خوش رہنے کا قیمتی نسخہ

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

 

عموماً لوگ دوسروں کے رویّوں سے شاکی رہتے ہیں۔ اس نے میری قدر نہیں کی ، اس نے میرے علم و فضل کا اعتراف نہیں کیا ، اس نے میری تقریر ، تحریر ، مضمون یا کتاب کے بارے میں تحسین و آفریں کے کلمات نہیں کہے، اس سے ملاقات ہوئی لیکن اس نے ٹھیک سے بات نہیں کی ، اس کے گھر گیا لیکن اس نے اچھی طرح تواضع نہیں کی ، پروگرام ، سمینار، کانفرنس میں مجھے بلایا گیا لیکن میری حیثیت کے مطابق مجھے پروٹوکول نہیں دیا گیا ، یہ اور اس جیسے دیگر احساسات انھیں پریشان کیے رہتے ہیں۔

بعض لوگ ان احساسات کو اپنے سینوں میں دبائے رہتے ہیں ، چنانچہ اندر ہی اندر کُڑھتے ہیں اور یہ منفی احساسات ان کی صحت کو خراب کرتے ہیں اور ان کا ذہن بھی پراگندہ رہتا ہے۔ بعض لوگ ان احساسات کو اپنی زبان پر لے آتے ہیں ، چنانچہ انھیں جن سے شکایت رہتی ہے ان کے سامنے کُھلے یا چھپے انداز میں ان کا اظہار کر بیٹھتے ہیں۔ اس پر ان کے مخاطبین یا تو خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ، یا پلٹ کر جواب دے دیتے ہیں ، جس سے بات بگڑ جاتی ہے ، تعلقات میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور دونوں طرف دلوں میں کدورتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔

میں تلاش میں رہتا تھا کہ ان احساسات سے نجات پانے کی کیا تدبیر ہوسکتی ہے ؟ مجھے ایک حدیث میں اس کی طرف رہ نمائی ملی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ خود کو منفی احساسات سے محفوظ رکھنے اور ہمیشہ خوش رہنے کا بہت قیمتی نسخہ ہے۔ اتنا قیمتی کہ ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرکے بھی اتنا قیمتی نسخہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

ایک حدیث میں ہے کہ ایک آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : ” مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجیے جسے کروں تو لوگ مجھ سے محبّت کرنے لگیں۔ آپ نے فرمایا :

” ازْھَدْ فِیْمَا فِی اَیْدِی النَّاسِ یُحِبُّکَ النَّاسُ (ترمذی :4102)

” جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش نہ رکھو لوگ تم سے محبّت کرنے لگیں گے۔ "

میں نے اس ارشادِ نبوی کو اپنی گرہ میں باندھ لیا اور لوگوں سے اپنی امیدیں کم سے کم کرلیں۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ لوگوں کی مجھ سے محبّت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔

میں اپنی بیوی ، بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتا ہوں۔ میں نے ان سے اپنی توقّعات کم سے کم کرلیں۔ اب جب وہ میری توقّع سے بڑھ کر مجھ سے محبّت کرتے ہیں اور ہر دَم میرا خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔

میں نے اپنے رفقاء و احباب سے اپنی توقّعات کم سے کم کرلیں۔ اب جب وہ مجھ سے اپنائیت ظاہر کرتے ہیں اور مجھے گلے لگاتے ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔

میں نے اپنے ذمے داروں ، بزرگوں اور بڑوں سے اپنی توقّعات کم سے کم کرلیں۔ اب جب وہ میرے کاموں کی توصیف و ستائش کرتے ہیں اور میرے لیے ہمّت افزائی کے کلمات کا اظہار کرتے ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔

اب اگر میرے گھر والے میری خدمت نہ کریں ، میرے احباب مجھ سے تعلّقِ خاطر کا اظہار نہ کریں ، میرے بزرگ میری ہمّت افزائی نہ کریں تو بھی مجھے ذرا افسوس نہ ہوگا۔ اس لیے کہ میں نے پہلے ہی ان سے زیادہ توقّعات وابستہ نہیں کی تھیں۔

میرے حلقہ احباب میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو مجھ پر تنقیدیں کرتے ہیں ، میری تحریروں میں خامیاں نکالتے ہیں اور مجھ پر طعنے کستے ہیں۔ اس پر مجھے ذرا بھی افسوس نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں ، مجھے پہلے سے ان سے اسی کی امید ہوتی ہے۔ اس پر بھی میں خوش رہتا ہوں ، اس لیے کہ مجھے امید ہے کہ اس طرح وہ میرے نامہ اعمال میں کچھ نیکیوں کا اضافہ کر رہے ہیں۔

ہمیشہ خوش رہنے کا بہت قیمتی نسخہ حدیثِ بالا میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ آزمودہ نسخہ ہے۔ اس پر عمل کیا جائے تو صد فی صد گارنٹی ہے کہ اس کا ضرور فائدہ ظاہر ہوگا۔ جو لوگ خوشی کے متلاشی رہتے ہیں انھیں ضرور اس نسخے کو آزمانا چاہیے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے