بس اللہ ہی بچائے میڈیا اور اس کے پروپیگنڈے سے…

ظفر آغا

تبلیغی جماعت، تبلیغی جماعت، تبلیغی جماعت! کان پک گئے تبلیغی جماعت کا شور سنتے سنتے۔ ارے صاحب کوئی اس ہندوستانی میڈیا سے ذرا یہ تو پوچھے کہ چین میں کورونا وائرس سے جو ہزاروں موتیں ہوئیں، کیا اس کی ذمہ دار تبلیغی جماعت تھی۔ یا ان دنوں امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور اسپین جیسے ممالک میں کورونا وائرس نے جو قہر مچا رکھا ہے، اس کا سبب بھی تبلیغی جماعت تھی! برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کورونا وائرس میں مبتلا جو موت و زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو کیا مولانا سعد نے ان سے ہاتھ ملایا تھا! ایک کہرام ہے اور ایک ایسا شور و غوغا تبلیغی جماعت کے نام پر کورونا وائرس کے سلسلے میں میڈیا نے مچا رکھا ہے کہ جس کی نظیر ڈھونڈے سےنہیں ملتی۔ اس مضمون کے لکھے جانے تک ایک مشہور کمیونسٹ کارکن اور سابق جے این یو صدر کویتا کرشنن نے ٹوئٹ کے ذریعہ انڈیا ٹوڈے ٹی وی کے مشہور اینکر راہل کنول کو مخاطب کر ان سے سوال کیا کہ آپ نے یہ کیا جماعت اور مدرسوں کا شور مچا رکھا ہے۔ کویتا نے ایک ویڈیو کے ذریعہ کنول سے سوال کیا کہ آپ کو اسپتالوں میں کورونا مریضوں کے علاج میں جو کمیاں ہیں کیا وہ نظر نہیں آتی ہیں۔ مزدور بھوکوں مر رہے ہیں اس کا ذکر کیوں نہیں کرتے۔ بس جماعت جماعت کی رٹ لگا رکھی ہے۔ یہ صحافت نہیں بلکہ جان بوجھ کر نفرت کا بازار گرم کیا جا رہا۔ پھر آخر میں انھوں نے راہل کنول سے سوال کیا کہ کیا آپ کو شرم نہیں آتی!

بات تو یہی ہے کہ موجودہ ہندوستان کے صحافی کی شرم ختم ہو چکی ہے۔ اب صحافت کا مقصد حق و انصاف کے لیے آواز بلند کرنا نہیں بلکہ اب تو صحافت کا دار و مدار حکومت وقت اور وہ بھی بی جے پی کے لیے سارے ملک میں سازگار ماحول بنانے پر ہے۔ یہ صحافت نہیں پروپیگنڈہ ہے۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جو ہٹلر نے جرمنی میں اختیار کی تھی۔ اس حکمت عملی کا اصول یہ تھا کہ ایک جھوٹ کو اتنی بار دہراؤ کے وہ آخر میں سچ لگنے لگے۔ تبلیغی جماعت اور کورونا وائرس کے تعلق سے اب تک جو شور چل رہا ہے اس کی بھی حکمت عملی وہی ہٹلری پروپیگنڈہ ہے۔ کورونا وائرس کو اس قدر تبلیغی جماعت سے جوڑ دو کہ ہر ہندو کو یہ لگنے لگے کہ اس مہلک وبا کی ذمہ دار پوری مسلم قوم ہے۔ بتائیے ابھی تک یہ بات کھل کر سامنے نہیں آئی کہ تبلیغی جماعت کے اراکین کے سبب کتنے افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں، لیکن شور اس قدر ہے کہ گویا کورونا کا مذہب نعوذ باللہ اسلام ہے۔ بقول سوشل میڈیا کورونا وائرس پیدا چین میں ہوا، جوان امریکہ اور یورپ میں ہوا اور مسلمان ہندوستان میں ہو گیا۔

جی ہاں، اس پورے پروپیگنڈے کا مقصد ہی یہی ہے کہ جیسے سن 1930 کی دہائی میں ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کیا تھا ویسے ہی ہندوستان میں مسلم نفرت کا بازار گرم ہو جائے اور پھر بی جے پی کو مسلم نسل کشی کا موقع مل جائے۔ واقعی اب تو ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں میڈیا میں اس وقت جو مسلم مخالف شور ہے، وہ مسلم نسل کشی کا پیش خیمہ تو نہیں۔ بھائی ملک میں جماعت اور کورونا کے تعلق سے جو شور ہے اس نے ابھی سے عام ہندو ذہنوں کو مسلمانوں کے تئیں پراگندہ کر دیا ہے۔ ابھی سے یہ خبریں موصول ہونے لگی ہیں کہ ہندو کالونیوں میں مسلم سبزی والوں اور ریہڑی والوں کا داخلہ بند کیا جا رہا ہے۔ باقاعدہ گیٹ پر ان کا آدھار کارڈ چیک کیا جاتا ہے اور اگر کوئی مسلمان نکلتا ہے تو اس کو اندر گھسنے نہیں دیا جاتا ہے۔ اگر صورت حال اتنی ہی سنگین رہی تو مسلم مخالف جماعتیں گجرات کے سنہ 2002 فسادات کی طرح ہندوستان کے ایک بڑے حصے میں مسلم نسل کشی کا بھی بازار گرم کر سکتی ہیں، اور اس کا ذمہ دار میڈیا ہے۔

آپ ذرا میڈیا پر ہونے والے رات کے مباحثوں کا باریکی سے تجربہ کیجیے۔ ہر مباحثہ میں بنیادی معاملہ ہندو-مسلم ابھر کر آتا ہے۔ بہت سوچ سمجھ کر اس بحث میں دو پارٹیاں کھڑی کی جاتی ہیں۔ ایک ہندو نکتہ نگاہ کا حامی ہوتا ہے اور دوسری جانب سے ایک کمزور جاہل مولوی قسم کا کوئی شخص بٹھا دیا جاتا ہے۔ اب اینکر بہت خوبصورتی سے مسلم مخالف ماحول بناتا ہے۔ دھیرے دھیرے اینکر مسلم مخالف جذبات کو ہوا دیتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے ماحول ہندو-مسلم جنگ کا سا ہو جاتا ہے۔ اور اس جنگ میں آخر ہندو پارٹی مسلم پارٹی پر فاتح نظر آتی ہے۔ اب اس پوری سوچی سمجھی سازش کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو عام ہندو خبر دیکھنے والا اپنے اپنے گھروں میں ٹی وی دیکھ رہا ہے اس کے ذہنوں میں بھی ٹی وی مباحثہ کی طرح مسلم منافرت پیدا ہو۔ اور آخر میں اس کو یہ محسوس ہو کہ اس نے اپنے مسلم دشمن کے خلاف جنگ جیت لی۔ روز ٹی وی پر کسی بہانے سے اسی طرز پر مسلم منافرت کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ اور اب تبلیغی جماعت کی ایک سنگین غلطی نے ٹی وی کو یہ موقع دے دیا ہے تو بس ہر اینکر صبح و شام تبلیغی جماعت کا بھونپو بجا رہا ہے۔

لیکن ٹی وی پر روز یہ تماشہ کیوں ہوتا ہے! ارے جناب اس ملک کے معاشی حالات اتنے سنگین ہیں کہ جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے قبل ہی ملک میں بے روزگاری کی شرح 40 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔ اب ذرا کورونا وائرس کی وبا کے بعد جب سارا ہندوستان لاک ڈاؤن ہو چکا ہے تو معیشت کا کیا حال ہوگا! بازار بند، فیکٹریوں میں تالا اور ہر تجارت ٹھپ۔ اور یہ حالات کب تک رہیں گے اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ یعنی ملک میں لاک ڈاؤن جب کھلے گا تو پہلے ہی سے بے جان ہندوستانی معیشت کی کمر ٹوٹ چکی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ بے روزگاری اپنے عروج پر ہوگی۔ ہر تجارتی شعبے میں لاکھوں افراد نوکریوں سے باہر کر دیئے جائیں گے۔ بعض معاشی ماہرین ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ ملک میں بھکمری پھیل جائے گی۔ اندیشہ یہ بھی ہے کہ درجنوں جگہ پر لوٹ مار کا بازار گرم ہو سکتا ہے۔

ٹی وی پر آپ جو روز تماشہ دیکھتے ہیں اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ عام ہندوستانی کے ذہن میں معاشی حالات کے سبب حکومت کے تئیں جو غصہ پیدا ہو رہا ہے اس کا رخ موڑ دیا جائے۔ وہ ہندو جو بے روزگاری سے پریشان ہے وہ سرکار کی ناکامی کو بھول کر ایک فرضی دشمن کی نفرت میں بھنتا رہے۔ یہ میڈیا اسی طرح نفرت کا بازار گرم کر رہا ہے تاکہ کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد ملک میں جو معاشی بدحالی اور بدامنی پیدا ہو اس کا رخ مسلمانوں کی جانب موڑ دیا جائے۔ ایسے خطرناک ماحول میں بڑے پیمانے پر اگر مسلم نسل کشی ہو جائے تو اس میں بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ میڈیا میں اس وقت تبلیغی جماعت کے خلاف جو ہنگامہ آرائی ہے، کہیں وہ مسلم نسل کشی کی تیاری تو نہیں! اس کا جواب تو وقت ہی دے گا، لیکن موجودہ صورت حال میں اس اندیشہ کو بے معنی نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ بس اللہ ہی بچائے اس میڈیا اور اس کے جھوٹے پروپیگنڈے سے۔

«
»

گودی میڈیااورصحافت کے عصری تقاضے

اے صاحب ایمان ! تیری سادگی پہ رونا آیا !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے