برطانیہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام

برطانوی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار اور مختلف تحقیقات کے نتیجے ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں اسلام پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے اور عیسائیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ مسجدیں آباد ہورہی ہیں اور چرچ ویران ہورہے ہیں۔ نئی نئی مسجدیں خوب تعمیر ہورہی ہیں یا پرانی عمارتوں کو خرید کر مسجد میں تبدیل کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف عیسائیوں کی عدم توجہی کے سبب گرجا گھروں کو بند کیا جا رہا ہے۔ کئی جگہ تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گرجا گھروں کے مالکان نے انھیں مسلمانوں کے ہاتھوں فروخت کردیا کہ وہ اسے مسجد بنا لیں۔ یہ صورت حال جہاں عیسائیت کے خیر خواہوں کے لئے فکر کا سبب ہے وہیں اسلامی داعیوں کے لئے باعث مسرت ہے۔ اس سے مغربی شہریوں کا مذہب کے تعلق سے مثبت رویہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک طرف جہاں اسلام کی مخالفت ہوتی ہے وہیں دوسری طرف اس کے بارے میں عوام اچھے خیالات بھی رکھتے ہیں۔
سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب
برطانیہ میں ہوئے ایک نئے ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ اس ملک میں اسلام سب سے تیزی سے بڑھنے والا مذہب ہے۔وہیں، چرچ آف انگلینڈ کو کم تعداد میں پیروکار مل رہے ہیں۔ نیٹسین کے برطانوی سوشل ایڈٹس یوٹس سروے کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں چرچ آف انگلینڈ کے 20 لاکھ پیروکار کم ہوئے ہیں تو دین اسلام کے ماننے والوں کی تعداد میں10 لاکھ تک کا اضافہ ہوا ہے۔تاہم، اب بھی برطانیہ میں سب سے زیادہ تعداد کسی بھی مذہب کو نہیں ماننے والوں کی ہے۔یہ برطانیہ کی کل آبادی کے قریب نصف (49 فیصد) ہیں۔ 1983 میں برطانیہ میں ملحد کل آبادی کے 31 فیصد اور ایک دہائی پہلے کل آبادی کے 43 فیصد تھے۔ 1983 میں برطانیہ میں کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں کی تعداد 1.28 کروڑ تھی جو 2014 میں بڑھ کر 2.47 کروڑ ہو گئی۔نیٹسین کے سروے سے نکلے نتائج کے مطابق، برطانوی بالغ کافی کم تعداد میں چرچ آف انگلینڈ کے پیروکار بن رہے ہیں۔ 1983 میں 40 فیصد لوگ چرچ کے پیروکار تھے، 2014 میں ان کا فیصد گھٹ کر 17 رہ گیا۔چرچ آف انگلینڈ کے پیروکاروں کی تعداد میں گزشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔نیٹسین کی ناومی جونز نے ’’ ٹائمز آف انڈیا‘‘ سے بات چیت میں کہا، 1983 میں اسلام کو ماننے والوں کی تعداد کل آبادی کی محض 0.6 فیصد تھی جو 2014 میں بڑھ کر تقریبا 5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کیتھولکوں کی تعداد 30 سالوں سے تقریبا ایک سی رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں اور گزشتہ سرویز میں ہم نے دیکھا ہے کہ برطانیہ میں کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیچھے نئی نسلوں کی مذہب سے بیزاری ہے۔یہ نسل پچھلی نسل کے مقابلے کم مذہب میں اعتقاد رکھتی ہے لہذا، پرانی نسلیں ختم ہو رہی ہیں تو ناستکوں کی تعداد اپنے آپ بڑھ رہی ہے۔ان کا کہنا تھا، تاہم، اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ صرف چرچ آف انگلینڈ کے پیروکاروں کی تعداد کیوں کم ہو رہی ہے۔انہوں نے امکان ظاہر کی کہ برطانیہ میں کیتھولک اور غیر عیسائی تارکین وطن کی تعداد بڑھنے سے بھی چرچ آف انگلینڈ کے پیروکاروں کا تناسب کم ہو رہا ہے۔
لاوا پک رہا ہے
برطانیہ کے ایک تہائی اسکولی بچوں کا خیال ہے کہ مسلم ان کے ملک میں حاوی ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال میں ہوئی ایک اسٹڈی میں یہ بات سامنے آئی ہے۔ 10 سے 16 سال کی عمر کے قریب 6000 بچوں کے درمیان ہوئے سروے میں مسلمانوں کے تئیں طالب علموں کی منفی سوچ سامنے آئی۔’’شو ریسزم دی ریڈ کارڈ‘‘نامی چیریٹی تنظیم کی جانب سے 2012 سے 2014 کے دوران ملک بھر کے 60 اسکولوں کو بھیجے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے تقریبا 60 فیصد طالب علموں نے کہا کہ اوورسیز شہری اور پناہ گزین ہماری ملازمتوں کو ختم کر رہے ہیں۔تنظیم کے سی ای او کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ برطانیہ میں کس طرح سے مسلم اور تارکین وطن کے تئیں نفرت بڑھ رہی ہے۔سروے میں 49 فیصد طالب علموں نے کہا کہ اوورسیز لوگوں کی برطانیہ میں بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنا بہت مشکل ہے اور حکومت اسے لے کر بہتر پالیسی نہیں بنا پا رہی ہے۔
سرکاری اعداد وشمار
برطانوی سرکار نے جو ۲۰۱۱ء کے اعداد وشمار جاری کئے ہیں ان کے مطابق برطانیہ میں مسلمانون کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور عیسائیوں کی آبادی کم ہوئی ہے۔ آبادی کے متعلق یہ اعداد و شمار بہت سی زمینی حقیقتوں کو ظاہر کرتے ہیں اور مستقبل کے حالات کی پیشین گوئی بھی۔ اس سینسس کے مطابق ۲۰۰۱ء اور ۲۰۱۱ء کے دوران عیسائیوں کی آبادی میں گیارہ فیصد کی کمی آئی ہے۔ پہلے ان کی آبادی ۳.۳۷ ملین تھی جو ،اب ۲. ۳۳ ملین رہ گئی ہے۔ جبکہ دس سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں۸۰ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں مسلمانوں کی آبادی ۵.۱ ملین تھی جو ،اب بڑھ کر ۷.۲ ملین ہوگئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام برطانیہ کا دوسرا سب سے بڑا مذہب بن چکا ہے۔ مسلمانوں کے بعد تیسری سب سے بڑی اکثریت ہندو ہیں جن کی آبادی ۱۷۰۰۰،۸ ہے۔ یہاں سکھ ۲۳۰۰۰،۴ ، بدھسٹ ۴۸۰۰۰،۲ اور یہودی ۶۳۰۰۰،۲ ہیں۔ اس سینسس میں برطانیہ کی کل ابادی ۰۶.۲۶ ملین بتائی گئی ہے۔ ۲۰۰۱ء میں عیسائی ۷۲ فیصد تھے جو اب دس برس میں گھٹ کر ۵۹ فیصد ہوچکے ہیں۔ اسی میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسلمان جو دس برس قبل محض تین فیصد تھے اب بڑھ کر پانچ فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کو ان اعداد کو قبول کرنے سے گریز ہے اور وہ مانتے ہیں کہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں مذہب کا خانہ لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہے لہٰذا ہرکوئی اپنے مذہب کے بارے میں جواب نہیں دیتا۔ اس رپورٹ کے مطابق 7.2 فیصد شہریوں نے اپنے مذہب کے بارے میں نہیں بتایا ہے۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے مذہب کے بارے میں جواب نہیں دیا ہے ان میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ 
لامذہب بھی بڑھے
برطانیہ میں مذہب بیزار طبقے کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد 83 فیصد بڑھی ہے۔ 2001ء میں 7.7 ملین لوگوں نے بتایا تھا کہ وہ کسی بھی مذہب پر عمل نہیں کرتے، جب کہ 2011ء میں 14.4 ملین لوگوں نے خود کو لامذہب ظاہر کیا۔ گویا برطانیہ کی آبادی کا ایک تہائی حصہ لامذہب ہے اور کسی بھی مذہب میں یقین نہیں رکھتا۔ مشرقی انگلینڈ کے ناروچ کے 42فیصد سے زیادہ لوگوں نے خود کو لامذہب ظاہر کیا۔
برطانیہ میں 2012ء کے دوران ایک سروے کیا گیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نئی نسل مذہب بیزاری میں دوسروں کے مقابلے پیش پیش ہے۔ نوجوان عام طور پر مذہب میں دلچسپی نہیں دکھاتے، مگر دوسری طرف ایک سروے ظاہر کرتا ہے کہ یہاں جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں ان میں کثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ مذہب اسلام پر عمل کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کا ایک بڑا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ دوسرے ملکوں سے لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں اور عیسائیوں نے بھی اسلام قبول کیا ہے۔ 
مہاجر مسلمان
برطانیہ کا قانون بیرون ملک سے آنے والوں کے لئے انتہائی نرم ہے، لہٰذا لوگ آسانی سے ویزا حاصل کرلیتے ہیں اور یہاں آکر ایک مدت گذارنے کے بعد یہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ جو بچے یہاں پیدا ہوتے ہیں وہ نہ صرف برطانیہ کے شہری ہوجاتے ہیں بلکہ ان کی تعلیم و تربیت اور علاج و معالجہ کا خرچ بھی یہاں کی حکومت اٹھاتی ہے۔ بچے کی پیدائش سے ہی اس کے لئے وظیفہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس قانون کا مسلمان بھی خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بھارت و پاکستان نیز مشرق وسطیٰ سے آکر یہاں بس رہے ہیں۔ اسلامک مشن کالج، گلاسگو کے لکچرر مولانا فروغ القادری بتاتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر گیا، بہار(بھارت) کے رہنے والے ہیں مگر اب برطانیہ کے شہری بن چکے ہیں اور ان کے چاروں بچوں کی پیدائش یہیں ہوئی۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ انھوں نے ندوۃ العلماء لکھنو سے فضیلت کی اور برطانیہ آکر انگلش میں ایم اے کی ڈگری لی۔ وہ انگلینڈ میں ایک شاندار زندگی جی رہے ہیں، جو بھارت میں رہتے ہوئے کبھی ممکن نہ تھا۔ انھیں کی طرح لاکھوں برطانوی مسلمان کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوئے مگر یہاں آکر بس گئے ہیں۔ مشرقی لندن کا ٹاور ہلمٹ علاقہ 34فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والا علاقہ ہے، جبکہ برطانوی مسلمانوں کی چالیس فیصد آبادی لندن میں ہی رہتی ہے۔ 
نومسلم
برطانیہ میں اشاعتِ اسلام مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا ایک اہم سبب ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں ہر سال 5000 افراد اسلام قبول کرتے ہیں جن میں 70فیصد خواتین ہوتی ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہر مہینے سینکڑوں افراد اسلام قبول کر رہے ہیں۔ ان کی تعداد اب لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ ان اعدادوشمار پر نظر رکھنے والے مانتے ہیں کہ عنقریب اسلام قبول کرنے والوں کی سالانہ تعداد 14000سے 250000 کے بیچ ہوجائیگی۔ ایک سروے کے مطابق اسلام قبول کرنے والوں میں 70فیصد سیاہ فام اور جوان ہوتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کی اوسط عمر 27سال ہوتی ہے۔ 
اسلام ہی کیوں؟
سوانسی یونیورسیٹی کی کیون برک نے ایک سروے کیا جس میں پایا کہ اسلام قبول کرنے والوں میں بیشتر وہ لوگ تھے جو برطانوی سماج کے منفی رخ سے نالاں تھے۔وہ شراب نوشی اور نشہ خوری کو ناپسند کرتے تھے اور جنسی بے راہ روی کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ اسلام قبول کرنے والے یہاں کے سرمایہ دارانہ نظام کو بھی ناپسندکرتے تھے اور انھیں ان تمام مسائل کا حل اسلام میں نظر آیا۔ سروے کے مطابق جن خواتین نے اسلام قبول کیا ، ان میں سے نصف نے حجاب پہننا شروع کردیا اور پانچ فیصد نے تو برقع کے ذریعے اپنے چہرے کو بھی ڈھک لیا۔اسلام قبول کرنے والوں میں بڑی تعداد قیدیوں کی بھی پائی گئی۔ جیلوں میں بند لوگ یکسوئی کے ساتھ اسلام کے مطالعے کا موقع پاتے ہیں اور اسے اپنا لیتے ہیں۔ جیلوں میں بند لوگوں میں بڑی تعداد میں مسلمان بھی شامل ہیں۔
آخر اتنی تیزی سے برطانوی اسلام کی طرف کیوں آرہے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہاں کے سماجی حالات پر نظر رکھنے والے یہ دیتے ہیں کہ عیسائیت اور یہودیت نے یہاں اپنی روحانی کشش کھودی ہے، اب جنھیں دل و دماغ کا سکون چاہئے وہ اس کی تلاش میں اسلام کا سہارا لیتے ہیں۔ عام طور پر یہاں کا معاشرہ مذہب میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا۔ عیسائیوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ ہی چرچ جاتا ہے اور وہ بھی صرف اتوار کو۔ عیسائیوں کی عدم توجہی کے سبب حال ہی میں 1600 گرجا گھروں کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا گیا۔ اندازہ ہے کہ مستقبل قریب میں مزید گرجا گھر بند ہوجائیں گے۔ یہ سروے جس نے عیسائیوں کی مذہب میں کم ہوتی دلچسپی کو ظاہر کیا ہے، خود عیسائیوں کی ہی ایک مذہبی تنظیم نے کیا ہے۔ 
یوروپ میں جہاں ایک طرف مسلمانوں کے لئے کچھ چیلنج ہیں تو دوسری طرف ایک بڑا طبقہ ان کا بانہیں کھول کر استقبال بھی کرتا ہے۔ یہاں عیسائیت کے لئے جو مایوس کن صورتحال ہے وہی اسلام کے لئے خوش آئند بھی ہے۔ یہاں بیشتر لوگ مذہب میں دلچسپی نہیں لیتے اور برائے نام عیسائی ہیں مگر جیسے ہی وہ اسلام اور قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں انھیں تازگی کا حساس ہوتا ہے اور اسے قبول کر کے وہ روحانی سکون محسوس کرتے ہیں۔ یہاں اسلام کی اشاعت میں روایتی مسلمانوں کا کوئی اہم رول نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کی اپنی کشش ہے کہ لوگ اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ خود نومسلم اسلام کی تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور دوسروں کو اسلام کے قریب لاتے ہیں۔ خود مخالفین کی کوششیں بھی اسلام کے فروغ کا باعث بنتی ہیں جسے قرآن کی زبان میں کہا جائے تو اللہ تعالیٰ شر میں بھی خیر کا پہلو نکال لیتا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ اسلام کی کشش اور نومسلم بھائیوں کی کوشش یہاں زیادہ کام کر رہی ہے مگر روایتی مسلمانوں میں کوئی تبدیلی نہیں دکھائی دیتی۔ ان کی وہی رفتار بے ڈھنگی یہاں بھی نظر آتی ہے جو دنیا کے دوسرے ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ یہاں بھی جرائم، تشدد اور منشیات اور جسم فروشی کے دھندوں میں ماخوذ ہوتے ہیں اور جیل جاتے ہیں۔ان کے بچے بھی مذہب بیزار ہورہے ہیں اور اپنی تہذیب وزبان سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ کم مسلمان ایسے ہیں جو اسلام، اور مشرقی کلچر کی پاسداری کرتے ہیں۔(یو این این)

«
»

پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کی خدمت میں

کیا ارسطو کا فلسفہ اسلام کے خلاف ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے