اور وہ بھی کچھ ایسے ہی تڑپتے ہونگے- .سائینس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ادب و فنون لطیفہ میں پائے جانے والے تصورات کو حقیقت کا رنگ دے دیا ہے…. دل کی تڑپ کو موبائیل کے اندر یوں قید کردیا کہ محاوروں کو مجسم کردیا…اور ان میں جان ڈال دی…. دل کا بلیوں اچھلنا، دل کا بیتاب ہونا، ماہی بے آب کی طرح تڑپنا.. دل کا دھک دھک کرنا…دل سیاہ کرنا.. دل ڈانواں ڈول ہونا. .دل سے اترنا… دل صد چاک….دل بسمل…دل خستہ… دل زار…دل روشن، الغرض دل سے متعلق بے شمار محاروں کو کھلی آنکھوں سے میاں برقاصد کے آئینہ خانے میں زندہ ہوتے دیکھیے، اور کبھی اسکی بے زبان تڑپ میں محسوس کیجیے…..اور اس پر طرا یہ کہ من چاہی آوازیں، تکی بے تکی موسیقی اور اچھے برے نغمات بھی اس زبان دراز سے سنیے اور سردھنیے …یا پھر اپنا اور دوسروں کا سر پیٹیے…. میاں برقّاصد اسمارٹ کیا ہوئے ہیں اچھے اچھے بدھو گھر لوٹ آئے ہیں…. اوراچھے بھلے راستہ بھٹک بھی گئے ہیں…کانوں کے کچے ہوں یا پکے سب اونچا سننے لگے ہیں….آنکھوں کے اندھے ہوں یا کانے میاں برقاصد کی حشر سامانیوں میں بنا لاٹھی کے ناچتے ہیں…. کچھ یوں بھی مجنوں ہوئے ہیں کہ سر راہ خود کلامی کے مرض میں مبتلا ہوئے ہیں ، اور کچھ خود سے ہی لڑتے جھگڑتے شوق کے ہاتھوں دور تلک چلے گیے ہیں… کبھی کبھی اتنی دور کے واپسی کی سا ری راہیں مسدود ہو جاتیں ہیں اور ملک عدم سدھار جاتے ہیں..سارے رابطے منقطع کر لیتے ہیں…. کیا پیامات، کیا انعامات، کیا سیاست اور کیا تجارت، کھیل ریل پیل الغرض ایک دنیا کو انسان اپنی مٹھی میں قید کرنے کا خواب پورا کرچکا ہے …. لیکن اسکی مٹھی کھل کر خاک کی ہوچکی ہے جو کبھی بند ہو کر لاکھ کی ہوا کرتی تھی.. میاں برقاصد نے اپنے تمام معاصر و معاون و مقابل کی بولتی ہی بند کر رکھی ہے…. اسمارٹ جو ہوئے ہیں … ..
فرمایا….الغرض برقاصد کو مسلسل تڑپتے دیکھ اسے مٹھی میں سمویا تو اسے قرار آگیا… یہ تو ہم جیسے عمر رسیدہ حضرات کا حال ہے، پتہ نہیں نوجوانوں اور نو خیزوں کا کیا حال ہوتا ہوگا!!…..ایک نظر اسکے آئینہ دل پرڈالی تو پایا کہ بقراط کا برقی پیام ہے….. لکھ بھیجا تھا "برسات کے دن آنے والے ہیں "… کمبخت کے سارے پیام یونہی ہوتے ہیں جن میں ہر کوئی اپنے اپنے ظرف اور مطلب کے مطابق مطلب نکال لے…. ایسے ہی جیسے وزیر اعظم کا پیام تھا کہ "اچھے دن آنے والے ہیں”…. انہوں نے بھی بقراط کی طرح تصفیہ کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ کس کے اچھے دن…. ملک کے… سرکار کے….عوام کے.. میڈیا کے… سرمایہ داروں کے…..پارٹی کے.. اپنوں کے… پرایوں کے…..کس کے؟ بلکه کس کس کے؟…. جس کا جودل چاہے وہ اس کا مطلب نکال لے…..اب ہر ایک کے اچھے دن آنے کے آثار تو نظر آنے سے رہے… لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ… بدلے بدلے سے سرکار نظر آتے ہیں….. ہندوستان میں جو کبھی نظر آیا کرتی تھی وہ جمع سے واحد اور مذکر سے مونث ہوگئی ہے … کاش عوام کی مونس بھی ہو…..
برسات کے دن آنے والے ہیں … اچھے دن آنے والے ہیں….. ایسے پیامات کو ہندوستان میں "بھوشیے وانی” بھی کہا جاتا ہے…..ایسے پیامات کو سیاست میں چاہے جوکہتے ہوں لیکن ادب میں شوشہ چھوڑنا کہتے ہیں….. اب جو چاہے اسے پکڑ لے اور جیسے چاہے پکڑلے … یا پکڑ کر چھوڑ دے..یا گرا کر توڑ دے…..یا پھر پکڑ کر رکھے رہے…جنہیں یقین ہو یا جنہیں عادت ہو ہر بات پر یقین کرنے کی ، وہ انتظار کرے یا انتقال کرے ….الغرض ہر کوئی بقراط اور وزیر اعظم کے ایسے پیامات کا حسب منشا مطلب نکال لیتا ہے ….مطلب نکالنے پرجمہوریت میں ویسے بھی کوئی پابندی کہاں ہے….. پھر بھلا بقراط کے مطابق آنے والے دنوں سے چاہے جو بھی معنی نکلتے ہوں- جو کوئی معنی نہیں نکال سکتا وہ پھر ایسے پیام پڑھ کر کچھ بھی سوچ سکتا ہے … عام آدمی برسات کے لئے چھاتا خریدنے کی سوچتا ہے…. کسان بیج بونے کی، یا پھر برسات سے ہونے والے نقصان کی ……غریب اپنی جھونپڑی کے تنکے بچانے کی تو امیر اپنے محلوں کی کھڑکی میں بیٹھ کر رم جھم کا مزہ لینے کی…. عاشق و معشوق خواہشوں میں بھیگنے کی تو شرابی لڑکھڑانےکی، اور شاعر و ادیب افکارکے سمندر میں غوطہ زن ہونے کی – ..برسات کے دن جو آنے والے ہیں… بقراط بھی .. جی ہاں بھی کمال کرتے ہیں ….پتہ نہیں کیسی برسات؟ خونی برسات، دولت کی برسات، اندھیری برسات یا رو پہیلی برسات…. ہن برسانے والی برسات …. یا سات قحط کے بعد کی برسات….خوفناک برسات یا عافیت والی برسات کے دن ….یا پھر ناصر کی پہلی بارش ….جو محبت و سیاست سب پر یکساں اثر انداز ہوتی ہے کہ ….تیرا قصور نہیں میرا تھا…میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا …. اب میں سمجھا اب یاد آیا .. تو اس دن کیوں چپ چپ سا تھا …آج وہ سیڑھی سانپ بنی تھی….کل جہاں خوشبو کا پھیرا تھا…..پیاسی لال لہو سی آنکھیں …. رنگ لبوں کا زرد ہوا تھا…..وہم کی دیمک نے چہرے پر … مایوسی کا جال بنا تھا….یاد آئی وہ پہلی بارش……جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا….. یاد آئیں کچھ ایسی باتیں … میں جنہیں کب کا بھول چکا تھا ….
پتہ نہیں کمبخت بقراط کس برسات کے دنوں کے آنے کی نوید سنانا چاہ رہا ہے- اچھے دن آنے کی نوید سے ہی ملک امید وبیم کی کیفیت میں مبتلا ہو کر ابھی ابھی جشن تاجپوشی سے فارغ ہوا تھا … سوچ رہا ہے اچھے دن کتنے ہونگے اور کتنے دن رہیں گے ….. ابھی ابھی تو نئے وفا شعاروں نے کچھ عہد و پیماں کئے تھے… ابھی ابھی تو ایوانوں میں پھر ایک بار تو تومیں گونجی تھیں …ابھی الزامات کی ہلکی ہلکی بارش شروع ہوئی تھی……ابھی کل ہی تو ایک معصوم کو نفرت بغض و عناد اور فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھایا گیا تھا…… اور دلوں پر اتنی گرد چھائی ہوئی تھی کہ میڈیا کو کوئی دہشت گرد نظر نہیں آیا تھا ….ابھی پتہ نہیں کون سی برسات کے دن اور کیسے اچھے دن آنے والے ہیں … عقل حیران ہیں …اچھے دن ہوں یا برسات کے دن سب مشروط ہوتے ہیں…. کسی کے لئے خوشی تو کسی کے لئے غم کا باعث بنتے ہیں… پتہ نہیں کس کس کے دن اور کیسے کیسے دن آنے والے ہیں.. رب ہی جانے تو جانے…..یہ سب سوچتے ہوئے اچانک یاد آیا کمبخت بقراط کہیں پھنس نہ گیا ہو …کہیں تڑپ نہ رہا ہو ایسے ہی جیسے میز پر رکھا موبائیل اٹھائے جانے اور سنے جانے کو تڑپتا ہے …. جیسے جمہوریت میں کسان تڑپتا ہے…. بیروزگار تڑپتا ہے…. معصوم اور بے قصور تڑپتا ہے…. کسی کی لا پرواہیوں کی خاطر کہیں کو ئی مریض تڑپتا ہے تو کہیں کوئی سیاح تو کہیں کوئی مجبور و بیکس کسی بے رحم سرکاری عملہ کے ہاتھوں تڑپتا ہے……کہیں گولا باری میں کو ئی معصوم راہرو پھنس کر تڑپتا ہے… کوئی محنت کش طالب علم اسکول فیس کے لئے تڑپتا ہے….. کوئی بے گھرایک گھر کے لئے تڑپتا ہے توکو ئی بھوکا کھانے کے لئے اور کو ئی پیاسا پانی کے لئے تڑپتا ہے… اور کوئی شریف معصوم انسان قانونی موشگافیوں میں پھنس کر عدالت اور قید خانوں میں تڑپتا ہے……فرمایا حضور….. بقراط کا پیام پڑھکرمیاں برقاصد کو ہتھیلی پر رکھے رات بہت دیر تک سوچتے رہے..اچھے دن کب آئیں گے…. برسات کے دن کب آئیں گے….
جواب دیں