دین کو علماء یہود و نصاریٰ نے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شروع کردیا اور ہر شخص میں مادیت سرایت کرتی چلی گئی ۔جس وقت رسول اکرم کی ولادت باسعادت ہوئی اس وقت یہ جاہلانہ رسومات ،خودساختہ مذہبی و سماجی بندشیں اور تہذیبی و اخلاقی تنزلی اپنے عروج پر تھی ۔ہر طرف فتنہ و فساد کا تنور دہک رہا تھا ۔سماج میں تخریب کاری ،خرافات اور اوھام پرستی کا رواج تھا۔دنیا شرک و تثلیث کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی ۔آبادی کے تناسب سے خدا وجود میں آرہے تھے ۔ہر قبیلہ اپنے بنائے ہوئے خدا پر ناز کیا کرتا تھا ۔عوام اس قدر فکری اور اخلاقی تخریب کاری کا شکار تھے کہ عضو تناسل کو پوجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے تھے ۔
(تاریخ ویل دورانٹ جلد ا ص ۹۵بحوالہ رہبران معصوم)
سرکار رسالتمآب سے پہلے عرب کو ’’جلی ہوئی زمین ‘‘ کے نام سے یا د کیا جاتا تا تھا ۔صحراؤں میں انسان نما جانور رہتے تھے جوبات کا بتنگڑ بنانے میں دیر نہیں کرتے تھے بلکہ فساد و خوں ریزی انکی سرشت کا حصہ بن چکی تھی۔ قبیلہ وار جنگیں ہوتی رہتی تھیں ۔چونکہ زمانہ جاہلیت میں یہودیوں کا قومی پیشہ اسلحہ سازی تھا لہذا یہ دھندا اسی وقت پھل پھول سکتا تھا جب ہر طرف جنگ و خوں ریزی کا ماحول گرم ہو ۔لہذا یہودی منظم طریقے سے عربوں کی جہالت اور قبائلی عصبیت کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کو آپس میں لڑواتے رہتے تھے ۔ذرا ذرا سی بات پر چالیس چالیس سال تک جنگیں ہوتی رہتی تھیں اس طرح یہودیوں کا قومی بزنس ترقی کرتا گیا اور عرب اپنا سارا سرمایہ اسلحہ کی خرید اور دشمنی نبھانے میں صرف کرتے رہے ۔
سرمایہ دار طبقہ زندگی کے ہر شعبہ پر حکمرانی کر رہا تھا ۔غریب افراد کو پیٹ پالنے کے لئے یا تو بھیڑ بکریوں کے دودھ پر گذارا کرنا پڑتا یا پھر وہ خالی کھجوریں کھاکر وقت گذار لیتے تھے ۔تجارت کے لئے اگر کسی سرمایہ دار سے قرض لیتے تو تجارت میں منافع کی کثیر رقم سود کی شکل میں سرمایہ دار کی تجوری میں چلی جاتی اور غرباء خط افلاس سے بھی نیچے زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔یہی لوگ قبیلے کے سردار اور خاندان کے سربرآوردہ کہلاتے تھے ۔دولت کی فراوانی اور اولاد کی کثرت پر ایک قبیلہ دوسرے پر قبیلہ حسد کرتا ۔بسااوقات قبرستان میں جاکر اپنے قبیلے کی قبریں شمار کرکے کثرت تعداد پر ناز کر نا عام بات تھی ۔(مجمع البیان جلد ۱۰ ص ۵۳۴)
لیکن کثرت تعداد پر فخرو مباہات کا دائرہ صرف مردوں تک ہی محدود تھا ۔وہ عورت کے مقدس وجود کو اپنے لئے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے اور اسکے بدن کو فقط ایک آ لہ تلذذ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے ۔یہاں تک کہ اسے آزادی رائے کا بھی حق حاصل نہیں تھا ۔ بیٹیوں کوزند ہ در گور کرنا انکی قبائلی تہذیب کا حصہ تھا ۔محققین کے مطابق لڑکیوں کا زندہ در گور کردینے کی رسم اس لئے عام تھی کیونکہ عرب کا سرمایہ دار طبقہ فقر و تنگ دستی سے ہمیشہ خوف زد ہ رہتا تھا ۔اس لئے کہ لڑکی کو شادی کے بعد وراثت کے طور پر جائداد میں حصہ ملنا چاہئے تھا اس طرح انکی محنت و مشقت سے کمائی ہوئی دولت کے ذخیرہ میں کمی واقع ہوتی اور جسکے یہاں لڑکی بیاہ کر جاتی وہ انکی دولت کی بنیاد پر زیاد ہ مالدار اور معاشی لحاظ سے مضبوط ہوجاتا لہذا انہوں نے داماد کو زندہ قبر کے نام سے تعبیر کیا اور لڑکیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دینے کو ترجیح دی بجائے اس کے کہ انکا حق اپنے مال سے ادا کیا جاتا ۔یہی وجہ ہیکہ انہوں نے خود ساختہ قانون کے مطابق میراث میں بھی عورت کا کوئی حصہ متعین نہیں کیا ۔ستم بالائے ستم یہ کہ شوہر کا قرض بیوی سے وصول کرتے تھے اور نادار و غریب زوجہ کے قرض ادانہ کرنے کی صور ت میں اسکے شوہر کو غلام یا اسیر بنا لیا جاتاتھا ۔
(دائرہ المعارف جلد ۶ ص ۲۵۰)
میراث میں تمام تر حقوق کا مالک لڑکا ہی ہوتا تھا کیونکہ انکی تہذیب میں لڑکی کو صرف گھر میں بیٹھ کر کھانے والی اور لڑکے کو کماکر کھانے والا تصور کیا جاتا تھا لہذا اس امتیاز کو بر قرار رکھتے ہوئے انہوں نے میراث سے عورت کو مکمل طور سے محروم کردیا ۔بقول علامہ مرتضیٰ مطہری ’’ عورتوں کی میراث سے محرومی کا اصل سبب تو یہ تھا کہ دولت ایک خاندان سے دوسرے خاندا ن میں نہ جانے پائے ‘‘۔عورت کی بے حرمتی اور اسکے تقدس کی پامالی کے اسباب پر چند سطور کے بعد کچھ یوں اظہار خیال کرتے ہیں ’’ خواتین کی وراثت سے محرومی کے اسباب و علل میں ایک سب یہ بھی تھا کہ انمیں سپاہی و فوجی بننے کے لئے طاقت کی کمی تھی ۔جس تمدن میں پہلوانی و دلاوری کی بنیاد پر اعزاز و افتخار ملتا تھا ایک فوجی کو غیر فوجی پر فوقیت دی جاتی تھی وہاں عورت دفاعی اور فوجی کام نہ کرنے کی پاداش میں وراثت سے محروم کردی گئی ‘‘۔
( قانون میراث عہد قدیم و جدید کے آئینے میں مشمولہ اسلام میں خواتین کے حقوق)
زبان و بیان کے میدان میں وہ خود کو تمام عالم پر ترجیح دیتے تھے ۔حتی کہ عرب کے علاوہ دیگر علاقے کے افراد کو عجمی یعنی اپنے مقابلے میں گونگا تصور کرتے تھے ۔سر مایہ داروں کے عظیم الشان بازار عکاظ میں شعرو شاعری کی مقابلہ آرائی ہوا کرتی تھی اور جس کا قصیدہ زبان و بیان کے لحاظ سے معاصر شعرا ء سے بہتر ہوتا تھا اسے فخریہ خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا جاتا تھا تا کہ سال بھر دو ر دراز کے علاقوں سے آنے جانے والے لوگ بھی اس شاعر کی عظمت اور کلام کی علویت کا اندازہ کرسکیں ۔انکی تجری کا عالم یہ تھا کہ جب امرالقیس نے اپنی چچا زاد بہن عنیز ہ سے اپنی عشق کی داستان کو لفظی چٹخارے اور فحش الفاظ کے ساتھ نظم کیا تو عرب کے فصیح و بلیغ افراد نے اس کلام کو سال کا سب سے بہتر قصیدہ شمار کیا ۔ساتھ ہی اس قصیدہ کو خانہ کعبہ کی دیوار پر بھی چسپاں کردیا تاکہ جو اس کلام کی اثر آفرینی و ہیجان انگیزی سے واقف نہیں ہیں وہ بھی محظوظ اورملذذ ہو سکیں ۔امرء القیس کا یہی قصیدہ سبع معلقات میں بھی شامل ہے ۔
(شرح المعلقات السبع للزورنی ص۳)
علی ابن ابی طالب نے نہج البلاغہ میں عربوں کے اس انحطاط پذیر سماج کی کچھ اس طرح تصویر کشی کی ہے ’’اے گروہ عرب تم اس وقت بد ترین امت تھے اور انتہائی مطعون زمین میں زندگی گذارتے تھے ۔ایسی سنگلاخ زمین جسمیں زہریلے سانپ تھے ایسے سانپ جن پر آوازبھی اثر انداز نہیں ہوتی تھی ۔تم گندا اور شور پانی پیتے تھے ،بد مزہ غذائیں کھاتے تھے اور ایک دوسرے کا خون بہانے کو فخر محسوس کرتے تھے ۔رشتہ داروں سے دور رہتے تھے ۔بتوں کی پوجا ہوتی تھی اور علی الاعلان گناہوں سے اجتناب نہیں کرتے تھے‘‘ ۔ (نہج البلاغہ خطبات)
ولاد ت رسول اکرم کے بعد :
رسول خدا کی ولادت کے ساتھ ہی ایسے معجزات رونما ہوئے جو اس امر کا پیش خیمہ تھے کہ وہ عہد آچکا ہے کہ جس میں فرسودہ نظام اور توہم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یہ بچہ عرب کی سر زمین پر ایک نئی تہذیب اور الہی نظم و نسق کی بنیادوں کو مضبوط کرنے والا تھا ۔لہذا ولادت کے پہلے ہی دن نظام جاہلیت کے کلیساؤں میں خطرات کی گھنٹیاں بجنے لگیں ۔نوشیرواں کا وہ عالیشان اور فلک نظر محل جسکی ابدیت کے معتقدین سپنے سنجوئے ہوئے تھے متزلزل ہوکر زمیں بوس ہوگیا اور اسکے چودہ کنگورے ٹوٹ کر گر پڑے ۔فارس کے آتش کدہ میں جو آگ ہزار ہا سال سے روشن تھی وہ خاموش ہوگئی ۔دریائے ساوہ کا موجیں مارتا ہوا پانی اچانک خشک ہوگیا ۔ان واقعات نے دنیا کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر کائنات کا نظام اتنا تبدیل کیسے ہوگیا اور دنیا میں کونسا ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جسکے اثرات انکے مذہبی عقائد پر مرتب ہو رہے ہیں ۔مختصر یہ کہ چالیس سال تک اس پر آشوب اور بد ترین عہد میں رسول نے اپنی صداقت اور دیانت داری کا لوہا منوایا اور جب فاران کی چوٹیوں سے اعلان رسالت کیا تو عرب ہی نہیں بلکہ تمام عالم میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوتا ہوا نظر آیا ۔وہ تہذیب اور قانون الہی کی بالادستی جو جناب عیسیٰ اور جناب موسیٰ کے بعد دم تو ڑ چکی تھی رسول اسلام نے اسے نئی زندگی عطا کی اور لوگ جوق در جوق اسلام کے پرچم تلے جمع ہونے لگے۔ پیغام الہی کی آفاقیت اوررسول خدا کے اسوہ حسنہ نے وہ عظیم انقلاب برپا کیا جسکا کلمہ آجکے اسلام دشمن عناصر بھی پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔
جواب دیں