بے حال اساتذہ، بدحال تعلیمی نظام

گزشتہ15روز سے مختلف اخبارات میں مختلف اضلاع کی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں جن سے یہ مفہوم نکل کر آرہا ہے کہ تعلیمی افسران کی جانچ کے دوران اسکول انتہائی بدترین حالات میں ہیں ۔محکمۂ تعلیم کے افسران دوپہر کے کھانے ،مفت ڈریس، اساتذہ وطلباء وطالبات کی حاضری او راُن کی ڈائری پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں جن کے اندر بڑی خامیاں پائی جارہی ہیں۔یہاں پر اہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کی وقتی جانچ سے کیا ابتدائی تعلیم کا ڈھانچہ تبدیل ہوپائے گا،تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ اس کے امکانات کم ہیں دراصل ابتدائی تعلیم کا یہ محکمہ سیاست اور بدعنوانی کی نظر ہوگیا ہے ۔آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ علم اورسیاست پھونس اور آگ کی طرح ہیںیعنی اگر یہ دونوں یکجا ہونگے تویقیناًاس کے مضر نتائج ہونگے ۔ہزاروں کروڑ روپئے سالانہ صرف کرنے کے باوجود پرائمری وجونیئرہائی اسکولوں میں طلباء کی تعداد مسلسل کیوں کم ہورہی ہیں اور کیا وجہ ہے کہ جو طلباء وطالبات اسکولوں میں داخل ہیں اُن کا تعلیمی معیار انتہائی گرا ہوا کیوں ہے ،حقیقت واقعہ یہ ہے کہ 1995سے پہلے جب تک سبھی کیلئے تعلیم جیسے کھوکھلے نعرے نہیں دئیے گئے تھے اس وقت سرکاری اسکولوں کے اندر اعلیٰ ذات اور بڑے گھرانوں کے بچے دیگرفرقوں کے بچوں کے ساتھ یکساں طور پر تعلیم حاصل کررہے تھے او رنتائج بھی بہتر آرہے تھے اس وقت اسکولوں میں نہ کھانا تھا ،نہ مفت ڈریس نہ وظیفہ اور نہ ہی مفت کتابیں ۔اساتذہ کی تنخواہیں بھی برائے نام تھی مگر آج جب سارا نظام تبدیل ہوچکا ہے ۔تنخواہیں گزارے کے قابل ہیں اور طلباء وطالبات کیلئے تمام مراعات دی جارہی ہیں پھر ایسے کیوں ؟۔
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ بدعنوانی نے ابتدائی تعلیم کودیمک کی طرح اپنی زد میں لے لیا ہے او ردھیرے دھیرے وہ اسے چاٹ رہی ہے آج اعلیٰ ذات او ربڑے گھرانوں کے بچے انگلش میڈیم اسکولوں کی جانب رجوع کرچکے ہیں او راب اُس طبقے کے بچے اسکولوں سے وابستہ ہیں جہاں تعلیمی شعور کا فقدان ہے ۔موجودہ حالات کے مطابق حکومت کی جانب سے پرائمری وجونیئر ہائی اسکول میں ہفتہ میں 6دن اسکول میں ہی بنائے ہوئے کھانا کا دئیے جانے کا نظم ہے اند چھ دنوں میں دال،چاول،کڑھی، سبزی ،میٹھی کھیر،دلیا او روٹی وغیرہ دئیے جانے کے احکامات ہیں مگرصوبے کے کسی بھی اسکول میں مینیو کے مطابق کھانا نہیں دیا جارہا ہے ۔سرکاری احکامات کے مطابق گہیوں اور چاول کواسکول میں اسٹاک کیا جائے ،ایگ مارکہ مسالوں کا استعمال ہو مگر 90فیصد اسکولوں میں گہیوں اور چاول پر گرام پردھان یا وارڈ کے ممبر کا قبضہ ہے جو روزآنہ حاضری کے مطابق کھانا دے رہے ہیں اور اس پرقابض ہیں ۔پرائمری سطح پر ایک بچہ پر سوگرام چاول یا گہیوں اور 3.11 پیسے خرچ کیلئے حکومت کی جانب سے دئیے جاتے ہیں اسی طرح جونیئر سطح پر ڈیڑھ سوگرام چاول وگہیوں اور4.67پیسے دئیے جارہے ہیں اس میں ایندھن بھی شامل ہیں مہنگائی کے اس دور میں جہاں مرکزی حکومت اس بنیاد پر زوال پذیر ہو وہاں پر3.11پیسے یا 4.67پیسے میں 14سال کے لڑکے یا لڑکی کیلئے تازہ وعمدہ کھانا کیسے دیا جاسکتاہے اس کا جواب شایدکسی کے پاس نہ ہو ۔اب اس نظام کو مکمل کرنے کیلئے حاضری میں اضافہ اور دوسرے طریقۂ کار اپنائیں جاتے ہیں جوجانچ کے دوران منظر عام پر آکر اخبارات کی زینت بنتے ہیں ۔کھانا بنانے کے نظام میں اساتذہ، گرام پردھان اور وارڈ کے ممبر کا مشترکہ بینک اکاؤنٹ ہے یعنی کسی بھی خامی کے وہ دونوں ذمہ دار ہیں مگر اس کے باوجود ہمیشہ سختی یاکارروائی اساتذہ کے خلاف کی جاتی ہے۔
حکومت کی جانب سے درجہ1سے درجہ8تک سالانہ دو ڈریس دینے کا نظم ہے ایک ڈریس کیلئے صرف 200روپئے حکومت کی جانب سے دئیے جارہے ہیں ۔درجہ1میں 6سال کا بچہ داخلہ لیتا ہے او ردرجہ8تک اس کی عمر 14سال تک ہوجاتی ہے یعنی6سے14سال تک کے عمر کے لڑکے یا لڑکی کی ڈریس کیلئے صرف 200روپئے جس میں کپڑا ،سلائی دونوں شامل ہیں اس وقت بازار میں پینٹ کی سلائی 200روپئے اور شرٹ کی سلائی کم سے کم 120روپئے ہے ان حالات میں 200روپئے میں اعلیٰ کوالٹی کی ڈریس مہیا کرانا کیا ممکن ہے اس میں تعلیمی افسران کی کمیشن کی کوشش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔اسی طرح گزشتہ دس سال سے اسکولوں میں قلعی چونے کیلئے یکساں رقم آرہی ہے۔پرائمری سطح پر سالانہ 7000/-روپئے اور جونیئر سطح پر 5000/-روپئے ہیں پرائمری اسکول میں پانچ کمرے ، ایک آفس ،ایک رسوئی، بیت الخلاء ،برآمدہ اور چار دیواری شامل ہیں۔اسی طرح جونیئر سطح پر تین کمرے ،برآمدہ ،آفس ، بیت الخلا اور چار دیواری شامل ہیں ۔محکمہ تعلیم یہ حکم بھی دیتا ہے کہ اس حقیر رقم میں وہایٹ سیمنٹ کرایا جائے آج ایم پی اور ایم ایل اے پارلیمنٹ یاصوبائی اسمبلی میں اپنے بھتوں اور دوسری مراعات کے بل کو لمحے بھر میں پاس کرالیتے ہیں مگر جن پر وہ حکومت کرتے ہیں او رٹیکس کی وصولیابی کرکے حکومت چلانے کا دعویٰ پیش کرتے ہیں اُن کے غریب بچوں کے تعلیمی نظم میں اضافہ کرنے کیلئے نہ وہ کوئی صدابلند کرتے ہیں او رنہ ہی کوئی تحریک چلاتے ہیں۔ ان حالات میں ابتدائی تعلیم میں سدھار کے آثار نہ کہ برابر ہے ،افسران وحکومت حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود جس طرح سے چشم پوشی اختیار کررہی ہے وہ قابل مذمت او رباعث فکر ہے۔

«
»

16مئی کا سورج کو ن سا پیغام لے کر آئے گا؟

کشمیر پھرتلوار کی دھار پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے