اب وہ آدمی پتا نہیں کب آتا۔ اس لیے میں چلا آیا‘۔ اب پتا چلا کہ یہ وہی رکشا ہے جس سے ابھی میں نے پوچھا تھا۔ قدرے توقف کے بعد اس نے پھر لب کشائی کی۔ ’بھائی جان کیا بتائیں لوگوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ خود کو مسلمان کہتے ہیں مگر ان میں مسلمانوں والی کوئی بات نہیں ہے‘۔ ابھی تک میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ شخص مسلم ہے یا غیر مسلم۔ میں اسی شش و پنج میں تھا کہ اس نے میری مشکل حل کر دی۔ ’میں بھی مسلمان ہوں اور اسی علاقے میں رہتا ہوں۔ لیکن مسلمانوں کا حال دیکھ دیکھ کر کڑھتا رہتا ہوں‘۔ کیوں کیا ہو گیا؟ اب میرے لیے اس کی باتوں میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ ’ارے کیا بتائیں ہوٹل کے سامنے ذرا آٹو کیا کھڑا کر دیا کہ اس نے طوفان اٹھا دیا۔ ہٹاؤ ہٹاؤ رکشا ہٹاؤ دکان کے سامنے سے ہٹاؤ۔ حالانکہ ابھی صبح کے دس ہی بجے ہیں ابھی ہوٹل شروع بھی نہیں ہوا اور اس کی دکانداری خراب ہونے لگی۔ جبکہ یہ لوگ پیسہ لے کر اپنی دکان کے سامنے خود ریڑھی لگواتے ہیں۔ جب ان کی دکانداری خراب نہیں ہوتی۔ میں ہندووں کے علاقے میں دیکھتا ہوں کہ دکانوں کے سامنے رکشا والوں کی لائن لگی رہتی ہے مگر کوئی کچھ نہیں کہتا۔ ہاں اگر ٹریفک جام ہو جائے تو نرمی سے کہہ دیتے ہیں کہ ذرا آگے پیچھے کر لو۔ مگر مسلمانوں کا حال تو بہت برا ہے۔ پتا نہیں خود کو کیا سمجھتے ہیں‘۔ ہاں بھائی مسلمانوں میں اخلاقی گراوٹ بہت زیادہ آگئی ہے۔ جو خوبیاں مسلمانوں میں ہونی چاہیے تھیں وہ سب غیر مسلموں میں منتقل ہو گئی ہیں اور دوسروں کی ساری خرابیاں مسلمانوں میں آگئی ہیں۔ خاص طور پر اخلاقی پستی تو بہت زیادہ آگئی ہے۔ اور اس کا مسلمانوں کو نہ تو احساس ہے نہ ہی افسوس۔ اگر کوئی کچھ سمجھانے کی کوشش کرے تو وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ڈرائیور نے، جو کہ میری باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا، بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں۔ جو دیکھنے میں بہت زیادہ مسلمان لگتا ہے اس کے اندر اتنی ہی زیادہ خرابیاں ہیں۔ پھر اس نے ایسی دلگیر مگر سچی بات کہی جو دل پر ہتھوڑے کی مانند جا کر لگی۔ اس نے کہا کہ’ آج مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ جس کی داڑھی جتنی لمبی ہے اس میں اتنی ہی زیادہ برائیاں ہیں۔ میں تو لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور غلط کام بھی کرتے ہیں‘۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ادھیڑ عمر ڈرائیور دنیا کے حالات سے کافی باخبر ہے۔ جبھی تو کہنے لگا کہ مسلمانوں کی انہی خرابیوں کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں پٹ رہے ہیں، مارے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کو ہوش نہیں آرہا۔ پھر اس نے یہ بھی کہا کہ ’میں تو ہندو علاقوں میں سواری لے کر جاتا ہوں تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر مسلم علاقے میں سواری لے جاؤں تو پریشانی ہی پریشانی ہے‘۔
اس آٹو ڈرائیور کی باتیں بڑی چشم کشا اور مسلم معاشرے کی آئینہ دار تھیں۔ اس کی باتوں نے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر پیدا ہو جانے والی خرابیوں کا پورا منظرنامہ نگاہوں کے سامنے وا کر دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام کے قرن اول میں اور اس کے بعد کے زمانوں میں بھی مسلمانوں کی اخلاقی بلندی، ان کے کردار کی رفعت، ان کی حق گوئی اور ان کی ایمانداری کے واقعات نگاہوں میں پھر گئے۔ ایک زمانہ تھا جب کوئی غیر مسلم داڑھی والوں سے تجارتی معاملات کو ترجیح دیتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ بے ایمانی نہیں کرے گا۔ کوئی دھوکہ نہیں دے گا۔ کوئی شر و فساد نہیں پھیلائے گا۔ جو معاملہ طے ہوگا اس پر کاربند رہے گا۔ اپنے عہد سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور اپنی زبان سے نہیں پھرے گا۔ مگر آج کی صورت حال کیا ہے۔ ’ہاں ہاں اس سے کوئی سودہ مت کرنا۔ ارے وہ داڑھی والا ہے۔ مسلمان ہے۔ نماز پڑھتا ہے نا۔ وہ ضرور دھوکہ دے گا۔ ضرور بے ایمانی کرے گا۔ اس کے ساتھ کوئی معاملہ مت کرنا‘۔ آج کے مسلمانوں کی یہ شبیہ بن گئی ہے کہ وہ بے ایمان ہیں، دھوکے باز ہیں، عہد شکن ہیں، بد عہد ہیں اور بے ایمانی کرنے والے ہیں۔ اس نے ایک واقعہ سنایا۔ کہنے لگا کہ میں ماتا سندری روڈ پر تھا کہ ایک پہیہ پنکچر ہو گیا۔ وہاں بہت سے مسلمان پنکچر جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ میں ایک کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ ذرا جلدی ہے پنکچر جوڑ دو۔ اس پر وہ شخص چڑھ بیٹھا۔ ’جلدی ہے تو کہیں اور جاؤ میں ایسے کام نہیں کرتا‘۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ بھائی ایسے بولو گے تو تمھارے پاس کون آئے گا۔ میٹھی بات کرو تو سب آئیں گے۔ پھر میں وہاں سے چلتا بنا۔ اس کے دل میں پتا نہیں کیا آئی کہ وہ مجھے بلانے لگا۔ مگر میں نے انکار کر دیا کہ اب تم سے کام کرانا ہی نہیں ہے۔ ایسے واقعات روزانہ نگاہوں کے سامنے پھرتے رہتے ہیں۔
عجیب معاملہ ہے۔ کئی روز ہو گئے لیکن آٹو ڈرائیور کی باتیں بھولتی ہی نہیں، رہ رہ کے کچوکے لگاتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ آخر مسلمان کب تک ایسے بنے رہیں گے، ان میں مسلمانوں کی خوبیاں کب آئیں گی، وہ اپنا کردار کب بدلیں گے۔ آٹو ڈرائیور نے، جس نے اپنا نام عبد السلام اور اپنا وطن مظفر پور بہار بتایا تھا، یہ کہہ کر مزید مضطرب کر دیا کہ بھائی جان کیا بتائیں میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو حج کر کے آئے ہیں۔ نماز بھی پڑھتے ہیں اور غلط کام بھی کرتے ہیں۔ جن کی زبان بہت خراب ہے۔ جو میٹھی بات بول ہی نہیں سکتے۔ جب بھی بولیں گے تو جیسے ڈانٹ رہے ہوں برا بھلا کہہ رہے ہوں۔ میں نے کہا کہ ہاں یہ بات بھی ہے۔ حالانکہ نماز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ برائیوں کو ختم کر دیتی ہے۔ لیکن پتا نہیں کیوں آج کے نمازیوں کے اندر سے برائیاں جاتی ہی نہیں۔ اس پر اس نے برجستہ کہا کہ ’کیسے جائیں گی جب ان کا دل ہی صاف نہیں ہے۔ نماز تو پڑھتے ہیں مگر دل میں ایمان نہیں ہے‘۔ کتنے پتے کی بات کہی اس نے۔ جب تک ایک مسلمان کے دل میں اخلاص او رللہیت کی گدازگی پیدا نہیں ہوگی اور عجز و انکسار کے ساتھ ساتھ خشوع و خضوع کی نرماہٹ نہیں آئے گی نماز سے اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ علامہ اقبال نے بھی تو یہی کہا تھا کہ ’جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا، ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں‘۔ آج مسلمانوں کے دل دنیاوی اصنام سے پُر ہیں۔ کسی کے دل میں مال و دولت کمانے کا بت نصب ہے تو کسی کے دل میں شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کا۔ کوئی ایم پی او رایم ایل اے بننے کا بت پالے ہوئے ہے تو کوئی حکومت تک رسائی حاصل کرنے کا۔کسی کو نفسانی خواہشات کے صنم سے عشق ہے تو کسی کو دنیاوی ترقی کے صنم سے۔ سچ بات یہ ہے کہ دنیا داری نے مسلمانوں کو دین سے غافل کر دیا ہے۔ مسجدوں میں نمازی تو بہت نظر آتے ہیں لیکن سچے نمازی ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملیں گے۔ علامہ نے ہی ایک او رجگہ کہا ہے کہ ’دل ہے مسلماں تیرا نہ میرا، تو بھی نمازی میں بھی نمازی‘۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ نمازیوں میں برائیاں کچھ زیادہ ہی نظر آتی ہیں۔ اگر آپ کسی کو سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ غضبناک ہو جائے گا اور آپ کا سر توڑ دینے پر آمادہ ہو جائے گا۔ سچی بات یہ ہے کہ آج ہم اخلاقی برائی کے ایورسٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اس کے باوجود خود کو بہت اچھا اور دوسروں کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ ہمیں اغیار کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونے کا بھی کوئی افسوس نہیں ہے۔ شائد حِس نام کی شے ہمارے دل و دماغ سے نکل گئی ہے۔ جب تک مسلمان حقیقی مسلمان نہیں بنیں گے اور اسلام کو اپنے کردار میں نہیں ڈھالیں گے، دنیا میں ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے، مرتے کٹتے رہیں گے اور ان کو بچانے کے لیے نہ آسمان سے کوئی فرشتہ اترے گا نہ ہی زمین سے کوئی انسان اٹھے گا۔
جواب دیں