پوری دنیا میں امن کا دعویٰ کرنے والوں نے خاموشی اختیار کررکھی ہے ۔افسوسناک ایک تحقیقی رپورٹ کے سے پتہ چلاہے کہ بدھ مت کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ مسلمان برما میں باہر سے آئے ہیں اور انہیں برما سے بالکل اسی طرح ختم کردیں گے جس طرح اسپین سے عیسائیوں نے مسلمانوں کو ختم کردیا تھا۔ لیکن تاریخی حوالے سے برما کا ایک صوبہ اراکان وہ سرزمین ہے جہاں ہارون رشید کے عہدِ خلافت میں مسلم تاجروں کے ذریعے اسلام پہنچا، اس ملک میں مسلمان بغرض تجارت آئے تھے اور اسلام کی تبلیغ شروع کردی تھی،اسلام کی فطری تعلیمات سے متاثرہوکر وہاں کی کثیر آبادی نے اسلام قبول کرلیا اور 1430ء میں سلیمان شاہ کے ہاتھو ں اسلامی حکومت کی تشکیل کرلی، اس ملک پر ساڑھے تین صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی، مسجدیں بنائی گئیں، قرآنی حلقے قائم کئے گئے، مدارس وجامعات کھولے گئے، ان کی کرنسی پر’ پہلاکلمہ ‘کندہ ہوتا تھا اور اس کے نیچے خلفائے راشدین کے نام درج ہوتے تھے۔ اس ملک کے پڑوس میں برما تھا جہاں بودھوں کی حکومت تھی، مسلم حکمرانی بودھوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے 1784ء میں اراکان پر حملہ کردیا، بالآخر اراکان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، اسے برما میں ضم کرلیا اوراس کا نام بدل کر میانمار رکھ دیا۔ 1824ء میں برما برطانیہ کی غلامی میں چلاگیا، سوسال سے زائدعرصہ غلامی کی زندگی گذارنے کے بعد1938ء میں انگریزوں سے خودمختاری حاصل کرلی، آزادی کے بعدانہوں نے پہلی فرصت میں مسلم مٹاؤ پالیسی کے تحت اسلامی شناخت کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی، دعاۃ پر حملے کئے ، مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبورکیا ،چنانچہ پانچ لاکھ مسلمان برما چھوڑنے پر مجبورہوئے، کتنے لوگ پڑوسی ملک بنگلادیش ہجرت کرگئے، مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے ہجرت کرکے مکہ معظمہ میں بودوباش اختیارکرلی، آج مکہ کے باشندگان میں 25فیصد اراکان کے مسلمان ہیں۔ اس طرح مختلف اوقات میں مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبورکیا گیا، جولوگ ہجرت نہ کرسکے ان کی ناکہ بندی شروع کردی گئی، دعوت پر پابندی ڈال دی گئی ، اسلامی تبلیغ کی سرگرمیوں پرروک لگادی گئی، مسلمانوں کے اوقاف چراگاہوں میں بدل دئیے گئے ، برما کی فوج نے بڑی ڈھٹائی سے ان کی مسجدوں کی بے حرمتی کی، مساجد و مدارس کی تعمیر پر قدغن لگا دیا، لاؤڈسپیکر سے اذان ممنوع قرار دی گئی، مسلم بچے سرکاری تعلیم سے محروم کیے گیے، ان پرملازمت کے دروازے بندکردئیے گئے ،1982میں اراکان کے مسلمانوں کو حق شہریت سے بھی محروم کردیا گیا، اس طرح ان کی نسبت کسی ملک سے نہ رہی، ان کی لڑکیوں کی شادی کے لیے 25 سال اورلڑکوں کی شادی کے لیے30 سال عمر کی تحدید کی گئی، شادی کی کاروائی کے لیے بھی سرحدی سیکوریٹی فورسیز سے اجازت نامہ کا حصول ناگزیر قراردیا گیا، خانگی زندگی سے متعلقہ سخت سے سخت قانون بنائے گئے۔ ساٹھ سالوں سے اراکان کے مسلمان ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کے بچے ننگے بدن، ننگے پیر، بوسیدہ کپڑے زیب تن کئے قابل رحم حالت میں دکھائی دیتے ہیں، ان کی عورتیں مردوں کے ہمراہ کھیتوں میں رزاعت کا کام کرکے گذربسر کرتی ہیں۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسے سنگین اورروح فرسا حالات میں بھی مسلمان اپنے دینی شعائر سے جڑے ہیں اور کسی ایک کے متعلق بھی یہ رپورٹ نہ ملی کہ دنیاکی لالچ میں اپنے ایمان کا سودا کیاہو۔ جون کے اوائل میں مسلم مبلغ 10مسلم بستیوں میں دعوت کے لیے گھوم رہے تھے اور مسلمانوں میں تبلیغ کررہے تھے کہ بودھوں کا ایک دہشت گردگروپ ان کے پاس آیا اور ان کے ساتھ زیادتی شروع کردی، انہیں مارا پیٹا، درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جسموں پر چھری مارنے لگے، ان کی زبانیں رسیوں سے باندھ کر کھینچ لیں یہاں تک کہ دسیوں تڑپ تڑپ کر مرگئے، مسلمانوں نے اپنے علما کی ایسی بے حرمتی دیکھی تواحتجاج کیا، پھر کیا تھا، انسانیت سوز درندگی کا مظاہرہ شروع ہوگیا، انسان نما درندوں نے مسلمانوں کی ایک مکمل بستی کو جلادیا ،جس میں آٹھ سو گھر تھے ، پھر دوسری بستی کا رخ کیا جس میں700 گھر تھے اسے بھی جلاکر خاکستر کردیا، پھر تیسری بستی کا رخ کیا جہاں 1600گھروں کو نذرآتش کردیا اور پھر فوج اور پولیس بھی مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہوگئی۔ جان کے خوف سے 9ہزار لوگوں نے جب بری اور بحری راستوں سے بنگلادیش کا رخ کیا تو بنگلادیشی حکومت نے انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا اور اس کے بعد سے بدھ مت کے دہشت گرد برمی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مگر دنیا اس پر خاموش تھی، اور کوئی بھی عالمی ادارہ اس پر خبر تک دینے کو تیار نہ تھا مگر اسلامی دنیا میں مسلمانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس قتل عام کی تصاویر پھیلائیں اور عوامی احتجاج شروع ہوا تو پھر برما سے متصل بھارتی ریاست آسام میں بھی مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔اسلامی دنیا میں مسلم عوام کے احتجاج کے بعد کچھ مسلم حکومتوں نے بھی اپنی تشویش ظاہر کی اور عالمی ادارے بھی اپنی رپورٹس جاری کررہے ہیں۔ اسی سلسلے میں چھپن صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کو جاری کرنے کا مقصد دنیا کی توجہ برما میں اقلیتی مسلمانوں کے خلاف جاری ریاستی تشدد کی جانب مبذول کروانا ہے۔
غیرملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال جون میں مسلمانوں اور بدھوں کے درمیان فسادات ریاست رخائن میں شروع ہوئے۔برما میں مذہبی فسادات کی نئی لہر پھوٹ پڑی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ دارالحومت رنگون کے قریبی قصبے آوکھان میں بدھ مت کے بلوائیوں نے مسلمانوں کی مساجد اور جائیدادوں پر حملہ کر دیا۔اور برمی صدر کے ترجمان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر کہا ہے کہ حالات اب قابو میں ہیں۔ ترجمان نے فیس بک پر جاری ہونے والے پیغام میں کہا ہے کہ آوکھان میں فسادات کا آغاز اْس وقت ہوا جب ایک خاتون حادثاتی طور پر بدھ بھکشو سے ٹکرائی اور ٹکر کے نتیجے میں بھکشو کا کشکول زمین پر گر گیا۔پولیس نے مظاہرین کو مْنتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔ فسادات کے دوران کچھ دکانوں کو نقصان پہنچا لیکن کوئی بھی عمارت جلائی نہیں گئی۔لیکن کچھ مظاہرین نے مسجد پر بھی پتھراؤ کیا۔برما میں مسلمانوں اور بْدھوں کے درمیان کشیدگی برقرار ہے۔ سرکاری کمشنر نے 2012 میں ہونے والے فسادات کو خطرناک ترین قرار دیا تھا اور ریاست رخائن میں سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد دوگنی کرنے کی تجویز دی ہے۔ گزشتہ سال مغربی ریاست رخائن میں ہونے والے نسلی فسادات میں 190 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً ایک لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی۔ رواں برس مارچ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد میں کم از کم 40 افراد ہلاک ہوئے تھے۔سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان روہنگیا آبادی اور بدھ مت کے پیروکاروں کی آبادیوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا عمل جاری ہے۔ حکومت نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ نسلی فسادات کے خاتمے کا یہ طویل مدتی حل نہیں ہے۔برما میں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کو برما کی حکومت نے شہریوں کا درجہ بھی نہیں دیا ہے اور اقوامِ متحدہ کے مطابق روہنگیا دنیا کی سب سے زیادہ ستائی جانے والی قوموں میں سے ایک ہیں۔بی بی سی کو برما سے گزشتہ دنوں ملنے والی ویڈیو فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا کہ برما کی پولیس خاموش تماشائی بن کر بدھ بلوائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر حملے اور ان کے قتل کو دیکھ رہی ہے۔اس ویڈیو میں ایک مسلمان سْنار کی دکان پر بدھ بلوائی حملے کر رہے ہیں ادھر برما کی حزبِ اختلاف کی رہنما آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ بدھ اکثریت کے ملک برما میں مسلمانوں کو زیادہ سکیورٹی ملنی چاہیے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں اور بدھ مت کو ماننے والوں کی باہمی چپقلش اب جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔فلسطین‘ کشمیر اور بوسنیا ہرزگونیا کے بعد برما جیسے پسماندہ ملک میں بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد کی واقعات سے صرف ایک حقیقت ہی آشکار ہوتی ہے ۔برما کے بارے میں عمومی تاثر یہ رہا ہے کہ یہ ایک پرامن ملک ہے لیکن وہاں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے برما ایک ظالم ملک کے طور پر ابھرا ہے جو اس ملک کی حکومت کے لیے اچھا تاثر نہیں ہے۔ مسلم ممالک کو برما کی حکومت سے برمی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم رکوانے کے لیے سفارتی سطح پر بات کرنی چاہیے تاکہ برما میں ہونے والے مظالم دیگر مسلم ممالک کے عوام میں اشتعال کا باعث نہ بنیں۔ہیومن رائیٹس واچ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں برما کی حکومت کو گذشتہ برس مغربی صوبے رکھائین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور وہاں رہنے والے روہنگا مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔حکومت نے جو کیا وہ ’یکطرفہ‘ اور ’ناقابل قبول‘ تھا۔رپورٹ کے مطابق سکیورٹی فورسز روہینگا مسلمانوں سے ان کے عارضی اور معمولی ہتھیار چھینے اور ان کا قتل عام کرنے کی سازش میں شامل ہوئے۔2012 میں جون اور اکتوبر کے مہینوں میں رکھائین بدھ مت کے پیروکاروں کے مجمعے نے سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو بے دریغ قتل کیا۔ نیویارک سے شائع ہونے ہیومن رائیٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے نہ صرف اپنے سامنے مسلمانوں کا قتل عام ہونے دیا بلکہ وہ اس میں خود بھی شریک ہوئے۔ہیومن رائیٹس واچ میں ایشیاء کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹ سن کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی چھان بین، مکمل تفتیش کی ناکامی اور ملوث عہدیداروں کو سزا نہ ملنے کی وجہ سے ملک کے دوسرے حصوں میں بھی مسلمانوں کے خلاف جذبات کو مزید بھڑکنے میں مدد ملی۔ ان کا اشارہ پچھلے ماہ مارچ میں وسطی میانمار میں ہونے والی ان پرتشدد کارروائیوں پر تھا جس میں تینتالیس افراد قتل جبکہ بارہ سو سے زائد بے گھر ہو گئے تھے۔فل رابرٹ سن کے الفاظ، ’’ رکھائین میں جو کچھ ہوا اس نے مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکانے اور پرتشد کارروائیاں کرنے میں چنگاری کا کام کیا۔‘‘
جواب دیں