شہاب مرزا
جب آزادی کا سورج طلوع ہوا تھا تو اس کے پیچھے ایک ملک میں صرف اور صرف مسلمانوں ہی کا خون شامل تھا اور پورے 190 سالہ عرصے میں آزادی کی ابتداء سے لیکر آزادی کے حصول تک اس ملک میں کسی ماں نے وہ فولاد پیدا نہیں کیا جس نے مسلمانوں کی قربانیوں کا ایک نذیر بھی پیش کیا ہو یا بجائے خون کہ پیشاب کا ایک قطرہ بہایا ہو کہ جس وقت مسلمانانِ ہند اس ملک کو آزادی دلانے کی خاطر اپنے خون جگر کے دریا بہا رہے تھے اس وقت آج کے دیش بھکت انگریزوں کی خاطر مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کر مادر وطن کے تئیں غداری کا بدنما کارنامہ انجام دے رہے تھے یہ بھی ایک عجیب المیہ ہے کہ آزادی کے لئے گردنوں کا نذرانہ دینے والوں کو ملک کا غدار بنادیا جائے اور مسلمانوں پر گجرات سے لیکر دہلی تک مظالم ڈھاتے جائے اور آخر کار انہیں ڈٹینشن سینٹر میں بند کر ان کے خون سے جشن منانے کی تیاری کی جائے
خدارا! یہ صرف اس ملک کی حد تک المیہ ہوتا تو شاید سہہ بھی لیا جاتا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جن ممالک کو اس ملک کے مسلمان کی قوت ایمانی پر ناز تھا جن کی مثال عجم سے لے کر عرب تک سورج کی طرح روشن تھی آج انہی پر مسلم دوست ممالک نے بھی نظریں پھیری بلکہ عین ایسے وقت جب ملک عزیز میں بنت حوا کا دامن داغدار کیا جانے لگا اور جسکی عصمتوں کی سرعام دہجیاں اُڑا دی جانے لگی عین اس وقت اس ملک کے ظالم کو پاسبان حرم نام کے نام نہاد خادمین نے فرشتہ صفت ہونے کا اعزاز بخشا اور مظلوم مسلمانوں اور بنت ہواؤں کی جلتی عصمتوں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگائی
تاریخ انسانیت کا شاید یہ پہلا موقع ہوگا اور تاریخ انسانیت نے شاید پہلی مرتبہ نفاق کو اتنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہوگا یہی ایک علامت جب قیامت بن کر 25 فروری 2020 کے روز دہلی پر ٹوٹ پڑی تو مظلوموں کی چیخوں اور بنت حوا کی کربوں سے پوری کائنات دہل گئ
دہلی فسادات کے وقت شاہین باغ اورنگ آباد کمیٹی کی جانب سے دہلی فساد زدہ علاقوں میں امدادی کام کا موقع ملا تھا اورنگ آباد کمیٹی نے حقیقی متاثرین تک امداد پہنچانے کا کام کیا جہاں شرپسندوں نے فسادات کے دوران کافی مالی نقصان پہنچایا تھا جب آپ ان مقامات پر جاتے ہے تو آپ کا ٹکراؤ کسی نا کسی متاثر سے ہوتی ہے جسکی کہانی انسانی جذبات کو جھنجھوڑ دیتی ہے لیکن زندگی کا تجربہ ہے دہلی ایسا مقام ہے جہاں ہر دو قدم پر ہر کسی کی انسانیت سوز کہانی ہے شرم آتی ہے کہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہے جہاں انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کانٹا جاتا ہوں دہلی کے چھوٹے سے حصے میں کئی واقعات ہے جو انسانیت کو شرمسار کرتی ہے دہلی میں ہوئے منظم و منصوبہ بند فسادات کی تیاری کئی عرصے سے جاری تھی آفیشل رپورٹ گمراہ کن ہے جبکہ زمینی خبروں کے مطابق، 2600 سے زائد لوگوں کو دہلی فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں یا تو حراست میں لیا گیا ہے یا انہیں گرفتار کیا گیا ہے، ان میں سے بیشتر مسلم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فسادات کے دوران مارے گئے 53 افراد کی تفصیلات سرکاری طور پر جاری کی گئی ہیں، ان میں بھی اکثریت مسلمانوں ہی کی ہے۔ جبکہ صحیح تعداد 400 سے زیادہ کی ہے 3 دن چلنے والے فرقہ وارانہ تشدد میں شرپسندوں نے تقریباً 2500 کروڑ کی املاک کو تباہ ہو گئی ہے۔ کم از کم 19 مساجد اور 4 مدارس میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے یا ان کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ جن گھروں اور دکانوں کو لوٹا گیا اور برباد کیا گیا وہ بھی زیادہ تر مسلمانوں کے ہیں۔ عینی شاہدین سے بات کی گئی تو اس خوفناک منظر کو بیان کرتے کرتے متاثرین رونے لگے کیونکہ دنگائیوں نے پولیس کی پشت پناہی میں پورا کام مکمل کیا دنگائی مقامی نہیں تھے لیکن انہیں انتظامیہ اور مقامی لوگوں کی مدد حاصل تھی
یہ سب کچھ وزیر داخلہ کی براہ راست ماتحتی میں کام کرنے والی دہلی پولیس کے صرف کچھ نہ کرنے کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ متعدد ویڈیو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ تمام واقعات دہلی پولیس کی پہل اور شمولیت سے ہوئے ہیں۔ ایسے کئی ویڈیو ہیں جو یہ صاف دکھاتے ہیں کہ پولیس کے لوگ سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑ رہے ہیں، تاکہ آگ زنی کرنے والوں اور فسادیوں کے چہرے اور حرکتیں ان میں نہ آنے پائیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ پولیس کے لوگ شدید طور پر زخمی لوگوں کو گالیاں دے رہے ہیں اور ان سے قومی ترانہ گانے کے لئے کہہ رہے ہیں اور انہیں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران ’آزادی‘ کے نعرے لگانے کی وجہ سے طعنے کس رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں پتھر اور اینٹیں اٹھانے میں فسادیوں کی مدد کرتے ہوئے اور فسادیوں کے ساتھ پتھربازی کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا یہ بھی بات علم میں آئی ھیکہ پولیس دنگائیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے پیر چھو کر آشیرواد لے رہے تھے
متاثرین کے مطابق پولیس شرپسندوں کے ساتھ مل کر تشدد کر رہی تھی بے گناہوں کو زدکوب کرنے، موت کی گھاٹ اتارنے میں، املاک کو نقصان پہنچانے میں، پیش پیش رہی آدھے سے زیادہ پولیس والے وردی میں ملبوس نہیں تھے اور اب پولیس بے گناہوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح جیلوں میں ٹھوس رہی ہیں
بڑے پیمانے پر امدادی کام جاری ہے لیکن مالی نقصان زیادہ ہونے کی وجہ سے حالات معمول پر آنے وقت لگ جائے گا رپورٹ کے مطابق 2500 کی املاک کو آگ کے حوالے کیا گیا جسمیں اکثریت مسلم کی ہے جو روزانہ تنخواہ پر کام کرتے ہیں
فسادات ہو گئے اربوں کی املاک تباہ و برباد ہو گئی اب دہلی پولیس ان لوگوں کو فسادات کا ذمہ دار بتا رہی ہے جو سی اے اے، این آرسی، اور شاہین باغ تحریک سے جڑے ہوئے تھے
12 ستمبر کو دہلی پولیس نے چارج شیٹ تیار کی جس میں ملک کے کئی سرکردہ شخصیات کے نام ہیں جن میں یوگیندر یادو، راہل رائے، سیتا رام یچوری، جیوتی گھوش، اپروانند اور عمر خالد کا نام شامل ہیں پھر اسی رات 11 بجے عمر خالد کو UAPA کہ تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے عمر خالد پر پہلا الزام ھیکہ انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت دورے کے دوران عوام کو سڑکوں پر نکلنے کیلئے اکسایا تھا دہلی پولیس کے پاس عمر خالد کی تقریر کے ویڈیو کے علاوہ کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ جس سے ثابت ہو سکے کہ
دہلی فسادات کی پلاننگ عمر خالد نے کی ہو اس ویڈیو میں عمر خالد نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بتائیں گے کہ بھارت کے وزیراعظم کس طرح گاندھی جی کہ اصولوں کی دھجیاں اڑا کر ملک کو بانٹنے کا کام کر رہے ہیں!
تو پھر سڑکوں پر اترنے کی بات کب سے ملک مخالف ہوگئی؟ 2014 کے بعد سے کسان طلبہ اور ریزرویشن کے لیے عوام سڑکوں پر اتر رہی ہیں اپنا احتجاج درج کروا رہے ہیں تو کیا سرکار سبھی احتجاجیوں پر UAPA کے تحت کاروائی کرے گی اسکے برخلاف کپل مشرا نے دہلی کے ڈی سی پی کے بغل میں کھڑے ہوکر کہا تھا اگر شاہین باغ نہیں اٹھا تو ہم پولیس کی بھی نہیں سنے گے، مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے بھری سبھا میں کہاتھا "دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو” کیا ان پر بھی کوئی کاروائی ہوگی؟ یا صرف مسلم نام کی وجہ سے عمر خالد کو پھنسایا جائے گا کیونکہ یہ حکومت طلباء سے ڈرتی اسی لئے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے مسلم طلباء کو نشانہ بنا رہی ہیں
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں