کبھی آپ کی توجہ اس جانب گئی کہ صوفیہ کے آستانوں سے منسوب عوام کی عقیدت کیوں ہے؟ کیا آپ نے غور کیا کہ جو لوگ خود اپنے اہل خاندان اور آباء و جداد کو مرنے کے بعد فراموش کرجاتے ہیں وہ صوفیہ کو ان کے انتقال کے سینکڑوں سال بعد بھی کیوں نہیں بھولتے؟ اصل میں یہ سب صوفیہ سے عوام کے غیر معمولی لگاؤ کا نتیجہ ہے ۔ عام لوگوں کی زندگی پر صوفیہ نے جو اثرات ڈالے، اس کے مطالعے او ر تحقیق کی ضرورت ہے مگر ان سے غیر معمولی عقیدت کی وجوہات کیا ہیں یہ بھی ریسرچ کا موضوع ہوسکتا ہے ۔ صوفیہ سے عقیدت اور ان کے مزارات سے وابستگی کی شرعی حدود کیا ہیں اس بحث سے قطعِ نظر ان سے عقیدت کا ہر انداز یہ ثابت کرتا ہے کہ انھوں نے عوام کے دلوں پر حکومت کی ہے اور انتقال کے سینکڑوں سال بعد بھی ان کے اثرات لوگوں کے دلوں پر قائم ہیں۔
مخصوص ایام پرفاتحہ کا رواج
بھارت وپاکستان میں قدیم زمانے سے بزرگوں کے نام سے فاتحہ دلانے کا رواج چلا آرہاہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب رائج ہوا، اور اس کے پیچھے کی وجوہات کیا رہی ہیں مگر یہ سماج میں صوفیوں کے اثرات کی دلیل ہے۔ اس خطے کے بیشتر حصوں میں کئی بزرگوں کے نام کے نیاز کا رواج ہے۔ جیسے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ، اویس قرنی، خواجہ معین الدین چشتی، امام جعفر صادق رحمہم اللہ وغیرہ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام سے ربیع الثانی کی گیارہویں تاریخ کو مرغ کے گوشت پر نیاز، تو شب برأت میں حضرت اویس قرنی کا فاتحہ حلوے پر ہوتا ہے۔ رجب کی چھٹی تاریخ کو مختلف شہروں کے محلے محلے میں خواجہ صاحب کے نام کی دیگیں لگائی جاتی ہیں تو اسی مہینے میں حضرت جعفر صادق کے نام سے کونڈے کی نیاز ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں سال بھر لوگ طرح طرح کے فاتحے دلاتے رہتے ہیں ،یہ سب صوفیہ سے عقیدت کے نام پر ہی ہوتا ہے اور ان رواجوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی مقبولیت اور عقیدت یہاں کے سماج میں اس قدر گہری ہے کہ مخالفتوں کے طوفان اور تحریروں وتقریروں کی سونامی بھی انھیں ختم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
بزرگوں کے نام پر بچوں کا نام
تقریباًساری دنیا کے مسلمانوں میں نیک بندوں اور اللہ والوں کے نام پر بچوں کے نام رکھنے کا رواج ہے۔صحابہ، اہل بیت اور تابعین کے نام پر عموماً نام رکھے جاتے رہے ہیں مگر صوفیہ کے نام پر بھی مسلمانوں میں خوب نام رکھنے کا چلن ہے ۔ مثلاً عبد القادر، معین الدین، قطب الدین،نظام الدین،شرف الدین، ولی اللہ، غلام غوث، پیر بخش، پیر محمد، مدار بخش،مخدوم، علاء الدین،بوعلی، رابعہ، اجمیری وغیرہ ۔ اس قسم کے نام برصغیر کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے ملکوں میں بھی رائج ہیں،جو ظاہر کرتے ہیں کہ صوفیہ کے اثرات بہت گہرے ہیں۔
بزرگوں کے نام پرمہینوں کے نام
اگر انسانی ناموں تک یہ باتیں محدود رہتیں تو ایک بات تھی مگر یہ اثر تو اس سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے۔ قمری مہینوں کے نام مخصوص ہیں اور عربی زبان میں ہیں۔ برصغیر کے عام مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان سے نابلد ہے اور گاؤوں میں رہنے والے ناخواندہ مسلمان اور گھریلو خواتین ان ثقیل عربی ناموں کو اپنی زبان پر لانے میں دقت محسوس کرتی ہیں لہٰذا انھوں نے اپنی سہولت کے مطابق کچھ نام رکھ لئے اور یہ نام پرانے زمانے سے لوگوں کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے ربیع الثانی کا نام بڑے پیر کا مہینہ رکھ لیا اور کچھ لوگ اسے گیارہویں کا مہینہ کہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس مہینے کو حضرت شیخ عبدلقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت ہے اور ان کا فاتحہ اس مہینے کی گیارہویں تاریخ کو کرانے کا رواج چلا آرہا ہے۔ انھیں عرف عام میں بڑے پیر بھی کہتے ہیں۔ یونہی رجب کے مہینے میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا عرس منایا جاتا ہے، اس نسبت سے گاؤوں کی عورتوں میں اس مہینے کو خواجہ صاحب کا مہینہ کہاجاتا ہے۔ اسے ان پڑھ عوام کھجم الدین کا مہینہ بھی کہتے ہیں جو خواجہ معین الدین کی تغلیط ہے۔ اسی طرح جمادی الاول کے مہینے کو مدار صاحب کا مہینہ بھی کہاجاتا ہے۔ قطب المدار کے نام سے مشہور بزرگ کا اصل نام سید بدیع الدین تھا جو شام کے رہنے والے تھے مگر بھارت چلے آئے تھے ان کی قبر کانپور کے مکن پور علاقے میں ہے۔ مہینے کا نام اپنی سہولت کے اعتبار سے رکھنا تھا تو کسی بھی طرح کا رکھ سکتے تھے مگر خاص صوفیہ اور بزرگوں کے نام پر رکھنا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ صدیوں سے لوگوں کے دلوں میں ان کی عقیدت راسخ ہے لہٰذا انھوں نے مہینوں کے نام بھی اسی قسم کے رکھے۔ یونہی سوموار کو پیر کا دن بھی کہتے ہیں اور ایسا کوئی گاؤوں کے ناخواندہ اور نیم خواندہ لوگ نہیں کہتے بلکہ پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ نادانستہ طور پر اس اثر کو سبھی لوگوں نے قبول کیا ہے۔ پیر کا لفظ صوفی سلسلوں کی مخصوص اصطلاح ہے جو مرشد کے مفہوم میں مستعمل ہے۔
تصوف کا اثر محاوروں پر
اردو،ہندی کا ایک محاورہ ہے ’’ابھی دلی دور ہے‘‘ ۔ ہر محاورے کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے کی کہانی بعض لوگوں نے یہ لکھی ہے کہ ایک مرتبہ دلی کے حکمراں سلطان غیاث الدین تغلق نے بنگال کی مہم سے واپسی پر حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوں۔ سلطان کے ساتھ شیخ کے تعلقات اچھے نہیں تھے اور وہ کسی بھی بادشاہ کی خدمت میں جانا پسند نہیں کرتے تھے۔جب آپ کے پاس شاہی فرمان پہنچا تو بادشاہ، دلی کے راستے میں تھا مگر دلی نہیں پہنچا تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا ’’ہنوز دلی دور است‘‘ یعنی ابھی دلی دور ہے۔ اتفاق سے دلی کے قریب بادشاہ کے استقبال کے لئے لکڑی کا محل بنایا گیا تھا جہاں وہ ہاتھیوں کو دیکھ رہا تھا اور اسی دوران محل گر گیا جس میں دب کر اس کی موت ہوگئی۔ حضرت نظام الدین اولیاء کے قول نے ایک محاورے کی شکل اختیار کرلی۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی عوام کے اوپر صوفیوں کے اثرات کی ایک دلیل ہے۔ اسی طرح ’’کھڑے پیر کا روزہ رکھنا ‘‘بھی ایک محاورہ ہے۔ یہ محاورہ تب استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی شخص بیٹھنے کو تیار نہ ہو اوردیر تک کھڑے رہنے پر بہ ضد ہو۔ یقیناًاس کی اختراع بھی سماج پر صوفی اثرات کے تحت ہی ہوئی ہے۔ اس قسم کے اور بھی محاورے عوام کی زبان پر چڑھے ہوئے مل جائیں گے جو ہمارے دعوے کی دلیل ہیں۔
یہ بھی اثر ہے
ہمارے ملک میں چڑیوں کے پالنے کا رواج ہے اور یہ قدیم زمانے سے چلا آرہاہے۔ یہاں جو لوگ طوطے پالتے ہیں وہ انھیں پڑھاتے بھی ہیں، بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ طوطے کو سکھاتے ہیں ’’پیر ،فقیر دستگیر اٹھا بستر، چل مکے زیارت کو‘‘ طوطے نقل میں پڑھتے ہیں۔یہ کوئی آج کی روایت نہیں ہے بلکہ پرانے دنوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ آخر پرانے زمانے سے لوگ یہی جملہ کیوں پڑھاتے ہیں جس میں پیر فقیراور دستگیر کا ذکر ہوتا ہے؟ ظاہر ہے اس کے پیچھے بھی لوگوں کی اہل تصوف سے محبت اور ان کے سماج پر اثرات کا اظہار ہوتا ہے۔ پیر ، فقیر اور دستگیر جیسے الفاظ خاص تصوف اور صوفیوں سے متعلق ہیں۔
قدیم لوک گیتوں پر صوفیہ کا اثر
قدیم ہندوستانی روایات میں سے یہاں کے لوک گیت بھی ہیں۔ یہ لوک گیت عوام کے مزاج اور سوچ کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ شادی بیاہ ہوں یا بچوں کی پیدائش، فصل کی بوائی کا موسم ہو یا کٹائی کا، خواتین گھر میں چکی پیس رہی ہوں یا ہاتھ میں گودنے گدوارہی ہوں،بسنت کے موسم میں باغوں میں جھولے جھولنے کا موسم ہو یا برسات میں رم جھم پھواروں کا،گاؤوں میں گیت گائے جاتے ہیں اور اس میں خصوصی دلچسپی خواتین کو رہتی ہے۔ شادی کی ہر رسم کے ساتھ ایک گیت گایا جاتا ہے اور ایسے گیتوں کو تقریباتی یاسنسکار گیت کہتے ہیں۔یہ روایت ملک کی تہذیبی تاریخ کا حصہ رہی ہے اور ہر علاقے ، ہر برادری اور ہر زبان کے لوگوں میں دیکھی گئی ہے۔ جوگیت قدیم دور سے چلے آرہے ہیں اور عوام کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں، ان میں ایسے گیتوں کی بھی کمی نہیں جنھیں خاص بزرگوں اور صوفیوں کی مدح میں گایا گیا۔ حالانکہ بعض گیتوں کے مضامین حمدیہ، نعتیہ ہوتے ہیں اور بعض میں اہل بیت اطہار کی منقبت ہوتی ہے مگر اسی کے ساتھ سینکڑوں ایسے لوگ گیت بھی رائج ہیں جن میں صوفیوں اور بزرگان دین کی مدح سرائی کی جاتی ہے۔ اس قسم کے گیت بھوجپوری، اودھی، پوربی، روہیل کھنڈی،بندیل کھنڈی، برج بھاشا، راجستھانی، کشمیری، گوجری، پنجابی اور سندھی سے لے کر بنگالی اور آسامی تک میں موجود ہیں۔ایسے ہی گیتوں میں شامل ہے وہ مشہور قوالی جسے اکثر قوالوں کو گاتے سنا جاتا ہے
آج رنگ ہے، ایمان کا رنگ ہے
مرے خواجہ پیا کے گھر رنگ ہے
میں نے پیر پایو نظام الدین اولیاء
نظام الدین اولیاء، علاء الدین اولیا
اترپردیش کے لوک گیتوں میں بیشتر مذہبی گیت حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت سید سالار مسعود غازی کے بارے میں ہیں۔ ان میں ایک گیت ہے:
موری ڈوری لگی اجمیر خواجہ پیر کی
کارے اٹھالاؤں الاّ تیری مہجت
کارے اٹھالاؤں خواجہ ترا روجا
کنکر اٹھالاؤں الاّ تیری مہجت
پتھر اٹھالاؤں خواجہ تیرا روجا
عرس کی رسموں میں ایک گاگر کی رسم شامل ہے جس کے متعلق بہت سے گیت گائے جاتے ہیں۔ ایسے عوامی گیتوں میں ایک مشہور لوک گیت ہے۔ یہ گیت اترپردیش اور بہار کے علاقے میں زیادہ سنا گیا ہے۔
اوڑھو جی چدریا مورے ساجنا
میں تو لائی پھولوں کی چدریا
اوڑوھوجی مورے ساجنا
میں تو رنگ برنگی رنگ کر لائی
حضرت سید سالار مسعود غازی کی قبر بہرائچ میں ہے اور مشرقی اترپردیش میں ان کے بہت سے قصے مشہور ہیں،جن کی صداقت تحقیق طلب ہے ،ان میں سے بعض قصوں کو لوگوں نے گیت کی شکل بھی دے دی ہے اور ان کی مدح میں بہت سے گیت ادھر گائے جاتے ہیں۔جیسے ایک گیت یوں ہے:
گاجی میاں بڑے مردانہ
رن بچ دیکھیں ان کو راجپوتانہ
رن چھوڑ بھاگ چلیں کفرانہ
حضرت مسعود غازی سے متعلق گیتوں کو پوربی یوپی میں سہلے کہا جاتا ہے ایک مشہور سہلہ جس میں ان کی پیدائش کا ذکر ہے،اس طرح ہے:
مامل میّا کی کوکھیا ہوئی گئی اجیار
جب ہِیں جنموا بھئے گاجی میاں تہار
چوترپھا ہوئی گئی ساری نگریا گلجار
مامل میا کی کوکھیا ہوئی گئی اجیار
ایک سہلے میں غازی میاں کے بیاہ کا ذکر ہے اور اس سلسلے میں پورا قصہ ہی بیان کیا گیا ہے، اس کی دو لائنیں اس طرح ہیں:
گاجی پیر بیاہن چلا رے
شہر ردولی بیاہن جیہیں پورے ملک ماں سور
ایک سہلہ یوں ہے:
سید سالار مسعود گاجی
چار کھونٹ میں نوبت باجی
سیوک داس کا رکھیں راجی
اسی قسم کے عوامی گیت مغربی اترپردیش میں حضرت علاء الدین صابرکے بارے میں رائج ہیں جن کی قبر کلیر میں ہے، ایک گیت ہے
میں صابر صاب کو سمریاں گاؤں
ولیوں کا سہارا لے کر فتح میں پاؤں
ہے دل میں مرے ارمان کہ کلیر جاؤں
قدموں میں ان کے جاکے سرکو جھکاؤں
غرضیکہ صوفیہ اور اللہ والوں کے متعلق اس قسم کی باتیں بہت عام ہیں۔ ان میں ممکن ہے کچھ باتیں درست نہ ہوں اور کچھ ایسی ہوں جن میں سچ کے ساتھ ساتھ کچھ جھوٹ بھی شامل ہوگیا ہومگر ان کی عوامی شہرت ظاہر کرتی ہے کہ عام لوگوں میں ان بزرگوں کی مقبولیت رہی ہے اور ان کے اثرات ہمہ گیر تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان سے متاثر ہوکر لوگوں نے بچوں کے نام رکھے،گیتوں کی اختراع کرلی، مہینوں کے نام رکھ لئے اور ضر ب الامثال ایجاد کرلیں۔
جواب دیں