمان اکرمی ندوی

رفیق فکرو خبر بھٹکل

اچانک وفات کی خبریں صبر وتحمل کے سارے بند دروازے کھول دیتی ہیں،  طبیعتیں ملول ہوجاتی ہیں اور دل غم واندوہ کی اداسیوں کے اندھیروں میں گم ہونے لگتے ہیں۔ نا شادمانیاں نومیدیوں کو جنم دینے لگتی ہیں ، آہ وفغان اور کرب وبلا کے اس طوفانِ بلاخیز میں گھر کی ساری خوشیاں بہہ جاتی ہیں۔  خصوصاً کسی جواں سال کی وفات حسرتِ آیات سے آئینہ قلب وجگر کرچی کرچی ہوجاتا ہے اور پھر اس جگر لخت لخت کو سمیٹنا مشکل ہوجاتا ہے ۔  آج کی جانکاہ خبر کا تعلق بھی انہیں غم افروزیوں سے ہے جس کی تباہ کاریوں نے قلب ودماغ کے تمام بخیے ادھیڑ کر رکھ دئیے ہیں ، دماغ کی سوچنے سمجھنے کی طاقت ، عقل وفکر کی تفکیر کی قابلیت اور قلب وذہن کی غورو تدبر کی صلاحیت جیسے مصلوب ہوکر رہ گئی ہے۔

            خاندان کی ایک بزرگ خاتون چچی جان کی وفات کی خبر کے معاً بعد جواں سال بھابھی یعنی برادرِ خورد سید احمد سالک برماور کی شریکِ حیات کی ناسازئ طبع کی خبر ، پھر دعائے صحت کے اعلان نے خوف واندیشہ میں مبتلا کردیا تھا ، مگر اللہ رب العزت کی ذات سے شفا اور عافیت کا یقین بھی تھا اور مرض کے معمولی اور غیر مہلک ہونے کا وہم وگمان بھی ، لیکن قضا وقدر کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں ، بعید از گمان اور خیال وتصور سے دور، یسر کے لمحات عسر کی جان گسل گھڑیوں میں بدلتے دیر نہیں لگتی ، خوشیوں کے اجالوں پر غموں کے گھٹا ٹوپ بادل کی یلغار ہوجاتی ہے اور دن ڈھلتے ڈھلتے  یقین کے مضبوط پابوں میں بھی تزلزل اور ارتعاش آجانے لگتا ہے اور معمولی مرض اچانک معدودے چند لمحات میں مہلک ہونے لگتا ہے ، اور دیکھتے ہی دیکھتے فرشتۂ اجل اک شاد کام خوش و خرم ، ہستی مسکراتی اور خوش باش روح کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر خالقِ حقیقی کے پاس لے جاتا ہے یعنی  " إنا لله "  ہم اللہ کے لیے ہیں کے قول ثابت پر فرشتۂ اجل کی مہر لگ جاتی ہے اور  " وإنا إليه راجعون "  یعنی ہم سب کو ہمارے سب کچھ کے ساتھ اس کی طرف لوٹ جانے کی یقینی کیفیت کو تمام تر پس وپیش مناظر کے ساتھ دیدہ ودل کے سامنے  پیش ہوجاتے ہیں اور قرآن کے قولِ فیصل آیئہ لا یستأخرون ساعة ولا یستقدمون  کی  تفسیر وتشریح لمحہ بھر میں سمجھ میں آنے لگتی ہے ، یک لخت بھابی نرمین اپنی والدین کی چہیتی ، شوہر کی پیاری ، اپنے دو بچوں کی ماں ، اپنے خاندان کی دلاری جتنی سوگوار اپنے مائیکے کو چھوڑ جاتی ہے اسی قدر اپنے سسرال یعنی ساس ، سسر نندوں اور دیوروں اور تمام اہلِ خانہ کو محزون اور آبدیدہ کرجاتی ہے ، صبح سے شام تک کے مختصر سے وقفہ میں حلقۂ احباب و خویش و اقارب پر قیامت گذری ، ہر آنکھ میں آنسو ، ہر دل میں رنج ، ہرچہرہ فق اور ہر طبیعت مضطرب ہونے لگی،  بالمشافہ ملنے جلنے والوں کا حال نہ جانے کیا ہو، ہم پردیسیوں کی حالت بھی ناگفتہ ہوگئی، دوریاں اور مسافتیں ہمیشہ پریشانیوں کو فزوں سے فزوں تر کرتی ہیں، لہذا فاصلوں نے مزید غم کو گہرایا اور بھائیوں کی الم ناکیوں میں اضافہ کیا ، بھابھی نرمین اپنے ابّو عباس رکن الدین کی دختر نیک اختر اور امّی  کی نورِ نظر اوراپنے پیارومحبت لٹانے والے شوہرِ نامدار کی جان ودلبر اچانک تمام رابطہ انس ومحبت توڑ کر چلی گئی، سارے عہد وپیمانِ وفا نبھا کر اکیلی و تنہا اپنے اعمالِ صالحہ کے ساتھ چلی گئی۔

چونکہ وہ  ندائے غیب پر لبیک کہہ چکی تھی ، اس لیے رات دیر تک  اپنے رفیقِ سفرِ حیات سے دل کھول کر باتیں کرتی رہی  اور اپنے والدین کی خدمت میں جٹی رہی ، صبح صادق کی سچی ساعتوں میں نماز اور دعا میں مشغول رہی ، پھر خود ناشتہ بناکر شوہر ، بچوں اور والدین کو کھلاکر اسکول کے لیے نکلی ، عجیب کمالِ قدرت اور نظامِ اجل ہے  کہ یہ سارے معمولات حسبِ عادت ہوتے رہے اور دنیا چھوڑ کر جانے کا احساس معلوم ہونے کے باوجود محسوس ہونے نہ دیا گیا۔  سبحان اللہ تبارک اللہ ، مغرب کے بعد جب سارے اعضاء نے معمولات بند کرنے چاہیں تو لمحہ بھر کے لیے والدین اور شوہر سے مخاطب ہوکر معافی اور دعا کی درخواست کے ساتھ خود کے جنازہ کو وطنِ عزیز لے جانے کے لیے کہا اور پھر زندگی کے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ 

برادرم سالک اور ہمارے پھوپھا پھوپھی ، دیگر چھوٹے بڑے تمام بھائی بہنوں کو اللہ اس حادثۂ غم پر صبر وسکون کی طاقت عطا فرمائے۔ صبر انسان کی کمزوری ہوسکتی ہے مگر مردِ مومن کی طاقت ہے ،موت برحق ہے مگر اللہ کا وعدۂ مغفرت بھی حق ہے ،  رنج وملال عارضی ہے مگر حقیقی زندگی کی ابدی خوشیاں دائمی ہیں ، نیا کی رفاقتیں یقیناً دنیاوی ہیں مگر ما بعد الموت جنات النعیم کی آسائشیں ابد الآباد ہیں۔  یقینا جتنے عجیب قضا و قدر کے فیصلے ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ عجیب مرد مومن کی شخصیت ہوتی ہے یہ بات ہماری اور آپکی نہیں، یہ قول کسی اہلِ دل بزرگان دین اور اولیاء کے اقوال زرین کا نہیں اور نہ ہی کسی تابعی یا صحابی علیھم الرحمہ کا ہے،  بلکہ یہ مفھوم حدیث ہے اس صادق و مصدوق کا ہے جو کبھی اپنی من چاہی نہیں بولتا  وما ینطق عن الھوی  ہمیشہ وہی بولتا ہے جو اسکا رب اسے بلواتا ہے إن هو إلا وحی یوحی یعنی عجبا لامر المومن مرد مومن کا معاملہ تو عجب ہی عجب ہے، جب خوشیاں ملتی ہیں تو شکر الہی بجا لاتا ہے اور اگر غم و تکلیف ہوتی ہے تو صبر کرتا ہے اور ہر حال میں راضی برضاے الہی ہوتا ہے۔

 ہم ادارہ فکروخبر کی طرف سے تمام پسماندگان کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اس مشکل گھڑی میں اللہ رب العزت آپ کو حوصلہ اور ہمت دے۔ آمین

«
»

رحمت،مغفرت اورآگ سے نجات کا مہینہ رمضان

قرآن میں ذوالقرنین کی داستان……کیا کہتی ہے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے