مغربی استعما ر کو لو ئس نہم کے اس نظر یے میں اپنا وہ گو ہر مقصود نظر آرہا تھا بلکہ سا منے تھا جس کی وہ صدیوں سے آس لگا ئے بیٹھے تھے،ان کی اصل خو ا ہش یہی تھی کہ کسی بھی طرح سے دنیا کی سیا سی با گ ڈور ہما رے ہا تھوں میں آجا ئے۔ہو ا یہی کہ انہو ں نے لو ئس نہم کے اس نظر یے کو اپنا یا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے نقشے سے مسلم حکو متوں کا وجو د ختم کر دیا۔ اور دنیا کے سیا سی نظام کو اپنے تصرف میں کر کے آسا نی سے اپنے مقصد کی تکمیل کی ، اور ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ آج بھی مغربی سا مرا ج لو ئس نہم کے اس نظر یے پر عمل پیرا ہیں۔
ویسے مجمو عی طور پر یہ سلسلہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں ہی شروع ہو گیا تھا،کیو نکہ جب اسلام مد نی معا شر ہ میں تر قی کی شا ہراہ پر رواں دواں تھا،اسی وقت سے اسلا م دشمن طاقتوں نے اسلام کی تر قی سے خوف محسوس کیا،اور مسلم نما یہودی عبد اللہ بن ابی منا فق کو اس با ت کے لیے تیار کر لیا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں انتشا ر پیدا کریں۔عبداللہ بن ابی اس شرط پر آما دہ ہواکہ یہودی اس کو اپنا رہنما تسلیم کریں،یہودیوں کے لیے یہ بات مشکل نہ تھی ،اور وہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے اس پر تیار ہو گئے۔ اور عبداللہ بن ابی اپنا نام نہاد قا ئد منتخب کر لیا۔ جبکہ یہ ان کی فطرت اور عا دت کے خلاف تھا،لیکن پھر بھی اسلام اور مسلما نوں کو نیچا دکھا نے کے لیے یہ حر کت کی، بحر حال اس خباثت سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ جب اسلام اپنے ابتدائی مر حلوں سے گذر رہا تھا،تو دشمنوں کے سینے حسد سے بھر گئے،اور بو کھلاہٹ پیداہو گئی،جس کے نتیجہ میں عبداللہ بن ابی کو اپنا سردار منتخب کر کے اسلام اور مسلمانوں کے لیے آستین کے سا نپوں کا ایک نہ ختم ہو نے و ا لا و جود پیدا کر دیا، یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ سلسلہ جا ری و ساری ہے ۔صدیا ں گذر گئی لیکن آستین کے سا نپوں کا یہ سلسلہ ہر دور او ر ہر زما نے میں دیمک کی طرح مسلم سماج او ر مسلم امہ کو چا ٹتا رہا،اور اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کو جتنا نقصان اپنوں سے پہنچا ہے شا ید وہ اغیا ر سے بھی نہ پہنچا ہو،لیکن افسو س کی با ت یہ ہے،کہ دنیا نے اور خاص طور سے اسلامی مما لک نے ہر دور میں ان مسلم نما یہو دیوں کو سمجھ نے میں اتنی سستی اور کا ہلی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ اور مزید افسوس یہ ہے کہ دنیا اور خا ص طور سے مسلم ممالک کی قیادت و سیادت آج بھی انہی کے ہا تھوں میں ہے ۔
در اصل اس کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی بقا او راسکے استحکام کی تشکیل کے لیے قوت فیصلہ، خود اعتمادی، اور حق گوئی اشد ضروری ہے، بلکہ قو موں کی زندگی میں یہ چیزیں اپنی جگہ بڑی حیثیت کی حامل ہیں،گویا ان کے بغیر معاصر دنیا میں قوموں کے وجود کا تصور بے معنی ہے،لیکن اصل سوال یہ ہے کہ قوموں کے اندر یہ جو ہر کیسے پیدا ہو تے ہیں،پھر ان جو ہر سے قو میں کیسے بہرا مند ہو سکتی ہیں تا کہ معا صر دنیا میں عزت و قار کی زندگی گزار سکیں ۔ کیو نکہ گذشتہ کچھ صدیوں میں مسلما نوں کے اندر اور خاص طور سے مسلم حکمرا نوں میں ان تما م مذ کو رہ چیزوں کی کمی دیکھنے کو ملی،جس کا بنیا دی سبب اور نقصان یہ ہوا کہ مسلم حکو متں دنیا کے نقشے سے غا ئب ہو گئی، ا س کے بر عکس جب تک مسلم سر براہوں کے اندر جر أت گفتا ر تھی تو دشمن کو ان کے اقتدار میں پر ما ر نے کی اجازت نہیں تھی۔لیکن جب سے خو د اعتما دی کی جگہ بز دلی اور قوت فیصلے کی جگہ بے جا مصلحت نے لے لی ہے اسی وقت سے زوال کا یہ سلسلہ جا ری و ساری ہے ۔اور حد یہ کے امید کی کو ئی کرن کہیں دکھا ئی نہیں دیتی۔
اسی مذکورہ پس منظر میں وہ مسلم حکومتیں جو دنیا کے اکثر حصے کی ما لک تھی،جن کے شا ہوں کے رعب اور دبد بے کا چر چا دنیا کے دوسرے با دشا ہوں کی نیند یں حرام کر دیا کر تا تھا ، اورمسلم دنیا کی یہ تمام صورت حال اس وقت تک رہی ، جب مسلم حکمراں رات کو نا لہ نیم شبی اور دن کو خدمت خلق میں گذارتے تھے ، راحت وآرام جن کے لیے شجر ممنوعہ تھی ، اس کے سا تھ سا تھ مسا وات کا یہ عا لم کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز ۔ لیکن جب زوال آیا ،او ر وہ تما م جو ہر ختم ہو گئے تو پھر انہی حکو متوں کے سر براہوں نے اپنے ہا تھوں سے یہ ملک غیروں کے حوالے کر دیے۔ حتی کہ دشمن کو ہا تھ پا ؤ ں ما رنے تک کی بھی نو بت تک نہیں آئی ، ۔۔ اند لس کی تا ریخ اپنی اسلامی عظمت کے لیے گواہ ہے، مخا لفین نے اند لس کی جب یہ شان و شوکت دیکھی تو وہاں کے فر ما ں رواں عبد الرحمن سے تعلق قا ئم کیے،اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے پو را ملک جھگڑوں اور نہ ختم ہو نے والے ہنگا موں کی نذر ہو گیا،ہر طرف بغا وتیں پھیل گئی،ملک خا نہ جنگی میں چلا گیا،بھا ئی بھا ئی کا دشمن، دوست ا پنے دوست سے بیزار، شا ہی خا ندان کے لو گ آپس میں دست وگریباں، غرض ہر طرف ایک عا لم ہو، دشمن اس پل کے انتظا ر میں تھا ،مو قع ہا تھ آیا،تو پورے اند لس کو اپنے قبضے میں لے لیا۔اور نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکو مت کا اختتام اس انداز سے ہو ا کہ آج وہا ں مسلما نوں کا نا م و نشان با قی نہیں ۔اسی طرح مصر اور یمن کو لڑا یا جس میں لا کھوں بے گناہ لوگ آپس میں ما رے گئے،مصر اور یمن کی اس خا نہ جنگی پر مفکر اسلام مولا نا علی میاں ند وی ؒ لکھتے ہیں ۔اس بے مقصد اور بلا وجہ کی جنگ میں جو مصر کی طرف سے لڑی گئی ،دو لا کھ مسلما ن شہید ہو ے۔مصریوں نے اس جنگ میں ظلم اور بر بریت کے سا رے ریکا رڈ تو ڑ ڈالے ، جنگ کے زما نے میں جو لوگ پنا ہ لینے کے لیے غا رو ں میں چھپے ہو ے تھے، ان پر زہریلی گیس چھو ڑ ی جا تی تھی۔پھر سوڈان کو جو محمد علی پا شا کے زما نے میں مصر ہی کا ایک حصہ تھا ،بڑی چالاکی سے مصر سے الگ کرا یا ۔اس کے نتیجے میں بہت سی جا نیں گئی ،خون خرا بہ ہوا ، لو گ گھر سے بے گھر ہو ے ۔تر کی جو اسلامی تا ریخ کی ایک ایسی سلطنت تھی جس کا حصہ دنیا کے چاروں کو نوں کو گھیرے ہو ے تھا اندرونی دشمنوں نے اس کو پہلے چھو ٹے چھو ٹے حصوں میں با نٹا ، جب اس پر بھی اپنے ارادوں کی تکمیل نہ ہو ئی ، تو عرب حکمرانوں کو قو میت کے نعر ے پر ابھا راا ور بالآ خر تر کی کی عظیم سلطنت کا خا تمہ،ایک ایسے شخص کے ہا تھوں سے ہو اجس کی تر بیت کے تما م سا ما ن اہل مغرب نے اپنے آغوش میں کیے تھے ۔کیو نکہ اس سے اتنا بڑا کا م لینا تھا جس سے مسلما نوں کی چودہ سو سالہ تا ریخ کا ایک ایسا با ب ختم کر نا تھا جو ان کے عا لمی اتحا د اور اسی طرح عا لمی امت کی علامت تھی یعنیخلافت جو ۱۹۲۲ میں تر کی میں اتاترک مصطفی کمال پا شا کے ہا تھوں سے ختم ہو ئی ۔ ،
کچھ سال پہلے عراق اور ایران کی خو نریز آٹھ سالہ جنگ ،داود خاں کے ہاتھوں افغا نستان کی تباہی،پا کستان اور بنگلا دیش کی تقسیم۔غرض ،بخارا ، تا شقند ، سمر قند خوقند ،وغیرہ اسلامی تا ریخ کے ایسے ملک تھے جن کی رونقیں اور زینت دنیا کے دوسرے ملکوں کے لیے حیرت کا سا ما ن تھیں، اور ان ملکوں کی آ برو یہی وہ مسجدیں اور مدرسے تھے ،جن کی روح پر ور فضا سے ان ملکوں کا ماحول پر سکون اور پر کیف رہتا تھا،ہر طرف خوشیا ں تھیں ، امن تھا ،پیا ر و محبت کے نغمے زبان زد خاص و عام تھے۔بہر حال یہ طویل دا ستان ہے ،کئی مرتبہ یہ اسلامی ملک دشمن کی من گھڑت چا لوں سے بزم ماتم بنے ۔یورپ کے قہر ما ں نطام نے ان کو کئی کئی مرتبہ زیر وزبر کیا، اور ابھی بھی یہ سلسلہ جا ری ہے،شا ید وہ دن دور نہیں جب یہ ملک ما ضی کی عظمت رفتہ کا حصہ بن جا ئے،
جواب دیں