بس کر الٰہی

محنتی ہوتے تھے، کسی کام کے کرنے میں عار نہیں تھا اور کبھی اُن کے منھ سے نہیں سنا کہ تھک گئے۔ ان میں سے اکثر وہ تھے جو بتاتے تھے کہ ہم جب اپنے گھر جاتے ہیں تو جہاں تک بس جاتی ہے اس سے جاتے ہیں۔ اس کے بعد دو دن یا تین دن پیدل پہاڑ پر چڑھ کر جاتے ہیں۔ یہ سب سن کر ہم حیران ہوا کرتے تھے کہ یہ کیسی آبادیاں ہوں گی۔
نیپال میں جب سے بادشاہت ختم ہوئی ہے اور ماؤ وادیوں کی جمہوری حکومت آئی ہے اس وقت سے نیپال سے بہادر آنا بہت کم ہوگئے۔ آج ہمارے ہوٹل میں ایک بھی نہیں ہے۔ ایک بات یہ بھی سب نے دیکھی ہوگی کہ 75 فیصدی سے زیادہ دُکانوں اور بڑے گھروں کے چوکیدار یہ بہادر ہی ہوتے تھے جو رات بھر پہرا دیتے تھے اور کسی کو نہیں سنا کہ اگر چار چوکیدار ہیں تو باری باری ان میں سے دو کسی دُکان کے پٹرے پر سولیں اور دو جاگتے رہو کی آواز دیتے رہیں۔ ہم چالیس سال سے زیادہ باغ گونگے نواب میں رہے جہاں پہلے پرتاپ مارکیٹ بنی پھر ممتاز مارکیٹ۔ ان میں جو جو زیادہ قیمتی دُکانیں ہیں ان سب کا اپنا اپنا چوکیدار ہوتا تھا۔ ہم کبھی کسی مشاعرے سے یا کسی میٹنگ سے بارہ بجے یا اور بعد میں بھی آئے ہیں تو سب کے سب جاگتے ملے۔ آج اُن کی بے سر و سامانی میں تڑپ تڑپ کر مرنے کی خبروں سے دل رو رہا ہے۔ اور دعا کرتے ہیں کہ مولا اب رحم فرما دے۔ بیشک یہ تیری عبادت نہیں کرتے اس میں ان سے زیادہ ہم قصوروار ہیں کہ ہم نے اُن سے خدمت تو لی مگر کبھی انہیں وہ نہیں بتایا جس کا آپ نے ہمیں حکم دیا تھا۔ میرے مولا ہم جہاں ہیں وہاں ہمارے چاروں طرف جو کچھ ہے آپ اسے ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ پھر بھی ہمیں معاف فرمادے اور ان پر رحم فرمادے۔
وزیر اعظم مودی اور پوری مرکزی اور صوبائی حکومت نیپال کی ہر ممکن مدد کررہی ہے۔ اُترپردیش سے 70 بسیں وزیر اعلیٰ نے بھیجی ہیں کہ کاٹھ مانڈو سے جو ہندوستانی یا نیپالی آنا چاہیں بغیر کرایہ کے ان سب کو لے کر آؤ۔ ڈاکٹر بھی گئے ہیں نرسیں بھی اور دوائیں بھی۔ ایک بہت اچھی خبر آج آئی کہ عالم اسلام کے کئی ملکوں نے دل کھول کر مدد بھیجی ہے۔ نیپال کا حادثہ ایسا نہیں ہے کہ دو چار ملک یا ہندوستان پوری طرح اس پر قابو پاسکیں۔ ہندوستان کو تو اس طرح فوج اور ہیلی کاپٹر نیپال بھیج دینا چاہئیں جیسے اس نے اُتراکھنڈ میں بھیجے تھے اور ترقی یافتہ ملک امریکہ، فرانس، برطانیہ اور سب سے زیادہ چین اور جاپان کو جنگی پیمانے پر مدد بھیجنا چاہئے۔ اس لئے کہ زلزلہ کے جھٹکے بھی ہیں، برفیلی ہوائیں بھی اور بارش بھی جس سے ایئرپورٹ بھی بند ہوگیا ہے۔ پہاڑوں سے اتنے پتھر گرے ہیں کہ سڑکیں پگڈنڈی بن گئی ہیں اور رینگ رینگ کر گاڑیاں چل رہی ہیں اور سب سے خطرناک خبر یہ ہے کہ چٹانیں کھسکنے سے وہ راستے بھی بند ہوگئے ہیں جن سے یہ بھولے بھالے دو تین یا چار دن پیدل چل کر اپنے ماں باپ کے پاس جاتے تھے۔
مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ کے اور صوبائی حکومت نے اسمبلی اور کونسل کے ممبروں سے کہا ہے کہ وہ سب ایک ایک مہینہ کی تنخواہ امدادی فنڈ میں دیں۔ ان ممبروں کی تنخواہ کی حیثیت تو ہم جیسے معمولی لوگوں کے پان سگریٹ کے خرچ جیسی ہیں۔ ان سے کہئے کہ اسمبلی کا ہر ممبر دس ہزار اور پارلیمنٹ کا ہر ممبر 50 ہزار روپئے دے۔ اُترپردیش کی اسمبلی تین سال کی ہوگئی مسٹر اکھلیش ذرا معلوم کریں کہ جس ممبر نے تین سال پہلے اپنی حیثیت حلف نامہ میں جو دکھائی تھی آج اس کے مقابلے میں اس کی حیثیت کیا ہے؟ تب اندازہ ہوگا کہ دس ہزار تو ایک سگریٹ کے پیکیٹ جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔ رہی پارلیمنٹ تو اُن کے لئے 50 ہزار کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بابا رام دیو نے 500 یتیم بچوں کو گود لینے کی بات کہی ہے۔ دوسری تنظیمیں بھی آگے آئیں اور اعلان کریں کہ وہ 100-100 مکان ایسے جو فوری طور پر سڑک پر اور کھلے میدان میں پڑے ہیں انسانوں کو پناہ دینے کے قابل ہوں بناکر دیں گے۔ ہم اپنے قارئین سے بھی درخواست کریں گے کہ جتنا پانی اور جتنا ایسا کھانا جو خراب نہ ہو بھجواکر انسانیت کا حق ادا کریں۔ ہم سب رحمت اللعالمینؐ کی اُمت ہیں۔ ہمیں اپنی خدمت، اپنی محبت اور اپنی مدد سے دل موہ لینا چاہئے۔ اس کے بعد وہ پیغام دینا چاہئے جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
اس وقت کاٹھ مانڈو میں میڈیا کے درجنوں رپورٹر اور فوٹو گرافر موجود ہیں۔ دن رات ٹی وی پر اُن مندروں کا ملبہ دکھایا جارہا ہے جہاں سب سے زیادہ پوجا کرنے والے آتے تھے۔ پورے کاٹھ مانڈو میں سیکڑوں مندر تھے جن میں بعض صدیوں پرانے تھے جن کی تاریخی حیثیت بتانے میں کئی کئی منٹ لگتے ہیں۔ اس کے بعد ہر ایک کی زبان سے نکلتا ہے کہ یہ قدرت کا قہر ہے اور قدرت قدرت کی رٹ لگانے والے سب وہ ہیں جو پوجا ان کی کرتے ہیں جو اُن مندروں میں رکھ دیئے گئے تھے۔ کتنا اچھا وقت ہے کہ ان سے دریافت کیا جائے کہ یہ تو آپ نے بھی دیکھ لیا کہ جن کی آپ پوجا کرتے تھے، جن سے پانی اور دانہ مانگتے تھے، جن سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت مانگتے تھے۔ جن سے اپنے ملک کی ترقی مانگتے تھے وہ سب ملبہ کے ڈھیر میں کہیں دبے پڑے ہیں اور آپ دنیا کو بتا رہے ہیں کہ یہ قدرت نے کیا ہے۔ یعنی آپ سب یہ مانتے ہیں کہ قدرت سب سے زیادہ طاقتور ہے وہ جسے چاہتی ہے زندہ رکھتی ہے جسے چاہتی ہے مٹا دیتی ہے۔ یہی قدرت تھی جس نے دو سال پہلے ایک پتھر کی بنی بہت بڑی اور بہت بھاری مورتی کو جو اُتراکھنڈ میں بابا کیدار ناتھ کے مندر کے نیچے گڑی ہوئی تھی اور جو شاید 48 گھنٹے یا زیادہ پانی کے طوفان کا مقابلہ کرتی رہی اور ساری دنیا اس منظر کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی کہ وہ قدرت کا مقابلہ کررہی ہے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ قدرت نے پانی کا ایک ریلا ایسا بھیجا کہ وہ بھگوان کہی جانے والی اس مورتی کو بہاکر لے گیا اور اس مورتی نے قدرت کے قدموں پر اپنا سررکھ دیا۔ تو پھر سب کے سب معلوم کیوں نہیں کرتے کہ قدرت کیا ہے؟ یہ کس بھگوان کا نام ہے اور یہ کس مندر میں رکھی ہے؟
ہمارے ہندو بھائی ہندی اور سنسکرت کی ساری کتابیں چھان لیں، اُن کی ڈکشنری دیکھ لیں۔ اُنہیں نہ کہیں قہر کا لفظ ملے گا اور نہ قدرت کا۔ پھر ہر ہندو دانشور یہ کیوں نہیں کہتا کہ جب ہمیں سب سے زیادہ طاقتور کی ہی پوجا کرنا ہے تو قدرت کی کیوں نہ کریں؟ اور جو جانتے ہیں کہ قدرت کیا ہے ان سے کہیں کہ ہمیں بھی وہ قدرت سے ملادیں۔ اسی طرح ہندو جب شہید کہتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ یہ کیا جانیں کہ شہید کیا ہوتا ہے؟ آئے دن خبر آتی ہے کہ جموں کے فلاں گاؤں میں پاکستانی دہشت گردوں نے کئی گھنٹے گولیاں برسائیں اور جواب میں ہمارے جوانوں نے بھی گولیاں برسائیں جن سے تین دہشت گرد ڈھیر ہوگئے اور ہمارے دو جوان شہید ہوگئے اور تین شہری مارے گئے۔ اب یہ کس سے معلوم کریں کہ جوان بھی ہندو تھے اور شہری بھی ہندو تھے اور سب کے سب پاکستانی دہشت گردوں کی ہی گولی سے مرے تو دو کیوں شہید کہے گئے اور دو شہریوں کو شہید کیوں نہیں کہا گیا۔ اس سے بھی زیادہ احمقانہ حرکت یہ ہوئی ہے کہ شاید اُترپردیش میں 50 کسانوں کی موت ہوچکی ہے۔ کچھ برباد فصل کو دیکھ کر مرگئے کچھ نے خودکشی کرلی۔ ایک گجیندر نامی کسان نے بھی خودکشی کی لیکن اعلان کیا گیا کہ اسے شہید کا درجہ دے دیا گیا۔ ہم نے نہ جانے کتنی دینی کتابیں پڑھی ہیں ہمیں کسی کتاب میں آج تک یہ نہیں ملا کہ کسی مسلمان خلیفہ یا امیرالمومنین یا بادشاہ نے کسی کو شہید کا درجہ دیا تھا۔ یہ اسلام کے ساتھ مذاق ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سب کو قدرت کے متعلق بتایا جائے کہ وہ کون ہے اور شہید کیا ہوتا ہے؟
آخر میں صرف اتنا اور عرض کرنا ہے کہ اس مضمون کا عنوان ایک واقعہ سے وابستہ ہے۔ ہمارے ایک عزیز جو سنبھل کے محترم لوگوں میں تھے انہیں پروردگار نے لڑکیاں ہی لڑکیاں دی تھیں۔ ایک بچہ کی اور آمد آمد تھی وہ اپنے مردانہ مکان میں مولا سے لو لگائے بیٹھے تھے اتنے میں ہی زنانہ مکان سے ایک خاتون نے آکر اطلاع دی کہ بیٹی مبارک ہو! ان کے منھ سے بے ساختہ نکلا۔ ’’بس کر الٰہی‘‘ یہ کچھ ایسے انداز سے کہا تھا کہ پروردگار کو رحم آگیا۔ وہ فرماچکے ہیں کہ ’’انا انّ عندی منکسر القلوب‘‘ (میں ٹوٹے دل والوں کے پاس ہی ہوں) اور پھر بیٹے عطا ہوگئے۔ ہم نے بھی جب رات سنا کہ نیپال میں مرنے والوں کی تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے تو بے ساختہ ’بس کر الٰہی‘ ہی منھ سے نکل گیا۔ رب کریم قبول فرمائیں۔ آمین

«
»

خبر ہونے تک …..

آر.ایس.ایس. کی ذہنیت اورمسلم خواتین مجاہد آزادی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے